دیوالیہ پن کے دہانے پر
پالیسی سازوں کو پریشان کن معاشی حالات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا
مُصنّف سی بی ای آر، انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی میں اکنامکس کے اسسٹنٹ پروفیسر اور ریسرچ فیلو ہیں۔
پاکستان ایک بار پھر ایک اور دیوالیے کے دہانے پر ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کی صورتحال ابتر ہوتی جارہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے پاس موجود ذخائر کم ہو کر 6 اعشاریہ 7 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جو کہ تقریباً 1 اعشاریہ 4 ماہ کی درآمدات کے لیے ہی کافی ہیں۔ تقابلی طور پر، دسمبر 2021ء میں زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 17 اعشاریہ 6 ارب ڈالر تھے۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان سے اپنے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی توقع کی جارہی ہے، مارچ 2022ء میں زبردست کمی دیکھی گئی جب ذخائر سے تقریباً 5 ارب ڈالر کا صفایا ہو گیا کیونکہ وہ فروری 2022ء میں 16 اعشاریہ 4 ارب ڈالر سے کم ہو کر مارچ 2022ء میں 11 اعشاریہ 4 ارب ڈالر پر آ گئے۔
فی الحال، کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی نمایاں کمی ہے اور انٹربینک ریٹ اور اوپن مارکیٹ کے درمیان فرق اور ’حوالے‘ کی شرح کافی بلند ہے۔ پاکستانی روپے پر دباؤ کو کم کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے احتیاطی اقدام کے طور پر غیر ملکی ادائیگیوں پر پابندیوں کے ساتھ درآمدی پابندیاں بھی لگائی گئی ہیں۔ بدقسمتی سے، بڑی غیر رسمی منڈیوں کی موجودگی میں، یہ پابندیاں کسی خاص استحکام کا باعث نہیں ہیں کیوں کہ یہ کرنسی مارکیٹ میں غیر قانونی تبادلوں کو تقویت دیتی ہیں۔
جب کہ اسٹیٹ بینک کے گورنر نے کہا ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کی صورتحال قابو میں ہے اور تمام ذمہ داریاں وقت پر پوری کی جائیں گی۔ اس کا مقصد بیرونی قرضوں کی ذمہ داریوں پر ڈیفالٹ سے متعلق خدشات کو دور کرنا ہے۔ ملک کو تقریباً 23 ارب ڈالر کے قرض کی ادائیگی کرنے کی ضرورت ہے، جس میں سے 10 ارب ڈالر واپس کر دیے گئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے مزید یقین دہانی کرائی ہے کہ بقیہ 13 ارب ڈالرز میں سے تقریباً 8 ارب ڈالر کو مزید رول اوور کر دیا جائے گا۔ یہ ادائیگیاں یا تو کثیر جہتی قرضے ہیں یا تجارتی قرضے ہیں۔ جس اہم مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے وہ ملک میں زرمبادلہ کی آمد میں کمی ہے۔ یہ واضح ہے کہ گزشتہ دہائی میں برآمدات 20 ارب ڈالر سے 30 ارب ڈالر کے درمیان مستقل طور پر جمود کا شکار رہی ہیں۔ موجودہ منظر نامے میں برآمدات میں کسی بھی قسم کی نمو کا حصول مشکل ہونے کا امکان ہے کیونکہ درآمدی پابندیوں کی وجہ سے برآمدات کے لیے پیداوار حاصل کرنے کے لیے ضروری خام مال اور دیگر اشیا کی درآمدات کے متاثر ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان ادارہ برائے شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق نومبر 2022ء میں برآمدات میں سالانہ بنیاد پر 17 اعشاریہ 6 فیصد کمی واقع ہوئی یعنی 2 اعشاریہ 9 ارب ڈالر سے 2 اعشاریہ 3 ارب ڈالر، مالی سال 2023ء کے پہلے پانچ مہینوں میں برآمدات 3 اعشاریہ 4 فیصد