غیر متزلزل استقلال
ترکی کے حکومتی اتحاد میں بھاری اکثریت رکھنے والے وزیر داخلہ نے استنبول دھماکے پر امریکی تعزیت قبول نہیں کی
مصنف IPRI میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔
ہم غم و غصے کی صورتحال کو دیکھ رہے ہیں ، میں بکھر گیا ہوں۔ ا ستنبول میں مقامی ٹی وی چینل ٹی آر ٹی کے ساتھ کام کرنے والے پاکستانی صحافی نوید بلوچ استنبول کی استقلال اسٹریٹ پر اتوار کے روز ہونے والے بم دھماکے کے بعد اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے رنجیدہ ہوگئے ، ان کے آس پاس پورا پنڈال پھولوں سے ڈھکا ہوا تھا ۔افسوس ناک واقعے پر دنیا بھر کے ممالک کے سربراہا ن کی جانب سے تعزیتی اور یکجہتی کے پیغامات آ رہے ہیں۔
اتنے بڑے واقعے کے بعد حکومتی اتحاد میں شامل بھاری اکثریت رکھنے والے ترکی کے وزیر داخلہ سلیمان سویلو نے امریکی سفیر کی جانب سے تعزیت کو قبول نہیں کیا، اور اس تعزیت کو جرائم کے مقام پر قاتل کی واپسی سے تشبیہ دے دی ۔ سوشل میڈ یاکے مقبول ترین پلیٹ فارم ٹوئٹر پر امریکی تعزیتی پیغام کے رد عمل میں ، متاثرہ ملک کے جوابی پیغام سے صاف ظاہر ہوتا ہےکہ وزیر داخلہ سلیمان سویلو نے امریکہ پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے ایک طرح سے طوفان کھڑا کردیا ۔
اگرچہ امریکہ اس سانحے کے بعد ترکی کے غصے کا واضح ہدف ہے۔ اس واقعے میں معروف ترک اداکار کی اہلیہ اور 15 سالہ بیٹی سمیت 6افراد جان سے چلے گئے تھے ۔تاہم دھماکے کے بعد سپر پاور کو ترکی کے غصے کا واحد ہدف نہیں کہا جا سکتا۔
وجہ بالکل واضح ہے۔حملہ ایک ایسی23 سالہ خاتون نے کیا جس کی شرٹ پر نیویارک یونیورسٹی کا نام درج تھا، اس نے تفتیش کے دوران اعتراف جرم بھی کرلیا اور اپنا تعلق کردستان ورکرز پارٹی سے بتایا۔اگر چہ یہ گروپ کردستان کی آزادی کے لیے سرگرم تھا، لیکن اس گروپ نے اس وقت اہمیت اختیار کی جب امریکی اور اتحادی افواج نے اسے شام میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا۔یہ فیصلہ سابق صدر اوباما کی طرف سے لیا گیا تھا، جنہوں نے شام کے ساتھ تمام رسمی تعلقات جو بھی توڑ لیے تھے۔اس لے بعد انہوں نے خلیجی ممالک اور ترکی کو بھی اسد حکومت سے تعلقات منقطع کرنے کی ترغیب دی تھی۔یہ وہی وقت تھا جب ، اوباما نے ڈینیل روبنسٹین کو شام کے لیے امریکی خصوصی ایلچی مقرر کیا جو کہ اب مصر میں امریکی ناظم الامور کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
ترکی نے بڑی بے تابی سے فرینڈز آف سیریا گروپ میں اس اُمید کے ساتھ شمولیت اختیار کی کہ اسے عراق اور شام میں کام کرنے والے کردوں کا مقابلہ کرنے کا ایک بہتر موقع ملے گا،جو زیادہ تر چین، فرانس، روس، برطانیہ، امریکہ، عراق وغیرہ جیسے عجیب و غریب بیڈ فیلو پر مشتمل ہے۔
کردوں کے لیے ترکی کی تشویش اس حقیقت سے کارفرما ہے کہ کرد ترکی کی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں اور اپنے لیے ایک علیحدہ ریاست کے لیے کوشش میں مصروف ہیں ، جو ان علاقوں سے کھدی ہوئی ہے جہاں ان کی آبادی ترکی، عراق، شام اور ایران میں مرکوز ہے۔تائیوان کے ساتھ فلسطین، کاتالونیا، اسکاٹ لینڈ، ٹرانسنیسٹریا وغیرہ کے ساتھ ساتھ عراق کا کردستان علاقہ، شمالی قبرص کا ترک علاقہ بھی علیحدہ اداروں کے طور پر تسلیم کرنے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہیں ۔
ترکی کی مخالفت کے باوجود، کرد علاقے کو کچھ طاقتور ممالک نے ایک علاقہ تسلیم کیا ہے جس کا پرچم ان کے خارجہ دفاتر پر لہرا رہا ہے۔1980 ء کی دہائی کے اوائل سے کرد علیحدگی پسند ترکی میں اپنے لیے علیحدہ ریاست کے حتمی مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان اس معاملے پر بہت واضح اور جرات مندانہ موقف رکھتے ہیں۔وہ علیحدگی کی تحریک کو دہشت گردی سمجھتے ہیں اور دنیا کو اپنا پیغام بلند اور واضح طور پر پہنچانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔گزشتہ سال اکتوبر میں، انہوں نے اپنی وزارت خارجہ کو لکھا کہ وہ 10 سفیروں کو پرسنل نان گراٹا قرار دیں کیونکہ انہوں نے کرد علیحدگی پسندوں کی مالی معاونت کے الزام میں قید ترک تاجر کی رہائی کے لیے ایک مشترکہ بیان پر دستخط کیے تھے۔ان سفیروں کا تعلق امریکہ، سویڈن، فرانس، جرمنی، ناروے وغیرہ جیسے طاقتور ممالک سے تھا۔صدارتی سطح پر خبردار کیے جانےکے بعد انہیں اپنا بیان واپس لینا پڑا، اس حقیقت کے باوجود کہ یورپی عدالت کی نظر میں تاجر دہشت گرد نہیں تھا۔ترک صدر نے مشترکہ بیان کو ’ناگوار ‘ قرار دےدیا۔کچھ ماہ بعد ان میں سے زیادہ تر ملازمین پاکستان میں ایک مشترکہ بیان پر دستخط کرنے والے بھی تھے جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک نادر اجلاس میں روس کی مذمت کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالتے تھے۔
