بینظیر بھٹو کی یاد
سیاسی جماعتوں کو بے نظیر کی وراثت پر عمل کرنا ہوگا ملکی سالمیت کا تحفظ اور معاشی محکومی کا خاتمہ
مصنف سپریم کورٹ کے وکیل ہیں، 1980ء سے دہشت گردی کے ساتھ ہیروئن کی تجارت کے تعلق کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
15 سال قبل بینظیر بھٹو کا سفاکانہ قتل دہشت گردوں کے ایجنڈے کے خلاف مزاحمت اور پاکستان کو ایک اعتدال پسند، جمہوری اور خوشحال ریاست بنانے کے لیے کیا گیا۔انہوں نے تمام فوجی حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کی اور اپنی سیاسی اور ذاتی زندگی میں بے شمار مشکلات کا بہادری سے سامنا کیا۔
جمہوریت کی دہائی (2008ء-18) کے دوران، اور9 اپریل 2022ء تحریک عدم اعتماد کے ذریعےسابق وزیر اعظم عمران خان کی زیرقیادت حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہر گذرتے دن کے ساتھ شہریوں، خاص طور پر کم مراعات یافتہ طبقے کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔موجودہ سیاسی تعطل، سنگین معاشی بحران اور قبل از وقت انتخابات کے انعقاد سے ہچکچاہٹ ریاست کے استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ بے نظیر زندہ ہوتیں تو حالات بہت مختلف ہوتے۔
چونکہ قوم کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے، سیاسی جماعتیں بحران پر قابو پانے کے لیے ہاتھ ملانے کی بجائے نان ایشوز پر لڑ رہی ہیں اور اپنے مفادات کا تحفظ کر رہی ہیں۔وہ عوام میں سیاسی عدم استحکام، دشمنی اور عدم برداشت کو دوام بخش رہے ہیں ۔وہ اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے اور انتخابات، قومی خودمختاری اور سلامتی سے متعلق بنیادی مسائل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے بھی تیار نہیں – جس کے لیے معاشی خود انحصاری شرط ہے۔ان حالات میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ چارٹر آف اکانومی کے ساتھ قبل از وقت انتخابات ہی واحد قابل عمل حل ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ 27 دسمبر 2007ء کو بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے پاکستان اب تک مختلف خوفناک تنازعات میں پھنسا ہوا ہے۔موجودہ غیر مستحکم معاشی صورتحال، سیاسی تعطل اور عسکریت پسندوں کی طرف سے ہماری بہادر مسلح افواج اور شہریوں پر حملے ریاست کے لیے سنگین چیلنجز ہیں۔ہمیں اس وقت اس افراتفری اور بے یقینی کی کیفیت سے نکلنے کے لیے قومی ہم آہنگی اور سیاسی پختگی کی ضرورت ہے۔
یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری مسلح افواج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انتھک جدوجہد، لگن اور عظیم قربانیوں کے ذریعے برسوں کی ہلچل کے بعد انتہائی ضروری امن فراہم کیا۔تاہم ایسا لگتا ہے کہ سیاست دان ایک بار پھر تاریخ سے سبق سیکھنے میں ناکام رہے ہیں اور کیچڑ اچھالنے اور ایسی صورتحال پیدا کرنے میں مصروف ہیں جو ہماری معاشی بقا کے لیے نقصان دہ ہے۔پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے بارے میں قومی اتفاق رائے ہے کہ 14 سال سے زائد مسلسل سویلین حکمرانی کے بعد بھی ایسی قیادت پیدا کرنے میں ناکام رہی ہیں جو ریاست کو موجودہ سماجی، معاشی اور سیاسی بحران سے نکال سکے۔
آصف علی زرداری کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت نے بھٹو کی ترقی پسند پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا – بدعنوانی نئی بلندیوں پر پہنچ گئی، بدانتظامی جنگل کی آگ کی طرح پھیلی، امن و امان خراب ہوا، ادارہ جاتی تصادم میں تیزی آئی اور لوگوں کی معاشی پریشانیاں کئی گنا بڑھ گئیں۔تیسری بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں پی پی پی کی طرف سے طے شدہ رجحان میں مزید تیزی آئی – بعد میں سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا اور احتساب عدالت سے سزا سنائی گئی۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں، پاکستان قرضوں کے مہلک جال میں پھنس گیا اور ادارہ جاتی دراڑیں پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا۔لندن میں موجود نواز شریف مبینہ طور پر موجودہ مخلوط حکومت کی سربراہی کرنے والے وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے کیے جانے والے تمام بڑے فیصلوں کا حکم دیتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے اپنے دور حکومت میں یہ بھی ثابت کیا کہ اس کے پاس پاکستان کو درپیش بنیادی مسائل کے حل کے لیے نہ تو کوئی عملی پروگرام ہے اور نہ ہی ان کی پارٹی میں اہل لوگ شامل ہیں ۔موجودہ حکومت دیگر ناکامیوں کے علاوہ خراب معاشی حکمرانی، افراط زر اور ملک کی معاشی استحکام کو یقینی بنانے میں ناکامی سے بھی متاثر ہے۔