کم ہوئیں یعنی 12 اعشاریہ 4 ارب ڈالر سے 11 اعشاریہ 9 ارب ڈالر، مالی سال 2023ء کے پہلے پانچ مہینوں میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں 5 اعشاریہ 1 فیصد کی کمی واقع ہوئی، بیڈ ویئر اور تولیے کی برآمدات میں بالترتیب 13 اعشاریہ 29 فیصد اور 4 اعشاریہ 5 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ خیموں، کینوس اور ترپال کی برآمدات میں 20 فیصد اور ریڈی میڈ گارمنٹس کی برآمدات میں معمولی 1 اعشاریہ 2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ فوڈ گروپ میں صرف ایک فیصد کی کمی دیکھی گئی، چاول کی برآمدات میں 9 اعشاریہ 3 فیصد جبکہ پھلوں اور تیل کے بیجوں، گری دار میوے اور گٹھلی کی برآمدات میں بالترتیب 37 اعشاریہ 2 فیصد اور 25 اعشاریہ 8 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ دوسری جانب سبزیوں، گوشت اور مچھلی اور ان کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والی مصنوعات کی برآمدات میں کم از کم 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
چونکہ پاکستان کو بیرونی محاذ پر ایک بڑھتے ہوئے بحران کا سامنا ہے، اسے ایسی پالیسیاں اپنانے کی ضرورت ہے جو برآمدات میں اضافے کی حوصلہ افزائی کریں۔ بعض بڑی مصنوعات کی برآمدات میں کمی تشویشناک ہے۔ ترسیلات زر، جو گزشتہ سال اپنی بلند ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی تھیں، بھی کم ہو رہی ہیں۔ غیر رسمی کرنسی مارکیٹوں کی طرف ترجیح میں تبدیلی رسمی چینلز کے ذریعے ترسیلات زر وصول کرنے کے چیلنج کو بھی بڑھا رہی ہے، جس کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے۔
درآمدات کے اعداد و شمار پر غور کیا جائے تو، ادائیگیوں کے توازن کے خدشات کو دور کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے درآمدی ادائیگیوں میں رکاوٹ واضح ہے۔ نومبر 2022ء میں 5 اعشاریہ 1 ارب ڈالر کی درآمدات رپورٹ کی گئیں جو کہ نومبر 2021ء کی درآمدات سے 34 اعشاریہ 4 فیصد کم ہیں۔ اگرچہ اکتوبر 2021ء سے ان میں 10 فیصد اضافہ ہوا، درآمدات کو کم کرنے کی پالیسی نے نہ صرف ملک میں اشیائے خوردونوش کے بہاؤ کو متاثر کیا ہے بلکہ ضروری درمیانی اشیا اور خام مال بھی جو برآمدات پیدا کرنے کے لیے درکار ہیں۔ مالی سال 2023ء میں مشینری کی درآمدات میں سالانہ بنیاد پر 42 اعشاریہ 35 فیصد کمی واقع ہوئی، گروپ کے اندر اشیاء کی درآمدات میں کمی کے ساتھ۔ ٹیکسٹائل مشینری کی درآمدات میں 41 فیصد اور بجلی پیدا کرنے والے آلات کی درآمدات میں 71 فیصد کمی واقع ہوئی۔
ٹیکسٹائل مصنوعات کی درآمدات پر غور کریں، جو مالی سال 2023ء کے پہلے پانچ مہینوں میں سالانہ بنیاد پر 17 فیصد کم ہوئیں، مصنوعی فائبر کی درآمدات میں 38 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اگرچہ خام روئی کی درآمد میں تین فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن اس کی درآمدات کی مقدار میں 10 فیصد کمی آئی ہے۔ ٹرانسپورٹ گروپ کی درآمدات میں 47 فیصد کمی واقع ہوئی، مکمل طور پر تعمیر شدہ یونٹس کی درآمدات اور ناک آؤٹ یونٹس میں کمی واقع ہوئی۔ مقامی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باعث پیٹرولیم گروپ کی درآمدات میں آٹھ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ حکومت نے درآمدات کی حوصلہ شکنی کے لیے اقدامات کیے ہیں اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں تمام اہم اشیاء کی درآمدات میں کمی آئی ہے، جن میں سے کچھ ملکی اشیا کی پیداوار کے ساتھ ساتھ برآمدات کے لیے بھی ضروری ہیں۔