اگر چہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے ارکان نے ان سفیروں سے کھلے عام بیزاری کا اظہار کیا لیکن وہ اس حد تک آگے نہیں بڑھے کہ انہیں ایک ناقابل قبول یا ناپسندیدہ شخص قرار دینے کی کارروائی شروع کی جا تی ۔
رجب طیب ایردوان نے سبکدوش ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی جھگڑا مول لے لیا تھا ۔ لہذا جب بعد میں شام اور عراق میں آئی ایس کے خلاف جنگ کا فیصلہ واپس لینے کا اعلان کیا تھا، تو وہاں کرد علیحدگی پسند امریکہ کے ساتھی کے طور پر سامنے آئے ۔
ایک موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ ترکی کو پابندیوں کی دھمکی دینے پر مجبور ہوگئے تاکہ وہ اپنی فضائیہ کو سرحدوں کے پار کرد اہداف کو گولہ باری سے روکے۔ادھر رجب طیب ایردوان کے لیے، یہ قومی سالمیت کا سوال بن چکا ہے ہے، جسے کرد علیحدگی پسندوں سے خطرہ محسوس ہورہا ہے۔حملے سے چند روز پہلے، ترکی نے سویڈن اور فن لینڈ کو نیٹو میں شامل کرنے کی مخالفت کی تھی کہ دونوں یورپی ممالک کو کچھ ایسے لوگوں کو واپس کرنے کی ضرورت ہے جنہیں ترکی دہشت گرد سمجھتا ہے، جن کا تعلق علیحدگی کی تحریک سے ہے۔نیٹو کا نیا رکن بننے کے لیے ضروری ہے کہ تمام 30 نیٹو اراکین متفقہ طور پر نامزدگی کو قبول کریں۔
اسی دوران ،رجب طیب ایردوان کے مخالفین نے خیال ظاہر کیا کہ وہ قوم پرستانہ بیان بازی اور عوامیت پسند بیانیے کی وجہ سے مقبول ہوتے جارہے ہیں ۔مخالفین نے رائے دی ہےکہ ان کا اتحاد آئندہ صدارتی انتخابات سے اپنے حریفوں کو باہر کرنے کے لیے دہشت گردانہ حملے کی سیاست کر رہا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں فتح کے بعد، ایردوان نے میڈیا پر ’دشمن ‘ کا ساتھ دینے کا الزام لگاتے ہوئے کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا۔اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ حملہ آور نے اتنی جلدی کرد ورکرز پارٹی سے اپنے روابط کا اعتراف کر لیا تھا۔
امریکہ اور یورپی ممالک ،کردوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں ، لیکن یہ ساری تنقید اور ہمدردی ایردوان کو عالمی منظر نامے پر ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرنے سے نہیں روکتی۔تمام بڑی عالمی طاقتوں نے یوکرین کے لیے روس سے معاہدہ کرنے کی پوری کوشش کی لیکن ناکام رہے۔یہ صرف رجب طیب ایردوان ہی تھے جو دونوں فریقوں کو میز پر لانے اور اس وقت ضرورت مندوں کو یوکرین سے لاکھوں ٹن غذائی اجناس کی ترسیل کا معاہدہ کرنے میں کامیاب رہے تھے ۔انہوں نے جی 20 سربراہی اجلاس میں امریکی اعلیٰ حکام کا ساتھ دیا لیکن سوشل میڈیا پر صرف یورپی اور عرب رہنماؤں کے ساتھ اپنی تصاویر اپ لوڈ کرائیں ۔
اسرائیل کے نو منتخب وزیراعظم نیتن یاہو نے استقلال اسٹریٹ حملے پر تعزیت کے لیے انہیں فون کیا ہے اور اس حملے نے ترک عوام کو دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے اکٹھا کیا ہے۔
ٹی آر ٹی کے ساتھ کام کرنے والے پاکستانی صحافی نوید بلوچ نے صحافی کو بتایا ہے کہ حملہ آوروں کی شناخت سیکیورٹی کیمروں کے ذریعے کی گئی ہے اور اب تک 50 کے قریب گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔تفتیش کار دہشت گردی کے نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پُرعزم دکھائی دے رہے ہیں ۔ پاکستانی صحافی نوید بلوچ نے مزید کہا کہ اگرچہ میں استقلال اسٹریٹ سے کچھ فاصلے پر رہتا ہوں، لیکن میں اور میرا خاندان اس جگہ اکثر آتے رہتے ہیں۔ یہ مقام سیاحوں کےلیے بہت کشش رکھتا ہے۔ لاکھوں لوگ اس جگہ سے گزرتے ہیں۔ یہ مقام ترکی کی سالمیت کی علامت بن چکا ہے۔






