ایران میں انتشار
مصنف اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔
ایک ماہ قبل 22 سالہ ایرانی کرد لڑکی مہسا امینی کی ہلاکت سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے پھُوٹ پڑے تھے۔ تقریباً 190 افراد جن میں 28 بچے بھی شامل ہیں، مبینہ طور پر ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ مظاہروں کی شدّت میں بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اِن مظاہروں کی قیادت زیادہ تر خواتین کر رہی ہیں جن میں ضابطہء لباس (ڈریس کوڈ) میں آزادیء انتخاب کا مطالبہ کیا گیا ہے، خاص طور پر اُس لازمی اسکارف کے حوالے سے جو عوامی مقامات پر خواتین کے لیے پہننا ضروری ہے۔ ایرانی مجلس (پارلیمان) نے مہسا امینی کی موت سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ پر بحث کے لیے والدین کو مدعو کیا ہے۔ اس مسئلے نے بین الاقوامی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے جس میں کچھ مغربی تجزیہ کار ایران کی تھیوکریٹک (مذہبی پیشوا کی رہنمائی میں چلنے والی) حکومت کے لیے ناخوشگوار پیشرفت کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔
فی الحال تو بے امنی صرف حجاب کے معاملے تک ہی محدود ہے۔ یہ کسی سیاسی تحریک یا حکومت کی تبدیلی میں نہیں بدلا ہے جسے مغربی میڈیا کو ایران میں ہونے والی کسی بھی بے امنی کی صورت میں پیش کرنے کا شوق ہے۔ تاہم اِس طرح کے مظاہرے ایرانی حکومت کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ یہ حکومت کی کمزور پڑتی مقبولیت کو ظاہر کرتے ہیں اور مشرقِ وُسطیٰ میں بطور علمبردارِ شیعہ انقلاب اِس کے مقام کو چیلنج کرتے ہیں۔
خواتین کے لیے مُتعارف کرائے گئے اسلامی ضابطہء لباس (ڈریس کوڈ) میں شامل حجاب برسوں سے ایرانی مذہبی پیشواؤں اور خواتین کے درمیان تنازع کا باعث رہا ہے۔ خواتین ایرانی آبادی کا نصف ہیں اور انہیں ایرانی معاشرے میں خاص طور پر خاندانی نظام میں ایک بہت ہی بااثر مقام حاصل ہے۔ جب شادی ہوتی ہے تو عورتیں اپنے والد کا نام برقرار رکھتی ہیں۔ زن سالاری (خواتین کی حکمرانی) کہلانے والے معاشرے میں ایک طاقتور کردار کے باوجود ایرانی مذہبی پیشوا کس طرح اُنہیں ضابطہء لباس، بالخصوص حجاب کا پابند کرتے ہیں، ایک معمّہ ہے۔
ایرانی انقلاب چار دہائیوں پر مُحیط خطرات اور ہنگامہ آرائیوں کے باوجود زندہ رہا ہے۔ مذہبی پیشوا ملک کو تھیوکریٹک نظام کی جانب لے جانے کے لیے متّحد رہے ہیں۔ اِسی دوران اُن کا امریکا مُخالف مؤقف حکمرانی کو طوالت بخشنے اور قوم کو متّحد رکھنے کے لیے سہارا بن گیا۔ عراق جنگ نے ملک میں انقلابی نظام کے استحکام کو متحرّک کیا۔ مذہبی حکومت نے کھوکھلے نعروں پہ بھروسہ نہیں کیا بلکہ سماجی و اقتصادی میدان میں پیشرفت کی۔ حکومت نے 97 فیصد شرحِ خواندگی حاصل کی ہے جبکہ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اِس نے غیرمعمولی ترقی کی ہے۔ خاص طور پر عالمی ادارہء صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بنیادی صحت کے شعبے میں ایران کو پہلے نمبر پر نامزد کیا ہے جس کے تحت ملک بھر کے دور دراز علاقوں میں طبی سہولیات دستیاب ہیں۔
درحقیقت تیل کی دولت نے بین الاقوامی دباؤ، خصوصاً مذہبی پیشواؤں کے اقتدار میں آنے کے بعد سے امریکی پابندیوں کے باوجود انقلابی نظام کو برقرار رکھا۔ کسی بھی دوسری انقلابی حکومت کی طرح ایرانی انقلابیوں نے اپنے انقلاب کو خلیج فارس کی بادشاہتوں سمیت پڑوسی ممالک کو برآمد کرنے کی کوشش کی۔ ایران نے ان ممالک میں شیعہ کارڈ استعمال کرکے عراق، شام اور لبنان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ اس نے خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کی بادشاہتوں میں بھی شیعہ کارڈ استعمال کرنے کی کوشش کی تاہم ناکام رہا کیونکہ اُنہوں نے اِسے کچل ڈالا۔ فلسطینیوں کی حمایت نے اسلامی دنیا میں ایران کے قد میں اضافہ کیا۔
مشرقِ وُسطیٰ کے خطے میں ایران کی جغرافیائی سیاسی اہمیت کے پیشِ نظر، ایران میں کوئی بھی بے امنی مغربی میڈیا کی فوری توجہ حاصل کرتی ہے اور اس کے سیاست دان ایرانی مظاہرین کی حمایت میں آواز اٹھانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ آیا ایرانی مظاہرین حجاب کے حکم کو تبدیل کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے یا مذہبی پیشوا کا حکم برقرار رہے گا، اِس پر بحث جاری ہے۔ چونکہ ملک بھر میں جاری مظاہروں میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ تقریباً 80 شہروں اور قصبوں تک پھیل چکے ہیں، اس لیے یہ حکام کے لیے ایک زبردست مشکل کھڑی کر سکتے ہیں۔ سابقہ تجربات ظاہر کرتے ہیں کہ حکام نے اِس طرح کے مظاہروں کو بے دردی سے دبایا ہے اور ممکنہ طور پر وہ حالات قابو سے باہر ہونے سے قبل اپنی پرانی مشق کا اعادہ کریں گے۔
