پاک چین سدا بہار تزویراتی شراکت داری
مُصنف سابق سفیر ہیں اور فی الحال اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بطور سینیئر ریسرچ فیلو کام کر رہے ہیں
وزیراعظم شہباز شریف کا دو روزہ دورہء چین (1 تا 2 نومبر) ایک ایسے غیر معمولی حالات میں ہوا جب یوکرین جنگ بھی جاری ہے، امریکا ایشیا پیسیفک خطے میں چین کے خلاف کشیدگی کو ہوا دینے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے اور سرد جنگ کی تجدید ممکن نظر آتی ہے۔ تاہم امریکا کے بطور دنیا کی نمبر ایک طاقت اُبھرنے کے بعد سے وقت بدل گیا ہے۔ امریکی تسلط نے چھوٹی اور کمزور اقوام کو یک قطبی تسلط پسند طاقت کے ایجنڈے کے ساتھ اپنی صف بندی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا ہے، جو صرف عالمی امن اور معاشی مسائل کو پریشان کر رہا ہے۔
ملاقات کے دوران وزیراعظم شہباز شریف اور چینی صدر شی جن پنگ نے اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان تزویراتی شراکت داری کو مضبوط بنانے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) سمیت مختلف شعبوں میں کثیر جہتی تعاون پر اتفاق کیا۔ فریقین نے ’’اُبھرتے عالمی چیلنجوں کے درمیان سدا بہار تزویراتی شراکت داری کی اہمیت پر اتفاق کیا۔
اس سال اپریل میں وزیراعظم بننے کے بعد یہ شہباز شریف کا پہلا سرکاری دورہء چین ہے۔ وہ چین کی کمیونسٹ جماعت کی 20 ویں قومی کانگریس کے بعد چین کا دورہ کرنے والے پہلے عالمی رہنماؤں میں شامل ہیں جس نے شی جن پنگ کو گزشتہ ماہ پارٹی کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا تھا۔
وفود کی سطح کی بات چیت کے دوران، رہنماؤں نے “اس بات کی تصدیق کی کہ چین اور پاکستان کے درمیان قریبی تزویراتی تعلقات اور گہری دوستی وقت کی ہر آزمائش پر کھری اُترے ہیں”۔ مشترکا بیان میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ “پاک چین دوستی دونوں ممالک کے عوام کا تاریخی انتخاب ہے جو دونوں ممالک کے مفادات کو پورا کرتا ہے”۔ چینی فریق نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان سے تعلقات کو “ہمیشہ اپنی خارجہ پالیسی میں سب سے زیادہ ترجیح دی جائے گی”۔ پاکستانی فریق نے اس بات پر زور دیا کہ پاک چین تعلقات “اس کی خارجہ پالیسی کا سنگ بنیاد ہیں اور پاکستانی عوام ہمیشہ دونوں ممالک کے درمیان قریبی دوستی کی حمایت کرتے ہیں”۔
دونوں اطراف نے ایک دوسرے کے بنیادی مفادات سے متعلق امور پر باہمی تعاون کا اعادہ کیا۔ پاکستانی فریق نے تائیوان، بحیرہ جنوبی چین، ہانگ کانگ، سنکیانگ اور تبت کے مسائل پر ون چائنا پالیسی اور حمایت کے عزم کا اظہار کیا۔ چینی فریق نے پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے فروغ کے ساتھ پاکستان کی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور سلامتی کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے جموں و کشمیر کا مسئلہ اٹھایا اور موجودہ صورتحال پر چینی فریق کو آگاہ کیا۔ چینی فریق نے “اقوام متحدہ کے منشور، سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور دو طرفہ معاہدوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مسئلے کے پرامن حل پر زور دیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے چینی حکومت اور عوام کی طرف سے بروقت اور فراخدلی سے فراہم کی جانے والی امداد کو سراہا، جس میں قدرتی آفات سے متعلق امدادی سامان کی فراہمی، آفات کے بعد طبی سہولیات اور نقصانات کا تخمینہ لگانے میں مدد اور تجربے کے لیے چینی ماہرین کی ٹیموں کا تعاون شامل ہے۔ طبی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے آفات کے بعد کی تعمیر نو و بحالی، اور آفات کے بعد بیماری کے ردعمل میں اشتراک، چین کی طرف سے امداد کو تیز کیا جانا دونوں ممالک کے درمیان وقت کی ہر آزمائش پر کھری تزویراتی شراکت داری کی واضح عکاسی تھی۔
