حنان آر حسین

25th Sep, 2022. 09:00 am

شنگھائی تعاون تنظیم اور پاکستان

سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہان مملکت کی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کٹھن مسائل کے علاقائی حل نکالنے کی ضرورت پر زور دیا کیونکہ یہ ایس سی او ریاستوں کے اجتماعی امن کے لیے خطرہ ہیں۔ اِس بصیرت کو ٹھوس شکل دینے کے لیے سمرقند اعلامیے کے وسیع نظریے پر غور کرتے ہوئے فورم پر اسلام آباد کا مؤقف ایک قابلِ ذکر مقصد تشکیل دیتا ہے۔ اعلامیے کے مطابق، ’’اُن (رکن ریاستوں) کا ماننا ہے کہ ان اصولوں کا مُستقل نفاذ علاقائی تعاون کی ایک نئی مثال قائم کرتا ہے جو یوریشیا میں باہمی مفاد پر مبنی کثیر جہتی تعلقات کو مضبوط بنانے میں تعمیری کردار ادا کرتی ہے، اور علاقائی تعاون کے اسی جذبے کے تحت موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مزاحمت شنگھائی تعاون تنظیم اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے طویل عرصے سے مؤخر اقدامات دونوں کے بنیادی مفادات میں ہے۔

پاکستان کا اپنی سرحدوں کے اندر ایک الگ قسم کی “تباہی” رونما ہونے پر زور جو ایک بحران کے باعث ہوئی نہ کہ اِس کی وجہ سے، شنگھائی تعاون تنظیم کے پاکستان پر مرکوز موسمیاتی ایکشن پلان کے لیے اہم محرک ہے۔ رکن ممالک پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات بشمول اِس سے غذائی تحفظ کو درپیش چیلنج پر متفق ہیں اور غذائی قلت کے بڑے خطرات کے سامنے پاکستان کی ثابت قدمی تمام شکوک کو دور کرتی ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک ترقی کے مختلف مراحل پر موجود معیشتوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو کسی ملک میں روابط اور بحران میں مدد کو استعمال کر کے کئی دیگر ممالک میں اقتصادی بحالی کی مثال قائم کر سکتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کسی سے امتیاز نہیں کرتی۔ اِس کے مضمرات سرحدوں سے تجاوز کر جاتے ہیں اور شراکت داری (ورکنگ پارٹنرشپ) کو فروغ دینے کی غرض سے ایک مربوط پلیٹ فارم کے طور پر شنگھائی تعاون تنظیم کی حیثیت اِسے ایک مثالی قوت بناتی ہے جو پاکستان اور وسیع النظری میں بڑے پیمانے پر خطے میں مُستقبل کی موسمیاتی ضروریات کا جائزہ لے سکتی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی مربوط حیثیت کا ایک ثبوت اچھی ہمسائیگی، دوستی اور تعاون کے کلیدی اصولوں پر مبنی 2007ء کے SCO معاہدے کے مطابق ایک دوسرے کے جائز “ترقیاتی مفادات” کے لیے اِس کی مستقل حمایت ہے۔

اسلام آباد کی چین سے کڑی آزمائشوں میں کھری ثابت رہنے والی شراکت داری ایک مشترکا اور پُرامن آبادی کے لیے سبق آموز اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ابھی حال ہی کی بات ہے کہ چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے یکجہتی کے مقصد کی حمایت کرتے ہوئے ایک اہم نکتہ پیش کیا جو شنگھائی تعاون تنظیم کے موجودہ اور مستقبل کے رکن ممالک کے لیے مُفید ہے۔ اب ایس سی او ممالک اپنے اقدامات کے جال (نیٹ ورک) کو عالم گیر کرنے کے لیے وسیع، مستحکم اور ہمیشہ تیار ہیں کیونکہ چند مغربی دھڑوں کے برعکس جو تزویری اقدامات کو نظریاتی خطوط پر تولتے ہیں، اِس میں کبھی بھی کوئی سیاسی حجت موجود نہ تھی۔ بہ الفاظِ دیگر، ایک بار جب ایس سی او کے منشور (چارٹر) کے اصولوں پر مبنی باہمی اعتماد ریاستوں کو بنیادی مفادات اور اہم خدشات پر اکٹھا کر دے تو یہ ایک دوسرے کے جائز مفادات کی حمایت اور کلیدی علاقائی مسائل کے مشترکا قابلِ قبول حل پر مشتمل مضبوط محاذ تیار کرتا ہے۔

