ایک کمانڈر کے اعترافات
مُصنّف سیاسی و سلامتی کی حکمت عملیوں کے ماہر اور اسلام آباد میں قائم ایک آزاد تھنک ٹینک، علاقائی امن انسٹیٹیوٹ کے بانی ہیں۔ ٹوئٹر: @RaoofHasan
راولپنڈی میں جی ایچ کیو میں یوم دفاع و شہدا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف (سی او اے ایس) نے اعتراف کیا کہ سات دہائیوں سے فوج نے سیاست میں مداخلت کی ہے۔ انہوں نے اسے ’’غیر آئینی اقدام‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ فوج کی سیاست میں مداخلت وسیع پیمانے پر رہی ہے جس میں بغاوت کے ذریعے سویلین حکومتوں کو ختم کرنے سے لے کر بالواسطہ طور پر کمزور سیاسی نظاموں کو کنٹرول کرنا شامل ہے۔ انہوں نے سیاسی رہنماؤں پر یہ بھی الزام لگایا کہ وہ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے فوج کو با آسانی جگہ دے رہے ہیں، اور اس طرح ادارہ جاتی حدود کو پامال ہونے دیا گیا ہے۔
ممکنہ طور پر کمان کی تبدیلی سے پہلے اپنے آخری عوامی اجتماع میں، انہوں نے پی ٹی آئی پر شدید ترین تنقید کرتے ہوئے اس پر فوج کے خلاف ’’جعلی اور جھوٹا بیانیہ‘‘ گھڑنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے امریکی سازشی تھیوری کو بھی مسترد کر دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’پی ٹی آئی کی تنقید کا جواب دینے کے لیے وسائل اور مواقع ہونے کے باوجود، فوج نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں اپنے اور فوج کے خلاف اس نامناسب رویے کو معاف کرنے اور اس سے صرف نظر کے لیے تیار ہوں کیونکہ پاکستان ہم سے بڑا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ (سابق) مشرقی پاکستان کا ٹوٹنا فوجی نہیں بلکہ سیاسی ناکامی تھی۔
فوج نے پچھلی سات دہائیوں میں جو سیاسی کردار ادا کیا ہے اس کا اعتراف کرتے ہوئے، جنرل باجوہ نے اپنے الوداعی خطاب میں موضوعات کے وسیع ذخیرے کا احاطہ کیا۔ سیاست میں فوج کی مسلسل مداخلت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ہر کوئی واقف ہے، لیکن اس سے پہلے کبھی کسی سبکدوش فوجی کمانڈر نے عوامی سطح پر اس کا اعتراف نہیں کیا تھا۔ یہ اعتراف ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملکی معاملات کے نظم و نسق میں مبینہ غیر آئینی کردار کی وجہ سے سیکیورٹی ادارے کو ممکنہ طور پر اب تک کی سب سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔
جہاں تک سازشی بیانیہ کا تعلق ہے تو یہ نہ جعلی ہے، نہ جھوٹا اور نہ ہی نامناسب۔ آئیے پہلے حقائق کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکہ میں (اس وقت کے) پاکستانی سفیر کی طرف سے بھیجا گیا سائفر ایک حقیقت ہے۔ ڈونلڈ لو کی طرف سے (اس وقت کے) وزیر اعظم عمران خان کو عدم اعتماد کا ووٹ پیش کرکے ہٹانے، بصورت دیگر نتائج کے لیے تیار رہنے کے حوالے سے دی گئی دھمکی ایک حقیقت ہے۔ سفیر کا اس نامناسب رویے پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے کا مشورہ ایک حقیقت ہے۔ 37ویں قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے اجلاس میں زیرِ بحث آنے والا معاملہ جس نے اسے ’’پاکستان کے اندرونی معاملات میں صریح مداخلت‘‘ قرار دیا تھا، ایک حقیقت ہے۔ امریکی سفیر کو ڈیمارش پیش کرنے کا قومی سلامتی کمیٹی کا فیصلہ ایک حقیقت ہے (جس پر عمل درآمد بھی کیا گیا تھا)۔ شہباز شریف کی زیرصدارت 38ویں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس موضوع پر بحث ایک حقیقت ہے ، جس میں قومی سلامتی کمیٹی کے 37ویں اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کی گئی اور اس طرح یہ تسلیم کیا گیا کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلم کھلا مداخلت واقع ہوئی ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ’’ملک کے اندرونی معاملات میں صریح مداخلت‘‘ کیسے ہوتی ہے؟ یہ جادو کی چھڑی لہرانے سے نہیں ہوتی۔ یہ مداخلت اس کی ضرورت اور اس کے نفاذ کے طریقہ کار کے بارے میں بات چیت کا آغاز کرنے سے شروع ہوتی ہے۔ آپ عمل سے پہلے کے اس مرحلے کو کیا نام دیں گے جس کی وجہ سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں ’’صاف مداخلت‘‘ ہوئی؟ آسان الفاظ میں، اسے آپریشن کرنے کے لیے ’’منصوبہ بندی‘‘ یا ’’سازش‘‘ کہا جائے گا۔ وہاں سے یہ واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ عمران خان کو ملک کے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانا ایک غیر ملکی سازش کا نتیجہ تھا جسے مقامی ملی بھگت سے انجام دیا گیا تھا، جس کی دلخراش تفصیلات پہلے سے ہی عوامی سطح پر موجود ہیں۔ تو، اس کے بارے میں جعلی کیا ہے؟ اس میں جھوٹ کیا ہے؟ اس میں کیا نامناسب بات ہے؟ سازش روز روشن کی طرح ایک حقیقت ہے اور اس میں کردار ادا کرنے والے تمام اداکاروں کو نہ صرف اس حققیت کے ساتھ رہنا ہوگا بلکہ اس کے ہولناک نتائج بھی بھگتنا ہوں گے۔
(سابق) مشرقی پاکستان کو سیاسی شکست کہنا آدھا سچ بولنا ہے۔ بھٹو نے ڈھاکہ میں پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے میں ایک مذموم کردار ادا کیا کیونکہ یہ ان کے نامعقول سیاسی عزائم کے مطابق نہیں تھا۔ غیر منقسم پاکستان میں وہ کبھی بھی وزیر اعظم نہیں بن پاتے، جب کہ وہ وزارت عظمی سنبھالنے کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے فوجی حل کی بھرپور وکالت کی، جس سے ملک ٹوٹ گیا۔ لیکن وہ حتمی فیصلہ ساز نہیں تھے۔ یہ اختیار اور اس کے نتیجے میں ذمے داری جنرل یحییٰ خان پر عائد ہوتی تھی جو غیر منقسم پاکستان کے صدر تھے۔
حکمرانی کا حق شیخ مجیب الرحمان کو سونپنے ، جنہوں نے زبردست فتح حاصل کی تھی اور ان کے پاس غیر منقسم ملک کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے لیے زبردست اکثریت تھی، یا فوجی آپریشن شروع کرنے کا انتخاب صرف اور صرف یحییٰ خان کے پاس تھا۔ ہوسکتا ہے کہ بھٹو کے زیراثر ، انہوں نے موخرالذکر کا انتخاب کیا ہو جس کا نتیجہ ملک کی تقسیم کی صورت میں نکلا۔
سپاہی اور افسر بہادری سے لڑے، ان میں سے کئی نے ملک کے دفاع میں اپنی جانیں قربان کیں، لیکن ایک بھیانک فیصلے کے کرنے والے وہ نہیں تھے۔ اب جب کہ ملک کے سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت کے حوالے سے کچھ سچائی سامنے لائی جا رہی ہے، آئیے ہم (سابق) مشرقی پاکستان کے خاتمے کی حقیقت کا بھی سامنا کریں۔ بحران کی ذمہ داری اس پر عائد ہونی چاہیے جو اس وقت ملک پر حاکم تھا۔ اس نے ایک ہولناک فیصلہ کیا جس پر عمل درآمد میں بھٹو اور ان جیسے دیگر لوگوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ذمے داروں کا تعین کرنے کے بعد (سابقہ) مشرقی پاکستان کے بھوت سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑالیں۔
میں عاجزی کے ساتھ سبکدوش ہونے والے چیف سے ایک سوال پوچھنا چاہوں گا جو میرے اور لاتعداد محب وطن شہریوں کے ذہنوں میں مسلسل کھٹک رہا ہے: سزا یافتہ اور مجرموں کے ٹولے کو ملک کا حکمران بنانے کی کیا اشد ضرورت آ ن پڑی تھی؟ کیا پاکستان ایسے مہذب لوگوں سے خالی ہوچکا ہے جو حکمرانی کا احساس بھی رکھتے ہوں گے، یا شریف اور بھٹو/زرداری خاندان استحصالی آلات کے استعمال کی بنیاد پر ہونے والی کسی پس پردہ سودے بازی کا نتیجہ تھے؟ کیا کوئی اس لامتناہی آفت کا اندازہ لگا سکتا ہے جس نے پاکستان کو، جب سے مجرم گروہ کو حکومت کرنے کا حق سونپا گیا ہے، وبا کی طرح جکڑ لیا ہے؟ جی ہاں، یہ وہی ہیں جنہوں نے اپنے جرائم اور بدعنوانی سے خود کو پاک کرنے کے لیے بڑے شاطرانہ اور عیارانہ انداز میں ہر فیصلے کو سیاست زدہ کیا ہے۔
یہ تسلیم کرنا کہ فوج پولیٹیکل انجینئرنگ کرنے کی قصوروار رہی ہے ایک اچھی شروعات ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس پسندیدہ اور گہرے رجحان کی مؤثر طریقے سے مزاحمت کی جاسکتی ہے تاکہ پاکستان ماضی کی تلخیوں کو دھونے کے لیے ایک اصلاحی سفر کا آغاز کر سکے۔ یہی اصل چیلنج ہے۔ جیسا کہ فیض صاحب نے فرمایا:
ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے