لکیر کے فقیر پی ایچ ڈی
یورپی اور امریکی جامعات میں بھارت کے بعد پاکستان سے سب سے زیادہ پی ایچ ڈی کے خواہشمند افراد کی درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔ پاکستانی جامعات میں بھی پی ایچ ڈی پروگراموں کے لیے امیدواروں کی اتنی ہی زیادہ تعداد درخواست دیتی ہے۔ اس سے یہ خوش کُن تاثر اُبھرتا ہے کہ ملک اعلیٰ تعلیم کے اہداف کے حصول کی جانب تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
جب ہم مُلازمتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو کسی بھی پیشہ ورانہ ادارے میں ایک پی ایچ ڈی یافتہ فرد کی جانب سے اچھی کارکردگی نایاب ہی دکھائی دیتی ہے۔ کئی بار جب میڈیا اسٹڈیز کا پی ایچ ڈی اسکالر کسی اخبار میں نوکری کے انٹرویو کے لیے آتا ہے، تو وہ نہ ہی خبر کی نوک پلک سنوار سکتا ہے اور نہ ہی رپورٹنگ کر پاتا ہے۔ سماجی علوم کے دیگر شعبوں کی بھی یہی کہانی ہے۔
اس وقت پی ایچ ڈی یافتہ افراد کی تعداد 15 ہزار سے زائد ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ کہاں جائیں؟ جواب سادہ سا ہے کہ، وہ نظام کا حصہ بن جاتے ہیں اور پی ایچ ڈی کرنے کے خواہشمندوں کو پڑھانے اور ان کی رہنمائی کے لیے جامعات کی طرف سے اُن کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو شخص اخبار کی نوکری کے لیے اہل نہیں تھا، وہ یونیورسٹی میں میڈیا اسٹڈیز کے شعبے کا سربراہ بن جاتا ہے۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جامعات میں ایم ایس اور پی ایچ ڈی کی کلاسوں میں داخلے کے لیے ہونے والے زیادہ تر انٹرویوز میں درخواست دہندگان کہیں گے کہ وہ بے روزگار ہیں اور اپنی تعلیم جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ امیدواروں کی دوسری سب سے زیادہ تعداد جامعات یا شعبہ جات کے ملازمین کی ہوتی ہے جہاں انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ترقی کا موقع ملتا ہے۔
میری ملاقات مسلح افواج کے ایک ریٹائرڈ افسر سے ہوئی جو اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی کلاسوں کے اوقاتِ کار (ٹائم ٹیبل) کی جانچ کر رہے تھے۔ اگرچہ وہ دوسری یونیورسٹی میں کام کر رہے تھے، تاہم اُنہیں اُن پروفیسر کے کچھ مفادات پورے کرنے تھے جنہوں نے اُن کو داخلہ دیا، ورنہ نئے امیدواروں کی موجودگی میں اُنہیں کوئی موقع نہیں ملنا تھا۔
ڈاکٹر پرویز ہودبھائے کی یہ بات بالکل درست ہے کہ جامعات کے اکثر پروفیسر انگریزی یا اردو میں لیکچر دینے یا لکھنے سے قاصر ہیں کیونکہ جامعات میں ایسے افراد کی کوئی کمی نہیں ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اِس طرح کے پروفیسر کیسے تحقیقی مقالوں پر مقالے تیار کر رہے ہیں اور یہ مقالے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے تسلیم شدہ تحقیقی جرائد میں شائع بھی ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر مختار احمد کے بطور چیئرمین ایچ ای سی عہدہ سنبھالنے کے بعد بہت سے کم معیار کے جرائد کو تسلیم شدہ جرائد کی فہرست سے نکال دیا گیا۔ جب معاشرے کو ڈیجیٹائز کر دیا گیا ہے تو ایچ ای سی کو کسی پروفیسر کے شائع شدہ کام کی بنیاد پر اُس کی اسناد کا جائزہ لینے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر کسی ماہر تعلیم کو اعلیٰ جرائد میں اپنے کام کی تشہیر کے لیے کوئی اچھا مینیجر نہیں مل پاتا، تو کیا اُنہیں اپنے تیارکردہ مواد کی بنیاد پر جانچے جانے کا موقع نہیں ملنا چاہیے؟ اُن کی تحقیق کے معیار کو جانچنے کے لیے ایک معیار ہونا چاہیے، قطع نظر اس کے کہ یہ کہاں شائع ہوئی ہے۔ اس ڈیجیٹل دور میں، مواد کی وضاحت ناشر کے ذریعے نہیں ہونی چاہیے۔ یُوول نوح ہراری کے موجودہ دور کے تصور کی روشنی میں، علمی مواد کو پیٹنٹ اور اشاعت کے تکلفات سے آزاد کیا جانا چاہیے اور افادیت کی بنیاد پر اس کی جانچ کی جانی چاہیے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی پروفیسر اس قابل نہیں ہے کہ وہ جو کچھ پڑھاتا ہے اس پر عمل کر سکے، تو وہ پڑھانے کے لیے بھی موزوں نہیں ہے۔
کورونا کے وبائی مرض سے پہلے ہی معاشرے کی ڈیجیٹلائزیشن تیز رفتاری سے چل رہی تھی۔ طلباء اب آسانی سے مطالعاتی مواد آن لائن تلاش کر سکتے ہیں جس سے جامعہ میں درسی کتاب کے اساتذہ کے لیے کوئی جگہ نہیں بچے گی۔ ایک استاد کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ موضوع میں طلباء کی دلچسپی پیدا کر سکے۔ کلاس رومز میں کیمرے نصب کیے گئے ہیں جس سے طلباء کی اعلیٰ پروفیسروں کے لیکچروں تک رسائی آسان ہو گئی ہے۔ یونیورسٹی میں پڑھانے کی خاطر پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے والا اسکالر کبھی بھی اُس تبدیلی کا حصہ نہیں بن پائے گا جس کی پاکستانی معاشرے کو سخت ضرورت ہے۔
جامعات کو تعلیمی معیار پر ایک مؤقف اختیار کرنا ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ مسائل کے حل کے لیے ایچ ای سی کی طرف دیکھنا چھوڑ دیں۔ طلباء کے تئیں احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کے لیے محض ایچ ای سی کا دورہ ہی کافی ہے، بیوروکریسی اور اعلیٰ حکام کی وجہ سے ادارہ مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ وہاں کام کرنے والے زیادہ تر کلرکوں نے اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری میز پر بیٹھ کر اُن پروفیسروں کی خدمت کرکے حاصل کی ہے جو اُن کے استاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہزاروں ملازمین کے باوجود یہ اپنے مقصدِ تخلیق کی تکمیل کے لیے ایک شاندار ادارہ ہرگز نہیں ہے۔
یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ تمام جامعات کے وائس چانسلروں نے قائداعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شاہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ یہ وائس چانسلر اپنی جامعات کی حقیقی آواز ہیں اور اِن سے مؤثر کام لیا جانا چاہیے۔ چونکہ پی ایچ ڈی کو محض یونیورسٹی کی ملازمتوں میں ترقی کے حصول کا ایک ذریعہ بنا دیا گیا ہے، اس لیے یہ رہنمائی کرسکتے ہیں کہ پی ایچ ڈی کو مزید ثمر آور کیسے بنایا جائے۔ ملک جس پستی میں ہے، اِس سے نکالنے کے لیے پیشہ ورانہ اور تجربہ کار رہنما اصولوں کی ضرورت ہے۔ ملک کو ایسے پی ایچ ڈی افراد کی ضرورت ہے جو اپنے علم کو عملی جامہ پہنانے کے قابل ہوں۔
مُصنف نجی یونیورسٹی میں Mediatization کے اُستاد ہیں۔