ہماری آرزوئے اِنقلاب ۔۔۔
سیاسی تقسیم، ناقص حکمرانی، بُری طرح غیرمُنظّم معیشت اور متعدد دیگر مسائل مزید مایوسی کو جنم دیتے نظر آتے ہیں
اِس ملک میں اکثر گفتگو کا اختتام اِنقلاب کی خواہش پر ہوتا ہے۔ جیسا کہ، “اِس ملک کو انقلاب کی ضرورت ہے۔ اِس سرزمین کو پاک کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔” اِس میں کوئی نئی بات نہیں۔ مجھے وہ لوگ یاد ہیں جو ایک خمینی کی خواہش رکھتے تھے جو اِس ملک کو بدل دے اور اِسے اِن تمام مسائل سے نجات دلائے۔
ایران کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر مجھے اُمید ہے کہ خمینی کی خواہش ختم ہو چکی ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ انقلاب کی خواہش برقرار ہے۔ سیاسی تقسیم، ناقص حکمرانی، بُری طرح غیرمُنظّم شدہ معیشت اور متعدد دیگر مسائل مزید مایوسی کو جنم دیتے نظر آتے ہیں۔ عوام سے دُوری اختیار کرتے، کئی دہائیوں سے طاقتور ہوتے نظام، جس کے ذریعے عوام کی خدمت کی جانی چاہیے تھی، کے بندھنوں کو توڑنے سے قاصر شیطانی چکر میں پھنسے، ازسرِ نو آغاز کے خواہش مند عوام کو کوئی بھی کُلّی طور پر قصوروار نہیں ٹھہرا سکتا۔
اور پھر اچھی قدیم انگریزی کے تسلسل سے ہٹ کر سماجی انقلاب کے نظریے کی جانب جاتے ہوئے، میں ماہر عمرانیات تھیڈا اسکچپول (Theda Skocpol) کی بیان کردہ اِس اصطلاح کو استعمال کرتا ہوں، غالباً بہترین نتیجہ برآمد نہ ہو۔ اِس لیے انقلاب کی آرزو ایک ایسا علاج پیش کر سکتی ہے جو بیماری سے بھی بدتر ہو۔ ذیل میں میرے اپنے فرضی اور غیرسنجیدہ نکات ہیں کہ میں اپنے لیے کس طرح کا انقلاب چاہتا ہوں۔ یہ نظریہء انقلاب پر ایک اِستہزائیہ تنقید بھی ہے، جس کی اصطلاح کو لااُبالی پن اور لاپروائی سے استعمال کیا گیا ہے!
میں فطرتاً لاہوری ہوں، اِس شہر کا ایک اَن چاہا حصہ۔ مجھے یہ سوچنا پسند ہے کہ میں کسی بھی صورت میں سوچتا ہوں، میں سماجی تقریبات، عشائیوں اور بیٹھکوں میں نُمایاں طور پر نظر آنا پسند کرتا ہوں جنہیں اب عالمی سطح پر جی ٹی (GT) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ چونکہ میں نے چند ایک کتابیں پڑھ رکھی ہیں اور کچھ فقرے بھی بول لیتا ہوں اِس لیے میں خود کو اپنے پڑوسی یا ساتھ بیٹھے ہر شخص سے بہتر سمجھتا ہوں۔ یقیناً یہ ضروری نہیں کہ دوسرے لوگ اِس بات کو مانیں لیکن اِس بات کی کسے پروا ہے، کم از کم مجھے تو بالکل نہیں اور یہی اہم ہے۔
میں سیاسی معاملات میں کافی پُرجوش ہوں۔ اب برسوں سے اِس ملک کو سسکتے دیکھ کر میں بدعنوانوں اور اُن کے حواریوں پر آسمان گرانے کی غرض سے سڑکوں پر نکلنے ہی والا ہوں۔
لیکن میں نے ایسا نہیں کیا ہے۔ اِس لیے نہیں کہ مجھ میں ہمت نہیں ہے۔ نہیں جناب، میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور ہمت کسی مشروب کا برانڈ نہیں ہے، اگرچہ کاش ایسا ہوتا۔ میرے سڑک پر نہ آنے کی وجہ یہ ہے کہ میں ظلم کے خلاف تحریک کی “تصوّر” بننا چاہتا ہوں۔ یہ قرونِ وُسطیٰ کی لڑائی نہیں جہاں جرنیلوں نے محاذ سے قیادت کی۔ جدید لڑائی میں محاذ عقب میں موجود آپریشن روم ہے۔ اس کے علاوہ محاذِ جنگ میں پا پیادہ سپاہیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
نہ ہی میں انقلابوں کا اورسینو ہوں جو عملی انقلاب سے زیادہ خیالی انقلاب سے محبت کرتا ہے۔ یہ ایک سخت فیصلہ ہوگا اور گُمراہ بھی۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر میں مُشتعل ہو کر سڑک پر نکل آؤں تو بے ہودہ سرکاری کارندے ایک انقلابی سوچ رکھنے والے اور ایک لڑنے والے فرد کے درمیان تمیز نہیں کر پائیں گے۔
میں ایک پاکستانی یان پال سارٹر (فرانسیسی فلسفی) ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اکیلیس لانس (Achilles’ lance) کی طرح تشدد اپنے زخموں کو خود بھرتا ہے تاہم میرے لیے اِس سے محفوظ فاصلہ نہ رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ کسی بھی صورت میں یہ ایک دانشورانہ دریافت ہے۔ ایک مُفکّر کو اپنے نظریہء انقلاب کے لیے خود ایک تجرباتی شے (Guinea Pig) بنتے دیکھنا اشتعال انگیز ہوگا۔
