آصف درانی

18th Sep, 2022. 09:00 am

طالبان پاکستان پر الزام کیوں لگا رہے ہیں؟

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان اور طالبان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی آئی ہے۔ تازہ ترین مسئلہ طالبان کے قائم مقام وزیر دفاع ملا محمد یعقوب کا یہ الزام ہے کہ پاکستان نے امریکیوں کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی جس نے اس سال 29 جولائی کو القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو ہلاک کر دیا۔ اُن کے اس بیان نے پاکستان طالبان تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ نے فوری طور پر ملا یعقوب کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اِنہیں “قیاس پر مبنی الزامات” قرار دیا۔ وزارت خارجہ نے کہا: “کسی بھی ثبوت کی عدم موجودگی میں، جیسا کہ خود افغان وزیر نے تسلیم کیا ہے، ایسے فرضی الزامات انتہائی افسوسناک ہیں اور ذمے دارانہ سفارتی طرزِ عمل کے اُصولوں کے منافی ہیں۔”

سفارتی حلقے اب یہ قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ کیا پاکستان کے طالبان سے سہولت کے تعلق کی تاریخِ میعاد توقع سے پہلے آ گئی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پناہ دینے میں افغان طالبان کے مشکوک کردار اور ٹی ٹی پی کے جتھوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے میں اُن کی ہچکچاہٹ نے پاکستان سے مستحکم تعلقات قائم کرنے میں مذہبی ملیشیا حکومت کی نیک نیتی پر بھی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔

کسی کو بھی یہ تجسّس ہو سکتا ہے کہ ملا یعقوب نے ایسے الزامات کیوں لگائے جب بہت سے ممالک نے طالبان حکومت کو تسلیم کیے بغیر کابل میں اپنے سفارتی مشن کھول رکھے ہیں۔ کیا وہ طالبان کی صفوں میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے امریکا اور پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کا راستہ اختیار کر رہے ہیں، خاص طور پر وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے خلاف جو ظواہری کی ہلاکت کے بعد روپوش ہو چکے ہیں؟ وہ طالبان کی صفوں میں اعتدال پسندوں کے بڑھتے اثر و رسوخ سے برابر آگاہ ہیں جو بیرونی دنیا کے سامنے زیادہ بے نقاب ہیں اور ملک میں انسانی بحران کا سامنا کرنے والے اپنے ساتھی شہریوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کی غرض سے اچھی سودے بازی کر سکتے ہیں۔ پاکستان پر الزام لگا کر ملا یعقوب القاعدہ کے خلاف انسداد دہشت گردی کے اقدامات کی طالبان کی ذمہ داری سے دستبردار نہیں ہو سکتے، چاہے وہ اسے پسند کریں یا نہ کریں۔

طالبان کی ایک اور غلطی دوحا معاہدے کی غلط تشریح کرنا ہے۔ ظواہری کی ہلاکت کے فوراً بعد طالبان نے واشنگٹن پر دوحا معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔ ایک بیان میں طالبان نے کہا: “اس طرح کے اقدامات پچھلے 20 برسوں کے ناکام تجربات کی تکرار ہیں اور یہ امریکا، افغانستان اور خطے کے مفادات کے خلاف ہیں۔” گزشتہ ایک سال کے دوران طالبان کے بیانیے پر نظر ڈالتے ہوئے یہ تاثر ملتا ہے کہ امریکا کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد وہ (طالبان) کسی بھی انتقامی کارروائی پر استثنیٰ حاصل کر چکے ہیں، خاص طور پر انسداد دہشت گردی کے زمرے میں۔

تاہم امریکی حکام نے طالبان پر الزام عائد کیا کہ وہ اسی معاہدے میں کیے گئے اپنے انسداد دہشت گردی کے وعدوں کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک بیان میں کہا گیا: “کابل میں القاعدہ رہنما کی میزبانی اور اُنہیں پناہ دے کر طالبان نے دوحا معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کی اور دنیا کو بار بار یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ دہشت گردوں کو افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جو دیگر ممالک کی سلامتی کے لیے خطرہ بنے۔”

Advertisement

طالبان اور امریکا کی جانب سے بالترتیب اس طرح کے الزامات اور جوابی الزامات دستخطی فریقوں کی ذمہ داریاں واضح کرنے کے لیے دوحا معاہدے کی موروثی خامی کو سامنے لائے۔ امریکا کا دیرینہ نقطہ نظر یہ ہے کہ حقانی گروپ نے ظواہری اور القاعدہ کے دیگر کارندوں کو پناہ دی جس پر طالبان کا ردعمل ہمیشہ لاتعلق رہا ہے۔ سخت گیر طالبان القاعدہ کے کارندوں کو پکڑنے یا انہیں قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے امریکا کے حوالے کرنے کے بین الاقوامی مطالبات سے مفاہمت نہیں کر سکتے۔ 1267 کی کمیٹی (جسے اب 1988 کی کمیٹی کہا جاتا ہے) میں 130 سے زائد طالبان شخصیات شامل ہیں، جن میں سے کئی عبوری کابینہ کے ارکان بھی ہیں۔ ان افراد کو القاعدہ کی حمایت یا دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر عدالت کے سامنے جواب دہ ٹھہرایا جانا ہے۔