جولائی تا ستمبر مالی سال 2023ء کے لیے بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ انڈیکس میں صفر اعشاریہ 4 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ اگرچہ یہ رقم بہت کم ہے، لیکن پچھلے سال اسی مدت کے دوران اضافہ غیر معمولی تھا یعنی 10 اعشاریہ 2 فیصد۔ گزشتہ مالی سال میں بلند شرح نمو کی اطلاع دینے والے کئی بڑے شعبوں میں اس مالی سال میں کمی دیکھی گئی۔ رجحان میں تیزی سے اتار چڑھاؤ نہ صرف معاشی غیر یقینی کی وجہ سے ہے بلکہ غیر یقینی سیاسی صورتحال کی وجہ سے بھی ہے جس کی وجہ سے معاشی ماحول میں ہنگامہ خیزی نظر آرہی ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کراچی میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے ساتھ مشترکہ تعاون سے دو ماہی بزنس کانفیڈنس انڈیکس شائع کرتا ہے، جس کے اشاریے ملک میں موجودہ معاشی حالات کے لیے کارآمد پیش گو ثابت ہوتے ہیں۔ کاروباری اعتماد کے اشاریہ کی کارکردگی، روزگار کے اشاریہ اور صلاحیت کا استعمال پچھلی چند سطح پر کم رہا ہے، جو ملک میں نسبتاً خراب معاشی حالات کی نشاندہی کرتا ہے۔
پالیسی سازوں کو پریشان کن معاشی حالات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہیے۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ ادائیگیوں کے توازن کے خدشات کو دور کرنے کے لیے بہت زیادہ درکار سرمایہ کاری کو محفوظ کریں جو اس وقت اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ ملک کا اپنے بیرونی قرضوں کی ذمہ داریوں میں دیوالیہ ہونے کا امکان ہے۔ اس معاملے میں آئی ایم ایف سے مالی امداد انتہائی اہم ہے۔ آئی ایم ایف کی مالی اعانت دوسرے کثیر جہتی عطیہ دہندگان کے ساتھ گفت و شنید اور فنڈز حاصل کرنا آسان بناتی ہے۔ حکومت دوست ممالک سے حاصل کیے گئے اپنے دوطرفہ قرضوں کا بڑا حصہ واپس لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسی کوششیں جاری رہنی چاہئیں۔
ضروری اشیاء جیسے تیل اور دیگر پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد کے لیے تجارتی مالیات حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ پاکستان اپنی مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے بڑے تجارتی شراکت داروں اور دیگر عطیہ دہندگان پر انحصار کرتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں اقتصادی سرگرمیوں کو کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کی سفارش کی جا رہی ہے جیسے کہ مارکیٹوں کی جلد بندش اور پیٹرول کے استعمال پر پابندیاں۔ ان قلیل مدتی اقدامات کی وجہ سے نہ صرف طویل مدت میں مزید مشکلات پیدا ہونے کا امکان ہے بلکہ یہ رجعت پسند رجحانات ہیں کیونکہ معاشرے کا امیر طبقہ ایک ایسے معاشرے میں، جہاں پیداواری صلاحیت کو بڑھائے بغیر اضافی دولت کو حاصل کرنے کی سرگرمیاں عروج پر ہوں، ان اقدامات سے آسانی سے بچ سکتا ہے۔
مختصراً یہ کہ حکومت کی اولین ترجیح ملک بھر میں معاشی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کرنے کے بجائے ادائیگیوں کے توازن میں فرق کو پورا کرنا ہونا چاہیے۔






