ڈاکٹر ہما بقائی

21st Aug, 2022. 09:00 am

ماس ٹرانزٹ منصوبے کو اصولوں کے مطابق بنائیں

ملک میں معاشی بدحالی کے دور میں کراچی میں 10 ارب روپے مالیت کا ماس ٹرانزٹ سسٹم شروع کرنا ایک عوامیت پسند چال ہے۔ تقریباً تین کروڑ آبادی والے شہر کو ماس ٹرانزٹ سسٹم سے محروم کرنا صوبائی حکومت کی جانب سے کسی جرم سے کم نہیں۔

سندھ حکومت کے عوامی بس سروس کے اقدام کو اس پس منظر کے برعکس دیکھنے کی  ضرورت ہے۔ وزیر اطلاعات، ٹرانسپورٹ اور ماس ٹرانزٹ شرجیل انعام میمن نے اعلان کیا ہے کہ کراچی اور لاڑکانہ میں متعدد بسیں پہنچ چکی ہیں۔ ابتدائی طور پر اس سروس کا دو روٹس سے آغاز ہوا اور بعد میں شہر کے بیشتر حصوں میں سات سے زائد روٹس فعال کردیے گئے ہیں۔بسوں کی تعداد میں 250 اور اس سے زائد اضافہ کیا جائے گا۔

رپورٹس کے مطابق تمام 250 بسیں چین سے 6 ارب 50 کروڑ روپے میں منگوائی گئی ہیں،اور اس منصوبے کی تکمیل کے لیے مزید 4 ارب روپے درکار ہوں گے۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس بس سروس سے 3ہزار ملازمتوں کے مواقع فراہم ہوں گے، جس کا مطلب ایک بس میں 10 سے زائد افراد کام کریں گے۔لہٰذا یہ تناسب منصوبے کے آغاز کے لیے مناسب نہیں ہے۔اورظاہر ہوتا ہے کہ پروجیکٹ کو برقرار رکھنے کے لئے بہتر نہیں ہے۔

عوام کی جانب سے بھی ملا جلا ردعمل سامنے آرہا ہے۔ کچھ مسافر کنڈیکٹرز کے ساتھ کرایوں اور بس اسٹاپ کے مقام پر جھگڑتے ہیں، جبکہ دیگر اسے مسافروں کے لیے محفوظ سفر کے طور پر دیکھتے ہیں۔

چونکہ سروس اب بھی ابتدائی مرحلے کے ساتھ مسائل کا شکار ہے، چیزوں کی صحیح طریقے سے منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے. ایسے اوقات ہوتے ہیں جب فرش اور ٹرمینلز کوڑے کے ڈھیر سے اٹے ہوتے ہیں۔ مسافروں کی رہنمائی کا کوئی مناسب نظام بھی نہیں ہے کہ انہیں کہاں جانا ہے یا انہیں بس کا کتنا انتظار کرنا ہے۔

Advertisement

پیپلز بس سروس کے فیس بک اور ٹویٹر اکاؤنٹس پر سیاست کی گئی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی تعریف کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ ایسے پیجز کا تصور صارفین کو سہولت فراہم کرنا ہے نہ کہ سیاسی پروپیگنڈے میں ملوث ہونا۔ لاہور، ملتان اور راولپنڈی میں میٹرو بس کا آغاز ہوا تو بھی یہی کچھ دیکھنے میں آیا۔

کلاس میں تبادل خیال کے دوران ایک طالب علم نے پروفیسر سے پوچھا کہ بنگلہ دیش ترقی کی دوڑ میں پاکستان کو پیچھے چھوڑنے میں کیسے کامیاب ہوا؟ اس کا ایک جواب یہ تھا کہ بنگلہ دیش نے موٹر ویز اور میٹرو سروسز بنانے پر پیسہ ضائع نہیں کیا۔

اب جب کہ پیپلز بس سروس شروع کی گئی ہے، اس کی پائیداری کے بارے میں سوال بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر اس پر سندھ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے اندازے کے مطابق سٹاف زیادہ ہے تو اس کا حشر پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن سے بدتر ہوگا۔