طالبان کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 1267 کمیٹی کی ذمہ داریاں اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب سات (VII) کے تحت ہیں جو اقوام متحدہ کے تمام اراکین کو پابند کرتا ہے کہ وہ کمیٹی کی فہرست میں شامل طالبان اور القاعدہ کے ارکان کو پکڑیں اور ان پر مقدمہ چلائیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اسلامک موومنٹ آف اُزبکستان (IMU) کے ارکان اور زنگجیان کے اویغور علیحدگی پسند، طالبان حکام کے علم میں افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ طالبان بھی یہ تاثر دیتے ہیں کہ دوحا معاہدے نے انہیں بین الاقوامی سطح پر قابلِ قبول بنا دیا ہے۔

طالبان کو کابل کے پوش علاقے میں ظواہری کی موجودگی کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرنا ہوگی۔ ظواہری کی موجودگی کے بارے میں لاعلمی کی ان کی وضاحتیں زیادہ معتبر نہیں ہیں کیونکہ سراج الدین حقانی کی رہائش ظواہری کی رہائش سے چند میٹر کے فاصلے پر تھی۔ عقل کا تقاضا ہے کہ وزیر داخلہ اور بین الاقوامی سطح پر مطلوب دہشت گرد حقانی پڑوس میں مقیم لوگوں کے بارے میں ضروری جانچ پڑتال کے بغیر کسی علاقے میں لاپروائی سے زندگی گزاریں گے۔ طالبان حکومت کی رضامندی سے القاعدہ کے مزید کتنے رہنما اور کارندے اب بھی افغانستان میں موجود ہیں، یہ سوالیہ نشان ہے جب تک کہ طالبان اس معاملے پر صفائی نہیں دیتے۔

دوسرا، جب طالبان اپنی عسکری مہارت ثابت کر سکتے تھے، وہ اسلامی امارات چلانے کے اپنے معیارات سے بھی ملکی انتظامی مہارت کا مظاہرہ پیش کرنے میں ناکام رہے۔ طالبان کا اسلامی برانڈ قدامت پسند پشتون خصوصیات کی نمائندگی تو کر سکتا ہے لیکن یہ پاکستان کے باقی حصوں کو چھوڑ کر، پاکستانی پشتونوں کے لیے بھی شاید ہی کوئی مثالی نمونہ (رول ماڈل) پیش کرتا ہو۔ اسلام کے نام پر خواتین کے حقوق کے خلاف ان کی ہٹ دھرمی عالمِ اسلام کے لیے باعثِ شرمندگی ہے۔

تیسرا، افغان سرزمین کا استعمال کرتے ہوئے پاکستانی افواج پر ٹی ٹی پی کے حملے دن بہ دن شدید ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کو ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے کیونکہ افواج کی طرف سے کوئی بھی نرمی ملک میں ریاستی عمل داری (رٹ) کے لیے مہنگی ثابت ہوگی۔ حکومت کو طالبان حکومت پر واضح کرنا چاہیے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے افغان سرزمین کے استعمال کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی حکومتِ پاکستان کو واضح طور پر یہ اعلان کرنا چاہیے کہ ہتھیار ڈالنے کے بعد ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ قابلِ قبول نہیں ہوگا اور افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کی حمایت کو ایک عداوتی عمل تصور کیا جائے گا۔

چوتھا، پاکستان کو افغانستان کے قریبی پڑوسیوں کو اس ملک کی اُبھرتی صورتحال کے بارے میں حساس بنانا چاہیے اور ایک مشترکا حکمت عملی تیار کرنی چاہیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ طالبان افغانستان میں رہنے والے شدت پسند اور دہشت گرد عناصر کو پکڑیں یا پھر نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ پاکستانی افواج پر ٹی ٹی پی کے نئے حملوں کے پیشِ نظر حکومتِ پاکستان کو بھارتی سرگرمیوں کے بارے میں ایک وائٹ پیپر جاری کرنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا افغان طالبان اور بھارت کے درمیان کوئی تعلق ہے۔

Advertisement

آخر میں، حکومتِ پاکستان کو افغان طالبان پر یہ واضح کر دینا چاہیے کہ جہاں پاکستان ایک برادر ملک کے طور پر افغانستان سے اپنے تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گا، وہیں وہ طالبان حکومت سے یہ توقع بھی کرے گا کہ وہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق افغان سرزمین پر پناہ لیے ہوئے عالمی سطح پر تسلیم شدہ شدت پسندوں اور دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرے۔ چونکہ امریکا نے دہشت گردوں کے خلاف بین الاقوامی کوششوں کی قیادت سنبھالی ہوئی ہے، اس لیے دہشت گردوں کے خلاف وہ جہاں بھی ہوں، کسی بھی کارروائی کے لیے اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں (UNSCR) 1267،1368  اور 1373 کی منظوری حاصل ہے۔ اس سلسلے میں طالبان کو پاکستان سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ القاعدہ کے دہشت گردوں کے خلاف امریکا یا کسی دوسری طاقت کی کارروائی سے انکار کرے، چاہے وہ ظواہری ہوں یا اُن کے ساتھی۔ اس لیے ملا یعقوب کو پاکستان پر الزام لگانے سے پہلے اپنی پُشت پر دیکھنا چاہیے۔

 

مصنف اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔

Advertisement

Next OPED