ڈاکٹر ہما بقائی

16th Oct, 2022. 09:00 am

پاکستان کے سمندری مفادات کا تعاقب

’’بحریات (میری ٹائم) صرف ایک شعبہ ہی نہیں بلکہ ایک متوازی معیشت ہے جہاں معیشت کے مختلف شعبے باہم ہوتے ہیں۔‘‘

اکیسویں صدی میں “نیلگوں معیشت (بلُو اکانومی)” کا تصوّر تیزی سے مقبول ہوا ہے۔ یہ تصور سب سے پہلے گنٹر پاؤلی نے2010 ء میں دیا تھا جو The Blue Economy: 10 Years, 100 Innovations and 100 Million Jobs  کتاب کے مصنف تھے۔ ورلڈ بینک کے مطابق نیلگوں معیشت “سمندری ماحولیاتی نظام کی صحت کو برقرار رکھتے ہوئے معاشی ترقی، بہتر ذرائع معاش اور روزگار کے مواقع کے لیے سمندری وسائل کا پائیدار استعمال ہے۔” سمندروں کو اب انسانی ترقی، وسیلہء خوراک اور خلا کے محرک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ نیلگوں معیشت دنیا اور پاکستان کے لیے پائیدار ترقی کا مُستقبل ہے۔ یہ کمی سے کثرت تک ہمارا پائیدار راستہ ہے۔ اِس شعبے میں ہمارے بے روزگار نوجوانوں کے لیے ملازمتیں پیدا کرنے، سُست معاشی نمو کو متحرک کرنے، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے اور ہماری بڑھتی آبادی کے لیے غذائی کمی کو دور کرنے میں مدد دینے کی گنجائش موجود ہے۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر کے سمندر سالانہ 47 کھرب ڈالر مالیت کی ماحولیاتی خدمات فراہم کرتے ہیں اور کم از کم ایک ارب ملازمتوں کا ذریعہ ہیں۔ لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ پائیدار نیلگوں معیشت کے اعلیٰ سطحی پینل کی2021 ء کی رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ سمندری آب و ہوا اور فطری حل2030 ء تک سالانہ تقریباً چار ارب ٹن اور 2050ء تک گیارہ ارب ٹن سے زائد مُضرِ صحت (گرین ہاؤس) گیسوں کے اخراج کو کم کر سکتے ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق یہ دنیا بھر میں کوئلے سے چلنے والے تمام پلانٹ کو ایک سال کے لیے بند کرنے کے مُترادف ہے۔ دنیا کی ساحلی آبادی عالمی معیشت میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے جس کا تخمینہ ڈیڑھ کھرب ڈالر سالانہ ہے، اور2030 ء تک تقریباً تین کھرب ڈالر ہونے کی توقع ہے۔

پاکستان کی ایران، عمان اور بھارت کے ساتھ مشترکہ سمندری حدود ہیں جس میں  2لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر طویل ایک بہت بڑا خصوصی اقتصادی زون (EEZ) اور ایک برّاعظمی (کانٹینینٹل شیلف) کے باعث 50 ہزار مربع کلومیٹر کا اضافی ساحل شامل ہے۔ انتہائی شاندار ساحل اور وسیع سمندری حدود کے باوجود پاکستان ایک حقیقی سمندری قوم کے طور پر ترقی نہیں کر پایا۔ دنیا کی آبادی کا زیادہ تر حصہ ساحلوں کے گرد مرکوز ہے تاہم پاکستان میں زیادہ تر ساحلی پٹی بہت کم آباد ہے۔ لہٰذا یہاں جدید اقدامات کی ضرورت ہے۔