باہمی روابط کے منصوبوں کے ذریعے تمام ایس سی او رکن ممالک کے لیے “فاتحانہ نتائج” کے مقصد سے پاکستان کی با آواز حمایت ایک بروقت اقدام ہے۔ تجارتی صلاحیت، تزویراتی اہمیت اور ہمسائیگی کے تعلقات سے مالا مال خطے میں ایسے رابطے کی عدم موجودگی میں اس کی براہ راست علاقائی نگرانی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم نے دہشت گردی کی لعنت کے ماضی کے حوالے بھی دیکھ رکھے ہیں جو علاقائی امن کے لیے ایک اُبھرتے ہوئے خطرے کے طور پر کام کر رہی ہے۔ دہشت گردی کو اس کی تمام اشکال میں ختم کرنے کا پاکستان کا دہائیوں پرانا عزم علاقائی سطح پر سب کو فائدہ پہنچانے کے لیے سیکھنے والے اسباق کے ساتھ کسی بھی دوسری ریاست سے مختلف ہے۔ یہاں شنگھائی تعاون تنظیم کا “دہشت گردی کی تمام اشکال اور مظاہر میں تدارُک کے لیے عالمی تعاون کو مضبوط کرنے” کا مطالبہ باہمی سطح پر روش تبدیل کرنے سے گریزاں کچھ ممالک کے لیے آگے کی راہ پیش کرتا ہے۔ مزید گہرائی سے دیکھا جائے تو شنگھائی تعاون تنظیم کا پلیٹ فارم سلامتی کو لاحق خطرات کا جواب دینے کے طریقِ کار سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جیسا کہ ماضی میں تجویز کیا جا چکا ہے اور “غیر روایتی” سلامتی کے شعبوں میں تعاون کو بڑھانے کی کافی زیادہ صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔

Advertisement

پاکستان کے وسط ایشیائی ریاستوں سے گرم جوش اور دوستانہ تعلقات ہیں اور وہ پیداواری تجارت و روابط کے نت نئے مواقع تلاش کرنے کے لیے اپنے در کھولے ہوئے ہے جو ممالک کے مابین صحت مند “تجارتی، اقتصادی، ثقافتی اور انسانی ہمدردی کے تعلقات” کے شنگھائی تعاون تنظیم کے عزم کی گہری عکاسی کرتا ہے۔ سمرقند اعلامیہ ایک مُنفرد یاد دہانی ہے جو مقصد کو کثیر جہتی سے جوڑتے ہوئے مشترکا اقدام کی ضرورت کو بھی اُجاگر کرتی ہے۔ ریاستیں سب سے متعلق بڑھتی پیچیدہ عالمی مشکلات کو تسلیم کرتی ہیں۔

ایسا متوازن نقطہ نظر شنگھائی تعاون تنظیم کو “ہم خیال جمہوریتوں” کی آڑ میں قریبی گروہوں کی طرف سے گونجتے تنظیم سے رضاکارانہ اخراج کے زہریلے بیانیے سے الگ ایک مختلف علاقائی تعاون تنظیم بھی بناتا ہے۔ تنظیم میں ایران کی بطور رکن ریاست شمولیت کی پیش رفت ایک مناسب پیغام ہے کہ “علاقائی رابطے” کا مُستقبل اس کی بنیادی ترجیحات یعنی “خطے” میں مضمر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے کو مُستفید کرنے کے لیے خطے کے جغرافیائی، اقتصادی، تاریخی اور ثقافتی مفادات سے فائدہ اٹھانے کی پاکستان کی کشادہ دِلی وہ مقصد ہے جسے خود شنگھائی تعاون تنظیم فروغ دے رہی ہے۔ مستقبل میں ترکیے کی تنظیم میں شمولیت کی دکھائی دیتی امید ایک خوش آئند علامت ہے۔ انقرہ بلاشبہ مضبوط پاکستانی اتحادی ہے، عالمی روابط کا مضبوط حامی ہے اور اس نے مغرب سے ایشیا تک ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے ترقی کی اپنی تعریف کو عملی جامہ پہنایا ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ “رکن ممالک باہمی اعتماد پیدا کرنے، باہمی افہام و تفہیم کو تقویت دینے اور تنظیم میں ثقافتی اور انسانی ہمدردی کے تعلقات کو وسعت دینے کے لیے رکن ممالک میں عوامی سفارتی اداروں اور ثقافتی مراکز کے تعاون کو سراہتے ہیں۔”

مضبوط سفارت کاری کی اِس پُکار کو با آوازِ بلند اور واضح طور پر سنا جائے گا۔

مُصنف خارجہ اُمور کے مبصر اور فل برائٹ ایوارڈ یافتہ ہیں۔

Advertisement

Next OPED