ماضی میں جماعت اسلامی کے کراچی کے میئر نعمت اللہ خان ماس ٹرانزٹ سسٹم کے لیے 50 بسیں لے کر آئے تھے۔ وہ بسیں اب بھولی بسری داستان بن کر کہیں سڑ رہی ہیں، کیونکہ وہ پائیدار نہیں تھیں۔ان کے بعد ایم کیو ایم کے میئر مصطفیٰ کمال 70 سے زائد سی این جی بسیں لے کر آئے لیکن کوئی بھی اسے برقرار رکھنے کے قابل نہیں لہٰذا سب ختم ہوگئے۔ لیکن اب پیپلز پارٹی کے شرجیل میمن یہ سرخ بسیں لے کر آئے ہیں اور خدشہ ہے کہ ان کا بھی یہی حشر ہو سکتا ہے۔

عوامی بس سروس کو پنجاب کی میٹرو بس سروس سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے اس کے ٹریک کے ارد گرد مہنگی باڑ لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ دوم آٹو میٹک سسٹم ہونا چاہئے تاکہ لوگوں کے پاس کرائے کی ادائیگی کے لئے کارڈز ہوں۔ پیپلز بس سروس کے لیے ٹکٹنگ ایپ کو مزید فعال ہونے کی ضرورت ہے۔

قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی کے بانی چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر زمان ماس ٹرانزٹ اور روڈ سیفٹی کے لیے ایک میگا پروجیکٹ کی قیادت کر رہے ہیں۔

Advertisement

ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے بعد جرمن حکومت نے ماس ٹرانزٹ سسٹم پر سبسڈی دے دی ہے۔ڈاکٹر زمان نے بتایا کہ  ایک وہ وقت تھا جب آپ ٹرینوں میں آسانی سے سفر کر سکتے تھے۔ اب وہ ہمیشہ اوورلوڈ ہوتی ہیں اور اب آپ ان پرسوار ہونے کا ارادہ کرنے سے کچھ دیر پہلے ہی اپنے ٹکٹ منسوخ کروا سکتے ہیں۔ تاہم اس نے فضائی آلودگی کو کم کیا ہے اور لوگوں کو شاہانہ گاڑیاں خریدنے سے روکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں دنیا میں بڑٰ تعداد میں بسیں اور دیگر گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں۔ منطقی طور پر ہمارے یہاں ماس ٹرانزٹ کا مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن مسئلہ سیاسی بے ایمانی کی وجہ سے پیدا ہوا۔

سیاسی بے ایمانی ان بسوں کو ماس ٹرانزٹ سسٹم میں برقرار رکھنے کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ پیپلز بس سروس کے لیے کہیں سے بھی بسیں خریدنے کی کوئی وجہ نہیں تھی کیونکہ یہ بسیں ہمیشہ سرکاری دفاتر اور پرائیویٹ آپریٹرز کے پاس چلتی رہی ہیں۔ کراچی میں صرف یونیورسٹیز اور کالجز کے پاس سیکڑوں بسیں ہیں۔ اگر ان کو جمع کر دیا جائے تو وہ ان یونیورسٹیوں اور کالجوں سمیت پورے شہر کی ضروریات پوری کر سکتی ہیں۔

پروفیسر زمان نے مزید کہا کہ 500 میٹر کے فاصلے پر موجود ہر اسٹاپ پر ہر پانچ منٹ کے بعد ایک بس ہونا ضروری ہے۔ جہاں بسیں نہیں پہنچ سکتیں وہاں چھوٹی گاڑیاں لگائی جائیں۔ لیکن یہ کام حکومت کو کرنا ہے۔ اگر وہ اپنے دستیاب وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کے لیے ایندھن کی قیمتوں پر لیوی لگانے اور دیگر ٹیکس لگانے کا جواز ہو گا۔

لہذا، جب تک ہم اپنے دستیاب وسائل کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، ہم چھوٹے دائروں میں گھومتے رہیں گے۔ پیپلز بس سروس ایک اچھا اقدام ہے لیکن اربوں روپے کی لاگت سے اس کا بننا مناسب نہیں جب کہ ہم زیادہ خرچ کرنے کے بجائے آسانی سے اخراجات کم کر سکتے ہیں۔

Advertisement

Next OPED