ہمارے ہاں ہزاروں (Sans Culottes ، سان کلوٹس) عوام ہیں جن کی طاقت کو ایک غیر فعال نظام کو اُکھاڑ پھینکنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اِن میں زیادہ تر سوچ نہیں سکتے اور وہ کبھی بھی کچھ حاصل نہ کر پائیں گے کیونکہ نظام اُنہیں ترقی کرنے نہیں دیتا۔ میرا مطالبہ ہے کہ اُن میں بتدریج ایک نیا پُختہ شعُور بیدار کیا جائے جس کے باعث وہ یاد رکھے جا سکیں گے۔ حتیٰ کہ میں نئے نظریات پر مبنی ایک کتاب بھی لکھوں گا جسے دنیا بھر میں سماجیات اور سیاسیات کے شعبہ جات میں سماجی و سیاسی تحاریک پر اپنی نوعیّت کی واحد کتاب کے طور پر پڑھایا جائے گا۔
میں سڑکوں پر خود کو پولیس اہلکاروں کے سامنے کیوں پیش کروں جنہیں میری دانش کی کوئی پروا نہیں ہوگی اور جو دنیا کو ایک اثاثے سے محروم کر دیں گے؟ ۔۔ نیز عشائیوں میں اشرافیہ کو کون عقل دے گا؟ اگر مجھے جیل میں ڈال دیا گیا تو میں زندگی کی اُن بہت سی ضروریات سے بھی محروم ہو جاؤں گا جو میری صحت کے لیے ضروری ہیں۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ جب تک میں خود کو اچھا اور مطمئن محسوس نہ کروں، میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اِس سے انقلاب کو نقصان پہنچے گا۔
پھر صبح کے وقت چائے کا وہ کپ جو بیرا میرے لیے لاتا ہے اور جس کے بغیر میں اپنے دن کی شروعات نہیں کر سکتا۔ مجھے اُٹھنے، چائے کی چُسکی لینے اور صبح کے اخبارات دیکھنے میں وقت لگتا ہے۔ میں اپنے باتھ روم کے معاملات کے حوالے سے بھی کافی حساس ہوں۔ تازہ ترین تحقیق میں سوچنے اور آرام سے “بوجھ” دُور کرنے کے درمیان ایک مضبوط ربط بھی پایا گیا ہے۔ لہٰذا ایک صاف سُتھرا باتھ روم بھی گہری سوچ کے لیے ضروری ہو جاتا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ جیلوں میں باتھ رومز پر زیادہ اخراجات نہیں کیے جاتے ہیں۔ اِس لیے جیل جانے کا مطلب سوچنے کے قابل نہ ہونا ہے اور یہ انتہائی ضروری سیاسی شعُور اور اِس کے اختتامی نکتے یعنی ایک انقلاب کی آمد میں تاخیر کا باعث ہو گا!
میں جانتا ہوں کہ مارکس کا خیال تھا کہ انقلابات ایک غیر رضاکارانہ رجحان ہیں لیکن وہ غلط تھا۔ آپ کو نئے خیالات و نظریات رکھنے والے لوگوں کے ایک گروہ کی ضرورت ہے اور آپ اِن ذہین افراد کو سڑکوں پر نکال کر گرفتار ہونے یا اِس سے بھی بدتر صورت میں مارے جانے نہیں دے سکتے۔ ایک بار سر کاٹ دیا جائے تو یہ تحریک بغیر سر کی مرغی بن جائے گی اور ہم سب جانتے ہیں کہ بغیر سر کی مرغی کو چرغہ بنانے کے لیے محض گول گول ہی گھُمایا جاتا ہے۔
مجھے کافی کمانے کی ضرورت بھی ہے تاکہ میں سوچتا رہوں۔ مجھے ایک شاندار کار کی ضرورت ہے جس میں اِدھر اُدھر گھُومتا پھروں۔ سوچ ایک کُل وقتی اور ایک مقدس کام ہے۔ آرام اور سوچ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب تک جیلیں مجھے نیٹ فلکس اور ایچ بی او کے ساتھ کیبل ٹی وی، ایک لیپ ٹاپ، کتابیں اور دیگر اشیاء سے مُزیّن ایک پُرتعیّش کمرہ، باقاعدگی سے باہر کے دورے جن کے دوران میں ذہنی طور پر پروان چڑھ سکوں، فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گی میں جیل میں کتاب نہیں لکھ سکوں گا۔ اس لیے میں خود کو جیل کی دعوت دینا وقت کا ضیاع سمجھتا ہوں۔
اصل نکتہ یہ ہے کہ میں اپنے نظریات کو جانچنے کے لیے شدّت سے ایک انقلاب چاہتا ہوں۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ دوسرے لوگ سڑکوں پر لیٹ جائیں۔ لوگ اِس بات پر کیوں اصرار کریں کہ محض اِس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ صرف ایک نیا ’’سیاسی شعُور المعروف انقلاب‘‘ ہی حالات بدل سکتا ہے جو مجھے بھی شروع کر دینا چاہیے؟
نتیجہ: اُمید ہے کہ عشائیے پر گفتگو کے دوران ہمیں انقلاب کی آرزو سے چھٹکارا دلانے کے لیے مذکورہ بالا تحریر کافی ثابت ہو گی!
مُصنف سلامتی اور خارجہ پالیسیوں میں دلچسپی رکھنے والے صحافی ہیں






