مودی پھر بے نقاب
مُصنف سابق سفیر ہیں اور فی الحال اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بطور سینیئر ریسرچ فیلو کام کر رہے ہیں۔
2002ء کے گجرات قتلِ عام میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ملوث ہونے کے حوالے سے بی بی سی کی دستاویزی فلم بھارتی حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے ایک بم بن کر سامنے آئی ہے۔ مودی حکومت نے ملک میں ایک ہفتے کے وقفے سے نشر ہونے والی دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم کو روکنے کے لیے کافی مُستعدی دکھائی۔ بھارتی حکومت نے یوٹیوب اور ٹوئٹر سمیت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے کہا کہ وہ یقینی بنائیں کہ اِس دستاویزی فلم کو اُن کے ذرائع ابلاغ پر نشر نہ کیا جائے، جو غالباً مارکیٹ کے دباؤ اور اِن کمپنیوں میں کام کرنے والے بھارتی ملازمین کی وجہ سے ماننے پر راضی بھی ہو گئے۔
دستاویزی فلم کو “پراپیگنڈےکے حصے” کے طور پر مسترد کرتے ہوئے بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ فلم کا مقصد “بدنامِ زمانہ بیانیے” کو آگے بڑھانا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس میں ’’تعصّب، معروضیت کا فقدان اور مسلسل نوآبادیاتی ذہنیت واضح نظر آتی ہے۔ یہ ہمیں اِس مشق کے مقصد اور اس کے پیچھے ایجنڈے کے بارے میں حیران کر دیتا ہے اور ہم ایسی کوششوں کو باوقار بنانا نہیں چاہتے‘‘۔
بھارتی اپوزیشن نے بی بی سی کی دستاویزی فلم پر مودی حکومت کی جانب سے لگائی گئی پابندی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ملک میں سنسر شپ کا نفاذ قرار دیا ہے۔ تاہم ملک میں مودی کی بے مثال مقبولیت کے باعث اپوزیشن کے احتجاج کا مجموعی اثر اتنا مؤثر نہیں تھا۔
جہاں بی جے پی کی سرپرست تنظیم، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے بی بی سی کی مذمت کے لیے ملک گیر مہم شروع کر رکھی ہے، وہیں بھارتی حکومت نے برطانیہ میں بھارت نواز اراکین پارلیمان کے ذریعے برطانوی حکومت سے اس بات کی تحقیقات کے لیے کہا ہے کہ آیا بی بی سی کی ٹیم جس نے گجرات قتلِ عام کی تحقیقات کی تھی، میں پاکستانی نژاد افراد شامل تھے۔ مزید برآں حکومت نے سنسر شپ کے قوانین کا اطلاق کرتے ہوئے بی بی سی کی دستاویزی فلم کی دونوں اقساط کو روک دیا ہے۔
جہاں تک دستاویزی فلم کا تعلق ہے، اِس میں کوئی نئی بات نہیں جس سے بھارت یا غیرممالک میں موجود باشعور حلقے لاعلم تھے۔ سب کو معلوم ہے کہ 2002ء میں گجرات میں مسلمانوں کے خلاف وحشیانہ کارروائیاں کی گئیں جب مودی ریاستی وزیراعلیٰ تھے۔ اس قتلِ عام نے بی جے پی حکومت کو اس قدر شرمندہ کیا تھا کہ وزیراعظم واجپائی نے استعفیٰ دینے کی دھمکی دی تھی۔ پہلی قسط مکمل طور پر گجرات کے قتلِ عام پر مُحیط ہے۔ اِس میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے ارکان کے انٹرویوز شامل ہیں جو خفیہ کیمروں سے ریکارڈ کیے گئے ہیں۔
انٹرویو دینے والے کھُلے عام تسلیم کرتے ہیں کہ مودی نے آر ایس ایس اور بی جے پی کے ارکان کو “گودھرا کے قتلِ عام کا بدلہ” لینے کے لیے 72 گھنٹوں کا وقت دیا جس دوران مبینہ طور پر گجرات کے گودھرا اسٹیشن پر ہندو یاتریوں کو لے جانے والی ٹرین کو آگ لگا دی گئی تھی۔ سواپن داس گپتا جیسے بی جے پی کے معذرت خواہ رکن گودھرا واقعے کے ردعمل کے طور پر قتلِ عام کو جائز قرار دیتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بی بی سی نے گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام میں مودی کے ملوث ہونے کے بارے میں ایک بہترین تحقیقاتی رپورٹ سامنے لانے والی مسلمان بھارتی صحافی رعنا ایوب کا انٹرویو نہیں کیا۔ تاہم بی بی سی کی دستاویزی فلم اس بات کی گواہی دیتی ہے جو رعنا ایوب کئی برسوں سے کہتی آرہی ہیں۔
دوسری قسط ہندو اکثریتی حکمرانی کے تحت بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار پر مرکوز ہے جہاں درجنوں مسلمان گاؤ ماتا کے رکھوالوں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ پولیس خاموش تماشائیوں کی طرح مظلوم مسلمانوں کو ہندو ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکھتی رہی۔ جبکہ تقریباً 20 لاکھ مسلمانوں کو پہلے ہی بنگلہ دیشی شہری ہونے کے بہانے شہریت سے محروم کیا جا چکا ہے، مسلمانوں کو اپنی بھارتی شہریت ثابت کرنا پڑتی ہے۔
اسی طرح دستاویزی فلم میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مودی سرکار نے پہلے سے طے شدہ پالیسی کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر میں 25 ہزار سے زائد فوجی دستے تعینات کیے اور پھر آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر اور لداخ کے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم تھی۔ لوگوں کو گھروں تک محدود کرنے کے بعد بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کیا گیا۔ سینکڑوں کشمیرنواز سیاستدانوں اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔
ایک کشمیری وکیل حبیل اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ “بھارتی فوج کشمیر میں تشدد کی مجرم ہے اور کم از کم ایک مثال میں ایک گاؤں پر کیے جانے والے تشدد کو لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے بھی سنوایا گیا”۔ بی بی سی کی دستاویزی فلم میں بھارتی فوج کی جانب سے ایسے الزامات کی تردید بھی شامل ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کو ہجوم کے ہاتھوں قتل کرنے یا مقبوضہ جموں و کشمیر میں احتجاج کرنے والے کشمیریوں کو قتل کرنے پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) کے ترجمان نے واضح طور پر اسے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی قرار دیا۔ یُو این ایچ آر سی کی ٹیم کو کشمیری صحافیوں اور بین الاقوامی میڈیا کی طرف سے رپورٹ ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس کے برعکس صحافیوں کو دہشت زدہ کیا گیا اور انہیں بغاوت کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔
بی بی سی کی دستاویزی فلم اس افسوسناک حقیقت کو اُجاگر کرتی ہے کہ بھارتی ریاست کی حقیقی روح داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وزیراعظم مودی مسلمانوں کے خلاف اپنے جرائم سے بری بھی ہو گئے۔ بی بی سی کی دستاویزی فلم کے مطابق امریکا میں بھارتی تارکینِ وطن کے ایک بڑے ہجوم نے مودی کا استقبال کیا، سابق صدر ٹرمپ نے بھی مودی کو اپنا ’’بہترین دوست‘‘ قرار دیا۔
فرانسیسی اسکالر اور جنوبی ایشیائی اُمور کے ماہر کرسٹوف جیفریلوٹ نے مسلمانوں کی حالتِ زار پر تبصرہ کرتے ہوئے بی بی سی کو دلیل دی کہ مغرب کو اِس بات کی کوئی پروا نہیں کہ بھارت میں کیا ہو رہا ہے کیونکہ وہ اِسے چین کے خلاف ایک توازن اور اقتصادی منڈی جس سے وہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں، کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں اُنہوں نے انسانی حقوق کی پامالیوں اور اِس حقیقت سے جان بوجھ کر آنکھیں بند کر لی ہیں کہ بھارت ہمیشہ اپنے آئینی و جمہوری وعدوں پر پورا نہیں اُترتا۔ مودی کی امریکی اور مغربی حمایت نے بھارت میں آر ایس ایس کی زیرقیادت “طاقتور قوم پرستی” کی مزید حوصلہ افزائی کی ہے تاکہ انتخابی فوائد حاصل کرنے کے لیے اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کو دبایا جا سکے۔
این رام جو بھارت کے معروف صحافیوں میں سے ایک اور دی ہندو کے سابق ایڈیٹر انچیف اور پبلشر ہیں، نے کرن تھاپڑ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بی بی سی کی دستاویزی فلم کی دوسری قسط کے بارے میں کہا کہ، “یہ ایک بہترین تصور کے ساتھ بہترین طور پر تیار کی گئی قسط ہے۔ اِس میں دونوں اطراف کے لوگوں کی بحث بھی شامل ہے ۔۔۔ اِس میں کچھ بھی مبالغہ آرائی نہیں ۔۔۔ اور کچھ بھی بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا گیا ہے۔ این رام کا خیال ہے کہ یہ واقعہ بھارتی عوام کے سامنے ایک آئینہ پیش کرتا ہے جو اِس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بھارت کس طرح کا ملک بن رہا ہے اور یہ وہ چیز ہے جسے بھارتی میڈیا اور شاید خاص طور پر بھارتی نیوز چینلز دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔ این رام نے اس بات سے اتفاق کیا اور تصدیق بھی کی کہ بی بی سی نے بھارت میں 2014ء سے مسلمانوں سے کیے جانے والے سلوک کی مکمل اور سچی کہانی کو ایک ساتھ پیش کیا ہے، جو درحقیقت بھارتی میڈیا کو کرنا چاہیے تھا لیکن اُس نے نہیں کیا۔
بی بی سی کی دستاویزی فلم ہندوتوا اکثریتی حکمرانی کے طریقہء واردات کے خلاف زیادہ سے زیادہ ثبوت جمع کرنے کی ایک جرات مندانہ کاوش ہے۔ چینل نے دستاویزی فلم کو ریلیز کرنے سے پیشتر نتائج کا اندازہ لگا لیا ہوگا، خاص طور پر جب اِسے نفرت پھیلانے والی انتقامی تنظیم آر ایس ایس کے غضب کا سامنا ہے جس کے ٹھکانے پورے ملک اور دنیا بھر کے بڑے دارالحکومتوں میں موجود ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آر ایس ایس کا نفرت انگیز ایجنڈا ملک کی اکثریتی آبادی میں جڑ پکڑ چکا ہے جو اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہریوں میں تبدیل کر دے گا۔
امید ہے کہ عالمی طاقتیں بھارت کو ایک منافع بخش منڈی یا چین کے مقابلے میں توازن کے طور پر دیکھنے کی بجائے ایک ایسے ملک میں 50 کروڑ سے زائد اقلیتوں کی حالت زار پر نظر ڈالیں گی جہاں دنیا کے سب سے زیادہ غربت زدہ لوگ رہتے ہیں۔ اتفاق سے بھارت کے غربت زدہ عوام کی ایک بڑی تعداد مسلمان ہے۔






