بالی ملاقات ۔۔ امریکا چین تعلّقات پر اثرات
بائیڈن انتظامیہ کو حالیہ سربراہی اجلاس کے مثبت پہلوؤں کو حقیقی نتائج میں بدلنے کی ضرورت ہے
مُصنّف اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔
صدر شی جن پنگ کی بالی میں اپنے امریکی ہم منصب جو بائیڈن سے سربراہی سطح کی بات چیت میں طے پایا کہ باہمی احترام، پُرامن بقائے باہمی اور تصادم سے بچاؤ کے اقدامات دوطرفہ تعلّقات کو درست سمت میں آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
تاہم ملکی سطح پر مثبت نظریات کو عملی اقدامات میں ڈھالا جانا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ تعلّقات خراب نہ ہوں۔ یہ تعلّقات دونوں ممالک کے لیے بے سُود ہونے کی بجائے دونوں ممالک کے لیے سُود مند ہونے چاہئیں۔
صدر شی اور صدر بائیڈن کے درمیان گھنٹوں طویل سربراہی بات چیت سے امریکا اور چین کے مابین دوطرفہ تعلّقات کو درست سمت میں لے جانے کے امکانات کا اظہار ہوا۔ سفارت کار اور ماہرینِ تعلیم جسے اکیسویں صدی میں دنیا کے سب سے اہم دوطرفہ تعلّقات کے طور پر بیان کرتے ہیں، اُنہیں اب بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے مثبت نظریات کو تقویت دینے کے لیے عملی اقدامات درکار ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سربراہی اجلاس کی بات چیت کے چند گھنٹے بعد امریکی کانگریس کے مشاورتی پینل نے تائیوان کی جانب چینی سرگرمی کی صورت میں چین کے خلاف پابندیاں لگانے کے لیے قانون سازی پر زور دیا۔
ایک مُستقل انٹرایجنسی کمیٹی، یو ایس چائنا اکنامک سکیورٹی ریویو کمیشن (یو ایس سی سی) سابق سینیئر سرکاری عہدیداروں کا ایک دو طرفہ گروپ ہے جو امریکی حکومتی حلقوں اور مقننہ دونوں پر اثر انداز ہونے کے لیے مشہور ہے۔
اگرچہ صدر بائیڈن کے بیانات کو اچھی پذیرائی ملی، توقع یہ ہے کہ ایسی یقین دہانیوں کو ٹھوس اقدامات کی حمایت حاصل ہے جو بصورتِ دیگر امریکی ملکی پالیسی سازی میں موجود نہ تھیں۔
صدر شی کی جانب سے یہ واضح کیے جانے کے بعد کہ تائیوان کا سرزمین چین سے پُرامن اتّحاد چینی عوام کی اُمنگوں کی نمائندگی کرتا ہے اور اس پر کوئی بات چیت نہیں کی جا سکتی، توقع ہے کہ واشنگٹن ڈی سی چین کے اصولی مؤقف کا احترام کرے گا اور کسی بھی ایسی قانون سازی کو روکے گا جس سے چینی خودمختاری کو نقصان پہنچے۔
حوصلہ افزا بات یہ تھی کہ صدر بائیڈن نے “پانچ انکار” کی بات کی جس میں چین سے سرد جنگ شروع نہ کرنا، چین کے خلاف اتّحاد کو مضبوط نہ کرنا اور تائیوان کی آزادی کا مطالبہ نہ کرنا شامل ہے۔
تاہم غور کیجیے کہ تائیوانی فوج سے بہتر ہم آہنگی کے لیے امریکی کانگریس کے دو طرفہ کمیشن کے مطالبات صدر شی جن پنگ کے پُرامن بقائے باہمی کے مطالبات بشمول اختلافات اور تنازعات طے کرنے کے لیے تین چین – امریکی مشترکا اعلامیے کی پاسداری سے مُتصادم ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اپنے مفادات کے حصول کے لیے تائیوان کو بطور سیاسی حربہ استعمال نہ کرنے کی بار بار کی یقین دہانیوں اور گہرے انتشار کا شکار اور مُنقسم کانگریس کے ذریعے کی جانے والی ملکی پالیسی سازی کے درمیان بھی رابطے کا واضح فقدان موجود ہے۔
لہٰذا یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ بالی سربراہی ملاقات کے مثبت پہلوؤں کو حقیقی شکل دے اور بگاڑ پیدا کرنے والوں کو روکے۔ چین کے خلاف جھوٹی اطلاعاتی مہم اور ادراک کی کمی مُستقبل کے تعلّقات پر منفی اثر ڈالے گی۔
جیسا کہ صدر شی نے کہا، امریکا اور چین کو ایک دوسرے کے تزویراتی عزائم، خارجہ پالیسی کی ترجیحات اور ملکی پالیسی سازی کو غیر جانبداری اور منصفانہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔ اس کے باوجود ڈیٹا، تجارت، سرمایہ کاری اور مالیاتی نظام کے شعبوں میں امریکا چین تعلّقات کو توڑنے کے منصوبے ابھی تک جاری ہیں۔
امریکی کانگریس چین سے تکنیکی اور تجارتی تعاون پر کڑی حدود طے کرنے پر زور دے رہی ہے حالآنکہ امریکی معیشت کو افراطِ زر اور توانائی کی بڑھتی قیمتوں کے سبب کساد بازاری کا سامنا ہے۔
اگر امریکا چینی معیشت سے آزادانہ تجارتی تعلّقات کو مستحکم کرے تو کافی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
اگر سربراہی سطح کی بات چیت میں کیے گئے وعدوں کے بعد بھی امریکی کانگریس میں بیجنگ سے تجارتی تعلّقات کو معطّل کرنے پر مرکوز بحث جاری رہتی ہے تو یہ امریکا اور عالمی برادری کے لیے خود کو شکست دینے والی بات ہوگی۔
سنگاپور کے سینیئر وزیر تھرمن شانموگرانم نے کیپیلا میں بلومبرگ نیو اکانومی فورم میں چین پر امریکی سیمی کنڈکٹر برآمدی پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس حقیقت کو تسلیم کیا۔
لہٰذا یہ امریکا کے لیے قابل قدر ہے کہ وہ خلل ڈالنے والی تمام پالیسیوں سے پرہیز کرے اور چین سے تعلّقات کو آگے بڑھاتے ہوئے مُستقل مزاجی اور ہم آہنگی کو برقرار رکھے۔
چین کے مذموم عزائم پر عمل پیرا ہونے کے حوالے سے منفی تاثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ایک مربُوط کوشش کی بھی ضرورت ہے۔
مثلاً چین کے سیاسی نظام کی حقیقت پسندانہ کوریج اور انسانی حقوق، آزادی، شراکتی جمہوریت اور عالمی امن میں اس کی شراکت اعتماد کی کمی کو دور کرنے میں مدد دے گی۔
مزید برآں دونوں جانب سے مالیاتی ماہرین کے ذریعے باقاعدہ مشاورت اور میکرو اکنامک پالیسیاں تعلّقات میں کافی مددگار ثابت ہوں گی۔
اسی طرح بائیڈن انتظامیہ کو دونوں ممالک کے مابین عوامی تبادلے کے فروغ کے ساتھ ساتھ زراعت اور غذائی تحفّظ میں شراکت میں ایک دوسرے کے کردار کو سمجھ کر چین کے ساتھ غیر سیاسی تعاون کو مضبوط کرنے کے اپنے عزم پر عمل کرنا چاہیے۔
چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی گھناؤنی کوششوں کی بجائے اس طرح کے اقدامات اعتماد کے فقدان کو دور کرنے میں مثبت طور پر اثرانداز ہوں گے۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ فریقین نے یوکرین جنگ جیسے موضوعات پر مذاکرات اور غور و خوض کی ضرورت پر بات کی، امریکی پالیسیوں کو زیادہ پُرامن عالمی نظام کے لیے چین کے ساتھ اعتماد سازی کے اقدامات کے لیے تیار ہونا چاہیے۔
منفی ملکی پالیسی سازی پر توجہ دینے، پراپیگنڈے کی جنگ کو قدم جمانے سے روکنے اور بالی ملاقات کی مثبت پہلوؤں کو ٹھوس اقدامات میں ڈھالنے سے امریکا چین کے تعلّقات کو بہتر بنانے میں بہت مدد ملے گی۔
محفوظ، ٹھوس اور اُصولوں پر مبنی غیر سیاسی تعلّقات عالمی امن کے لیے بہت اہم ہیں اور اس کے نتیجے میں بین الاقوامی برادری کو عملی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں جن کی موجودہ اقتصادی زوال میں اشد ضرورت ہے۔