ملک میں جاری بے امنی ایرانی ثقافت کو ظاہر کرتی ہے جو ایران میں روزمرہ زندگی پر حاوی ایک اہم عنصر ہے چاہے حکومت اسلامی ضابطہء اخلاق نافذ کرنے پر فخر کرے۔ مثال کے طور پر عید الفطر یا عید الاضحٰی کے اسلامی تہوار ایران کے بیشتر حصوں میں اہمیّت نہیں رکھتے جبکہ نوروز ملک بھر میں جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ نوروز کی تعطیلات کے دوران ایرانی بیرونِ ملک جانے اور ایسے ممالک میں زندگی کا لطف اٹھانے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں ان سہولیات تک آسان رسائی ہو جن کا انتخاب ایک مغربی سیاح لطف اندوز ہونے کے لیے کرتا ہے۔ یہ پھر کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے ایران مغربی ثقافت سے آشنا ہے اور لوگوں نے خوشی خوشی مغربی طرزِ زندگی کو اپنایا ہے۔ اسلامی ضابطہء حیات کا تعارف جس میں ضابطہء لباس بھی شامل ہے، لوگوں میں مثبت ردعمل کو جنم نہیں دیتا۔ اس لیے عام لوگوں کی رضامندی کے بغیر جاری کیے گئے کسی بھی حکم کو موقع ملنے پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایران میں مذہبی حکام نے برسوں کے دوران ملک میں ضابطہء لباس کے بارے میں لچک کا مظاہرہ کیا ہے، خاص طور پر جب اعتدال پسند صدور (رفسنجانی، خاتمی اور روحانی) اقتدار میں تھے۔ برسوں کے دوران کوئی بھی عوامی مقامات پر ضابطہء لباس (ڈریس کوڈ) میں نرمی دیکھ سکتا ہے۔ سوائے سرکاری اہلکاروں یا شادی شدہ جوڑوں کے جو عوامی مقامات پر چادر اوڑھتے ہیں اور خواتین سر پہ اسکارف لیتی ہیں، باقی عوام چادر کے بغیر اور جدید ملبوسات پہنتی ہے۔
آج کا ایران انقلاب کی پہلی دو دہائیوں سے بہت مختلف ہے جب ایران کی اخلاقی پولیس نے لوگوں کو اسلامی اخلاقیات کے نام پر مجبور کر رکھا تھا۔ تہران یا دیگر بڑے شہروں کی سڑکوں پر کالی چادر پہننے والی خواتین کا غلبہ اب نظر نہیں آتا۔ دو دہائیوں قبل مردوں کے ہاتھ کہنی تک کالے دیکھے جاتے تھے کیونکہ وہ گرمیوں میں بغیر آستین کی قمیضیں پہنتے تھے۔ اخلاقی پولیس لڑکیوں کو بالوں کی لٹ ظاہر ہونے پر بھی گرفتار کیا کرتی تھی پر اب نہیں۔
تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ ایرانی پاسدارانِ انقلاب (IRGC) اور بسیج (رضاکارانہ فوج) نے ملک میں معاشی بحران، بے روزگاری، قیمتوں میں اضافے یا ضابطہء لباس سے متعلق کسی بھی بے امنی کو بے رحمی سے کچل دیا ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران 190 ہلاکتوں کی اطلاعات کے باوجود اب تک ایرانی حکام نے مظاہرین سے نمٹنے میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس بار ایرانی حکام کا لہجہ دفاعی ہے جو اسکارف کے معاملے پر ایک نوجوان لڑکی کے قتل پر پشیمانی کے جذبات کو ظاہر کرتا ہے۔ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں حکومتی اہلکاروں کو ایرانی معاشرے میں بڑھتے سماجی و ثقافتی مسائل کا جائزہ لینا ہو گا۔
چونکہ بین الاقوامی میڈیا ہر وہ چیز پیش کرنا پسند کرتا ہے جو ایرانی حکومت کو بُرا دکھائے، اس طرح کے احتجاجوں کو ایرانی نظام اور اس کے استحکام کے بارے میں علاقائی اور بین الاقوامی تبصروں میں زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ مغرب نے ایران میں تھیوکریٹک نظام کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ پچھلی چار دہائیوں کے دوران ایرانی انقلابیوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے اور وہ انقلاب کو اندرونی اختلاف اور بیرونی اشتعال سے بچانے کے لیے کافی پُراعتماد ہیں۔
تاہم اب تک ایران میں حکمراں اشرافیہ کو یہ احساس ہو چکا ہو گا کہ وہ شاید ایک تھیوکریٹک نظام قائم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ پھر بھی وہ ایرانی ثقافت کی روح کو عام لوگوں کے ذہن و دل سے نہیں نکال سکتے۔ اس لیے ایرانی مذہبی پیشواؤں کو ضابطہء لباس (ڈریس کوڈ) کی بات کرتے وقت عوامی خواہشات پر غور کرنا ہو گا۔ ورنہ حالیہ تاریخ بتاتی ہے کہ گزشتہ صدی میں تمام انقلابات ناکام ثابت ہوئے ہیں۔