حمزہ حسین

30th Oct, 2022. 09:00 am

بلوچستان کی شورش

بلوچ قوم پرست قیادت کو آن بورڈ لیا جائے کیونکہ عوامی نمائندوں کو الگ کردینا BRAS کے حق میں جائے گا

مُصنّف اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔

جب پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پر بحث تھم جائے گی تو یہ واضح ہو جائے گا کہ بلوچستان کی شورش ان ممالک کے مذموم عزائم کی پیداوار تھی جو ریاست کی عملداری کو کمزور کرنے کے لیے کوشاں ہیں ۔ اگست 2022ء میں صوبے کے دور ے کے بعد میرا یہ نقطہ نظر تھا کہ مسئلے کی کلی بنیاد صرف بلوچ قوم پرست نہیں ہیں جو پاکستانی ریاست کے خلاف بغاوت کرنا چاہتے ہیں، بلکہ اصل بنیاد وہ ہیں جو پورے امن عمل میں بگاڑ پیدا کررہے ہیں۔ اس لیے شورش پسندانہ سرگرمی کو ایک بے ضابطگی کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے، بلکہ ایک منظم آپریشنل تکنیک کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جس کا مقصد وسیع تر ہدفی طبقے تک پیغام پہنچانا ہو۔

شورش جو اپنے ابتدائی مراحل میں بلوچستان لبریشن آرمی کے طور پر شروع ہوئی تھی اب ‘BRAS’ یا ‘بلوچ راجی آجوئی سنگار’ ہے جو ایک ہی چھتری کے نیچے مختلف باغی گروہوں کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں بی ایل اے، بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچستان ریپبلکن آرمی شامل ہیں جو 2019 ء سے سرگرم ہیں۔ ان کے انضمام سے ایک خطرناک محاذ کھلتا ہے کیونکہ پہلے بکھری ہوئی شورش اب ایک طاقت ور قوت ہے جو وسائل، مہارت اور صلاحیت کے ساتھ ایک ہی وجود رکھتی ہے جس کا رخ پاکستانی ریاست کی جانب ہے۔ مضبوط اور متحد کمان سے اسے طاقت ملی ہے جس کی وجہ سے اس سے نمٹنا اور بھی مشکل ہوگیا ہے۔

زیادہ تر بلوچ رہنما تشدد کی مذمت کرتے ہیں اور خود کو BRAS سے دور کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر ثناء اللہ بلوچ جیسے قوم پرست سیاست دانوں نے بلوچستان کے عوام اور سیاسی قیادت کی شکایات کو پاکستانی ریاست پر حملہ کرنے کی ضرورت سے نہیں جوڑا۔ زیادہ تر نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ BRAS جیسے گروپ جو حال ہی میں بنائے گئے ہیں، انہیں اسلام آباد سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی ناقص پالیسی سازی، عدم توجہی اور بے حسی کی وجہ سے غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں جیسے کہ انڈیا کے ریسرچ اینڈ اینالائسز ونگ (RAW) اور نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی آف افغانستان (NDS) نے فعال طور پر فنڈز اور تربیت فراہم کی اور انہیں فروغ دیا ہے۔

Advertisement

غیر ملکی فنڈنگ، تربیت، ہتھیاربندی اور BRAS کے درمیان تعلق کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکے کہ حملے اتنے کھلے عام کیوں ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر چینی سرمایہ کاری پر، بلوچ باغی چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو نشانہ بنانے کے لیے تشدد سے کام لیں گے جو پاکستان کے حریف اور پڑوسی بھارت کا دیرینہ مقصد رہا ہے۔ مثال کے طور پر بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کا عروج، اور اسی کے ساتھ دنیا بھر میں مختلف پلیٹ فارمز پر نریندر مودی کی جانب سے صوبے پر پاکستان کی عملداری کو کم کرنے اور علیحدگی پسندوں کو ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے شدید بیانات کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے۔

نئی دہلی میں ‘ فری بلوچستان‘ کے دفتر کا افتتاح اور 2015ء میں بھارت کے یوم آزادی پر نریندر مودی کی تقریر اس کی حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بلوچستان کی بات کرتے ہوئے، مودی، ایک دائیں بازو کے ہندو قوم پرست نے سابق مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے باغیوں کو مدد فراہم کرنے میں ہندوستان کے کردار کو سراہا جو کہ علیحدگی پسندی کی کھلی حمایت ہے۔

سیاسی توثیق کے ساتھ ساتھ BRAS کو ہتھیاروں سے لیس کرنا بھی آتا ہے۔ مارچ 2016 ء میں بھارتی بحریہ کے افسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے اس تخریبی کردار کی دلخراش تفصیلات سامنے آئیں جو بھارتی ایجنٹوں نے صوبے اور پورے پاکستان میں ادا کیا ہے۔