آج کے پاکستان میں ایک بھی لیڈر ایسا نہیں ہے جو بینظیر بھٹو کے وژن اور پاکستان کو ملکی سطح پر مضبوط بنانے کی جدوجہد سے مطابقت رکھتا ہو، جو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری بھارتی افواج کے مظالم سمیت دیگر مسائل کو ملک کے اندر اور عالمی سطح پر آواز اٹھاسکے
مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی تحریک طالبان پاکستان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ’جنگ بندی‘ تک پہنچنے کی ماضی کی کوششیں بری طرح ناکام ہوئیں۔پی ٹی آئی نے خیبر پختونخواہ میں جماعت اسلامی کے ساتھ اقتدار میں حصہ لینے اور ٹی ٹی پی کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے بعد، عسکریت پسندوں کے اشتعال کو جنم دیا اور وزیر قانون اسرار اللہ گنڈا پور جیسے بہت سے لوگوں کو کھو دیا ۔بالآخر مسلح افواج نے بڑے عزم اور قربانیوں کے ساتھ 15 جون 2014ء کو شروع کیے گئے آپریشن ضرب عضب ، اور فروری 2017ء میں آپریشن ردالفساد کے دوران ٹی ٹی پی سمیت دیگر عسکریت پسند اور علیحدگی پسند گروپوں کے مضبوط ٹھکانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔
بدقسمتی سے، ٹی ٹی پی اور دیگر عسکریت پسند دوبارہ منظم ہو گئے ہیں اور حملے کرنے لگے ہیں۔افغانستان میں طالبان کی حکومت کے تحت کابل اور دیگر جگہوں پر سرحد پار سے فائرنگ کے واقعات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مشن پر بم حملے بھی ہوئے ہیں۔موجودہ حالات میں تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے تمام اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک کی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے مسلح افواج کا ساتھ دینا چاہیے۔بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی کے حالیہ انکشاف کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانا چاہیے، تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ پاکستان سرحد پار سے تشدد کا مسلسل شکار ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آنے والی حکومتوں نے بے نظیر بھٹو کے قتل کے ذمہ داروں کو سزا دینے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے تقریباً 10 سال بعد 30 اگست 2017ء کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے سنائے گئے فیصلے میں ٹی ٹی پی کے پانچ ملزمان (اعتزاز شاہ، شیر زمان، عبدالرشید، رفاقت حسین اور حسنین گل) کو بری کر دیا گیا۔عدالت نے دو پولیس اہلکاروں (سی پی او راولپنڈی سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد حیدر) کو 17 سال قید کا اعلان کیا، جنہیں بعد ازاں ضمانتیں مل گئیں۔اے ٹی سی کے جج نے اپنے 34 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں ذکر کیا کہ دو سینئر پولیس افسران نے بھٹو کی سکیورٹی ہٹا کر، اہم شواہد کو تباہ کر کے اور حملے کے چند گھنٹے بعد ہی کرائم سین کو دھونے کی اجازت دے کر ’ مجرمانہ غفلت‘ کا مظاہرہ کیا۔
بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بے نظیر کے قتل کے بعد عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کا فقدان بالآخر انسانی تاریخ کے سب سے بے رحمانہ واقعات میں سے ایک پر منتج ہوا، جب 16 دسمبر 2014ء کو ٹی ٹی پی کے 7 سات دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا، واقعے میں 150 طلباء اور عملے کے ارکان ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔
امریکی مصنف اور ریٹائرڈ ادبی نقاد مچیکوکاکوتانی نے 19 فروری 2008ء کو لکھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی نئی کتاب مفاہمت کی ایک جلد کو انہوں نے ان کی شہادت سے کچھ روز قبل مکمل کیا تھا ۔وہ جلد اسلام کے بارے میں ایک کھلے، تکثیری(کسی ایسے نظام سے متعلق یا اس کی وکالت جس میں دو یا دو سے زیادہ ریاستیں، گروہ، اصول، اختیارات کے ذرائع ایک ساتھ رہتے ہوں ) اور روادار مذہب کے طور پر اپنا نقطہ نظر پیش کرتی ہے جس میں محترمہ کا کہنا ہےکہ اسے انتہا پسندوں نے ہائی جیک کر لیا ہے، اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا عقیدہ تھاکہ اسلام اور مغرب کوتہذیبوں کے تصادم کے راستے پر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
بینظیر بھٹو نے اپنی کتاب میں یہ ثابت کرنے کے لیے قرآن پاک سے بڑے پیمانے پر حوالہ دیا ہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے، لیکن پوری مسلم تاریخ میں مٹھی بھر انتہا پسندوں کی جانب سے انتشار اور افراتفری پھیلانے کے لیے ان کے ساتھ زیادتی کی گئی۔محترمہ بینظیر بھٹو نے عسکریت پسند اسلام کے پس پردہ عوامل کا سراغ لگایا ہے اور اس کو فروغ دینے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے والی نوآبادیاتی اور نوآبادیاتی قوتوں کو بے نقاب کیا ہے۔ان خیالات نے ان قوتوں کو ناراض کیا ہوگا جو مسلم دنیا کو منقسم رکھنا چاہتی ہیں۔
بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کے ایک سرکردہ تفتیش کار ہیرالڈو منوز نے اپنی کتاب
’ ’گیٹنگ اوے ود مرڈر، بینظیر بھٹو کا قتل اور پاکستان کی سیاست ‘‘ میں شبہ ظاہر کیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے آزادانہ طور پر یہ حملہ کیا۔وہ ان کے قتل میں انٹیلی جنس کارندوں کے ملوث ہونے اور شواہد کو چھپانے کے بارے میں شکوک و شبہات کو رد نہیں کرتے۔ ہیرالڈو منوز نے خدشہ ظاہر کیا کہ حکومت کی صلاحیت اور قوت ارادی کی کمی کی وجہ سے قتل کا معاملہ حل طلب ہی رہے گا۔
تفتیش کار ہیرالڈو منوز نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بینظیر بھٹو کے قتل کیس کے معاملے میں یوں لگتا ہے کہ جیسے ایک گاؤں نے القاعدہ نے حکم پر انہیں قتل کیا۔پاکستانی طالبان نے اس حملے کو انجام دیا، جس کی ممکنہ طور پر حمایت یا کم از کم اسٹیبلشمنٹ کے عناصر نے حوصلہ افزائی کی۔مشرف حکومت نے اپنی لاپرواہی سے اس جرم کو آسان بنایا اور مقامی سینئر پولیس اہلکاروں نے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی، مرحومہ کی لیڈ سیکیورٹی ٹیم ان کی حفاظت میں ناکام رہی اور زیادہ تر پاکستانی سیاست دان ، اس کے قتل کے پیچھے قاتل کی تلاش میں ،اس کیس کی تحقیقات جاری رکھنے کے بجائے ماضی پر نظر دوڑائیں گے ۔
بے نظیر کے قتل کے بعد ڈاکٹر سچیت آنندم کے مطابق، سیاسی طور پر چیلنج کرنے والے پاکستانی لبرل جغرافیائی تزویراتی تناظر کو سمجھنے سے قطعی طور پر قاصر تھے جس میں بے نظیر پاکستان کے مفاد کے دفاع کے لیے کوشاں
تھیں ۔ چنانچہ انہوں نے الزام لگایا کہ پرویز مشرف نے امریکی دباؤ میں آکرنائن الیون کے بعد افغان طالبان کی حمایت واپس لے لی، جب کہ درحقیقت انہوں نے نے بش انتظامیہ کے لیے ’’پاکستان کو پتھر کے زمانے میں بھیجنے کا ایک بہانہ‘‘ تراش لیا ، جیسا کہ محکمہ خارجہ کے ایک سینئر اہلکار ک یجانب سے دھمکی موصول ہوچکی تھی ۔ ڈاکٹر سچی تھانندم
نے مزید کہا کہ یہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ بینظیر بھٹو نے نو نوآبادیاتی نظام کے ایجنڈے کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے مشرف کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ 2003ء کے آخر تک مشرف کی حکومت سے ان کا عدم اطمینان واضح ہو گیا تھا، جب انہوں نے عراق پر اینگلو،امریکی حملے کو سہارا دینے کے لیے پاکستانی فوجیوں کی مدد کرنے سے انکار کیا تھا۔
بینظیر بھٹو کے المناک شہادت کے 15 سال گزرنے کے بعد بھی ہمارا نظام ان کے اصل مجرموں کو سزا دینے اور ان کے قتل کے پس پردہ قوتوں کو بے نقاب کرنے میں ناکام نظر آرہا ہے۔بینظیر بھٹو اس نئی گریٹ گیم سے پوری طرح واقف تھیں جو وسطی اور مغربی ایشیا میں بڑھتے ہوئے روسی اور چینی اثرات کو روکنے اور مسلم ایٹمی ریاست کو معاشی طور پر دبانے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔اپنے قتل تک انہوں نے اس ایجنڈے کے خلاف مزاحمت کی۔ان کی وراثت کی پیروی سب کو ہی کرنی چاہیے، خواہ ان کی سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر، تمام عسکریت پسند تنظیموں اور گروہوں اور ہندوتوا نظریہ رکھنے والوں کے خلاف مزاحمت کے لیے آواز اٹھانی چاہیے ۔