اقتصادی شعبے میں چین نے تقریباً 8 اعشاریہ 75 ارب ڈالر کے قرضوں کو ری شیڈول کرکے مثالی دوستی کا مظاہرہ کیا۔ خبروں میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ “چینی قیادت نے 4 ارب ڈالر سے زائد کے خودمختار قرضوں، 3 اعشاریہ 3 ارب ڈالر کے کمرشل بینک قرضوں کو ری فنانس کرنے اور تقریباً 1 اعشاریہ 45 ارب ڈالر (30 سے 40 ارب یوآن) تک کرنسی سویپ میں اضافہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے تعاون کا اندازہ ای کامرس، ڈیجیٹل معیشت، زرعی مصنوعات کی برآمدات، مالیاتی تعاون، ثقافتی املاک کے تحفظ، انفراسٹرکچر، سیلاب میں امدادی کاموں، آفات کے بعد کی تعمیر نو، گلوبل ڈیولپمنٹ انیشیئیٹو (جی ڈی آئی)، جانوروں کی بیماریوں پر قابو پانے، ذریعہء معاش، ثقافتی تعاون، خلائی و جغرافیائی سائنس کے ساتھ ساتھ قانون کے نفاذ اور سلامتی کے شعبہ جات میں دو طرفہ تعاون کے ان متعدد معاہدوں سے لگایا جا سکتا ہے جن پر دونوں ممالک نے دستخط کیے ہیں۔
یہ دورہ دہائیوں پرانے اعتماد کا مظہر تھا جو بین الاقوامی سطح پر بہت بڑی تبدیلیوں کے باوجود دونوں پڑوسی ممالک نے استوار کیا ہے۔ دورے کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکا بیان کے مطابق، فریقین نے” سی پیک اور پاک چین دوستی کے خلاف تمام خطرات اور سازشوں کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا”۔ جبکہ پاکستان نے اپنے ہاں موجود تمام چینی اہلکاروں، منصوبوں اور اداروں کی حفاظت اور تحفظ کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا”۔ چینی فریق نے “اس سلسلے میں پاکستان کے مضبوط عزم اور بھرپور اقدامات کو سراہا”۔
مشترکا بیان میں “سی پیک منصوبے کی نوعیت” پر تنقید کو بھی مُسترد کر دیا گیا۔ بیان میں واضح کیا گیا کہ سی پیک جوائنٹ ورکنگ گروپ برائے بین الاقوامی تعاون اور رابطے (آئی سی سی) کے حالیہ اجلاسوں کی بنیاد پر فریقین نے اس بات پر روشنی ڈالی تھی کہ ’’سی پیک ایک کھلا اور جامع پلیٹ فارم ہے‘‘۔ فریقین نے “سی پیک تعاون کے ترجیحی شعبوں جیسے صنعت، زراعت، آئی ٹی، سائنس اور ٹیکنالوجی، تیل اور گیس میں سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے دلچسپی رکھنے والے کسی بھی تیسرے فریق کا خیرمقدم کیا۔
چونکہ سی پیک منصوبوں کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے یا تکمیل کے قریب ہے، دونوں ممالک نے دوسرے مرحلے پر کام شروع کر دیا ہے جو سی پیک کے راستے میں صنعت کاری یا خصوصی اقتصادی زونز (SEZ) کے بارے میں ہے۔ اس لیے امریکی اور بھارتی مخالفت کے باوجود دونوں ممالک نے ان منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے جاں فشانی سے کام کیا ہے۔ درحقیقت خصوصی اقتصادی زونز کو چلانے کے لیے تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی کے باعث پاکستان کی جانب سے سست روی کا سامنا ہے۔ اس مسئلے کو اب چین کی مدد سے حل کیا گیا ہے اور جہاں ضروری ہو، پاکستانی افرادی قوت کو تربیت دی جاتی ہے۔
سی پیک کے تحت 47 منصوبے مکمل ہو چکے ہیں یا تکمیل کے قریب ہیں، جن کی کل چینی سرمایہ کاری 25 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ ڈیڑھ لاکھ ملازمتیں بھی پیدا ہوئی ہیں۔ ML-1 ریلوے منصوبہ شروع کرنے کا معاہدہ، صنعت، زراعت، سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی میں پاکستان کے ساتھ جامع تعاون کے حوالے سے چینی عزم کا اعادہ ہے تاکہ پاکستان کی صنعت کاری کو بہتر انداز میں پیش کیا جا سکے اور اس کی برآمدی مسابقت کو بڑھایا جا سکے۔
چین ملک کی صنعتی بنیاد کو ترقی دینے اور پاکستانی برآمدات بڑھانے میں پاکستان کی مدد کرتا رہا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے چین نے اپنی منڈیاں بھی کھول دی ہیں۔ پاکستان میں متعین چینی سفیر نونگ رونگ کے مطابق اس سال چین کو پاکستان کی برآمدات 4 ارب ڈالر سے تجاوز کرنے کی توقع ہے۔ ان میں شعبہء زراعت بطور ابھرتی ترقی کردار ادا کرتا ہے۔ سفیر رونگ نے کہا، ’’پاکستان کا چین سے زرعی تجارت کا سرپلس گزشتہ سال 640 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا جو سال بہ سال 13 گنا زیادہ ہے”۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور چین کے درمیان گزشتہ سات دہائیوں کے دوران پروان چڑھنے والی دوستی ایک مضبوط تزویراتی شراکت داری میں پروان چڑھی ہے جو وقت کی کسوٹی پر پوری اتری ہے۔ اس شراکت داری کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ اس کا مقصد کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں بلکہ خطے اور اس سے باہر استحکام کا عنصر ہے۔