’ارتھ شاستر‘ کا بھارتی نظریہ اب بھی کام کر رہا ہے اور ریاستی توسیع کو فروغ دینے، سری لنکا، بنگلہ دیش اور بھوٹان جیسی پڑوسی ریاستوں کو جبری کنٹرول کرنے اور بھارتی فورسز/خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے براہ راست طاقت کے استعمال کی بات کرتا ہے۔

سری لنکا میں 1987 ء میں آئی پی کے ایف (انڈین پیس کیپنگ فورس) کی تعیناتی کے پیش نظر ایل ٹی ٹی ای (لنکا تامل ٹائیگر ایلم) کی ہندوستانی فنڈنگ مثال کے طور پر ایک کلاسک، غیر معمولی مداخلت تھی جس نے مسئلہ کو مزید بڑھاوا دیا اور اس کی وجہ سے سنہالی اکثریتی جزیرے میں مزید بدامنی پیدا ہوئی۔ اسی طرح بلوچستان میں چنکیہ یا کوٹلیہ کا نظریہ بہت زیادہ نظر آتا ہے کیونکہ کراچی میں چینی ماہرین تعلیم پر ان گروہوں کی جانب سے کھلے عام حملہ کرنے کی صلاحیت، جو BRAS سے منسلک یا اس کے حمایت یافتہ یا اس کا اٹوٹ حصہ ہیں، بھارت کی مالی معاونت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔

Advertisement

فنڈنگ بنیادی طور پر افغانستان کے جلال آباد اور قندھار میں قائم ہندوستانی قونصل خانوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ فنڈنگ ایک منظم اور کثیر الجہتی عمل ہے اس کے پیش نظر کہ 2000 ء کی دہائی میں ہندوستان کی سرگرمیوں میں داعش کے 30 عسکریت پسندوں کو ہندوستان سے پاکستان کی سرحد پر منتقل کرکے پاکستان میں اسلامک اسٹیٹ (ISIS) کا ایک باب تشکیل دینا شامل تھا۔

قونصل خانوں اور غیر ملکی پلیٹ فارمز کے ذریعے جو مذموم عزائم کو بروئے کار لاتے ہیں، را نے آن لائن سامعین بالخصوص نوجوانوں کے لیے بلوچ زبان میں ریڈیو اور لائیو نشریات شروع کی ہیں تاکہ پاکستانی ریاست کی طرف سے بلوچ آبادی کے ساتھ امتیازی سلوک، پاک فوج کی جانب سے جبری گمشدگیوں سے لے کر CPEC کے منصوبوں کے آغاز کے ذریعے مقامی لوگوں کے معاشی حقوق کو دبانے تک بھارتی پروپیگنڈے سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔

آج تک، صوبے نے پانچ شورشیں دیکھی ہیں، یعنی 1948ء ، 1958ء ، 1962ء ، 1973-77 ء اور 2002۔ 2009 ء میں، شورش ایک نئی تحریک کی شکل اختیار کر گئی جب UNHCR کے نمائندے ڈیوڈ سولیکی کو کوئٹہ سے اغوا کر لیا گیا جس کے نتیجے میں تین بلوچ قومی رہنما اسی سال تربت میں مارے گئے۔ تاہم، یہ 2002ء تھا جب را کی طرف سے بلوچستان میں شورش کو خفیہ فنڈنگ اور بڑھاوا دیا جانے لگا۔ اس میں ٹھوس بنیادی ڈھانچے کی ترقی، روابط اور تعلقات کو فروغ دینا، اٹھاون تربیتی اداروں کا قیام، باغیوں کو ہلکے اور بھاری دونوں قسم کے ہتھیاروں کی فراہمی، جدید مواصلاتی نیٹ ورک کا قیام اور بھاری فنڈز کی فراہمی شامل تھی۔

اس کے پیش نظر ، بلوچ قوم پرست قیادت کو آن بورڈ لیا جانا چاہیے کیونکہ عوامی نمائندوں کو الگ کردینا BRAS کے حق میں جائے گا ۔ بلوچستان کے بارے میں متنوع نقطہ نظر کو تسلیم کرنے کا فقدان پاکستان میں ایک بہت بڑا مسئلہ رہا ہے جہاں مرتکز بہ اسلام آباد پالیسی صرف بے چینی اور دشمنی کا باعث بنتی ہے۔ تخریب کار قوتوں کو ایسے زرخیز حالات فراہم نہیں کرنے چاہیئں جن کا وہ بے خوفی کے ساتھ فائدہ اٹھاسکیں ، اور ترقی کے ساتھ ساتھ CPEC کے بارے میں پالیسی سازی کی اپروچ مقامی ہونی چاہیے۔ بلوچ شورش اور اس کی فنڈنگ کو بے اثر کرنا صرف اس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب پاکستانی ریاست کچھ تزویراتی دور اندیشی کا مظاہرہ کرے۔

Advertisement

Next OPED