نیلگوں معیشت کے مؤثر انتظام سے عالمی معیشت  1اعشاریہ 5 کھرب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ عالمی سرمایہ کاری رجحانات کے مطابق عالمی ماحولیاتی سرمایہ کاری کا 35 فیصد حصہ شعبہء توانائی (پاور سیکٹر) میں، 29 فیصد حصہ ذرائع نقل و حمل (ٹرانسپورٹ) میں،  11فیصد حصہ آبی انفراسٹرکچر میں لگایا گیا ہے تاہم پاکستان کی ترقی شاندار نہیں ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو (BRI) پر توجہ مرکوز کرنے اور اس کا حصہ ہونے کے باوجود پاکستان میں نیلگوں معیشت (بلُو اکانومی) نے خاطر خواہ ترقی نہیں کی۔ یہ ایک غیر دریافت شدہ ذریعہ ہے جسے پالیسی سازوں کی مطلوبہ توجہ حاصل نہیں ہے۔

Advertisement

چین بھی اب بی آر آئی کی بجائے بحری شاہراہِ ریشم (میری ٹائم سلک روٹ) پر زیادہ توجہ دے رہا ہے۔ اس طرح مینگرووز کی حالت میں بہتری اور چین پاک اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) میں مذکور بندرگاہوں کی ماحول دوست ترقی اچھی طرح سمجھ آتی ہے (بلُو پارٹنرشپ)۔ نیلگوں معیشت کی اہمیت اس حقیقت سے ظاہر ہوتی ہے کہ آبی حیات کو پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) میں شامل کیا گیا ہے۔

نیلگوں معیشت کا پاکستان کی جی ڈی پی میں صفر اعشاریہ 45 فیصد حصہ تھا جو کہ 1 ارب ڈالر بنتے ہیں اور جی ڈی پی کا صفر اعشاریہ  2فیصد حصہ سمندری ماہی گیری سے حاصل ہوتا ہے جس کا زیادہ استحصال کیا جاتا ہے۔ 2020ء تک تقریباً 30 فیصد سمندری ماحولیات اور 44 فیصد ساحلی چٹانیں تباہ ہو چکی تھیں۔ تقریباً 95 فیصد سمندری حیات مائیکرو پلاسٹک پر مشتمل ہے۔ پاکستان کا سمندری شعبہ (میری ٹائم سیکٹر) انتظامی مسائل، ناقص ٹیکنالوجی، سمندری آلودگی اور مینگرووز کی تباہی سے دوچار ہے۔ مذکورہ بالا مسائل کی وجہ سے عالمی سطح پر پائیدار مثال کو پاکستان میں غیر پائیدار بنا دیا گیا ہے۔

اس شعبے میں ترقی کی بہت بڑی گنجائش موجود ہے، ساحلی اور سمندری سیاحت کے ذریعے سالانہ تقریباً 5 ارب ڈالر کمائے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کا ساحلی علاقہ 142 ساحلی ممالک میں  74ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں مینگرووز کا رقبہ دنیا کا چھٹا بڑا رقبہ ہے جس کی مالیت تقریباً 20 لاکھ ڈالر ہے۔ یہاں کچھ توجہ اور نظر ثانی کی ضرورت ہے تاہم یہ کافی نہیں۔ بحری ذرائع نقل و حمل (لائنر شپنگ کنیکٹیویٹی) انڈیکس میں پاکستان کی رینکنگ میں تقریباً  34اعشاریہ صفر 6 پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی وزارتِ بندرگاہ و جہاز رانی اُمور کا نام بدل کر وزارتِ بحری اُمور کر دیا گیا ہے۔

وزارتِ بحری اُمور کے جوائنٹ سیکرٹری کامران فاروق انصاری کا کہنا ہے کہ  18ویں ترمیم کے ذریعے بحری اُمور کو صوبوں تک پہنچایا گیا جس کی وجہ سے پالیسیوں اور اقدامات پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ اس طرح ملک کو ایک مربوط قومی بحری (نیشنل میری ٹائم) پالیسی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بحری تجارتی (مرکنٹائل میرین) پالیسیوں میں ترمیم کی ضرورت پر بھی زور دیا اور اس شعبے میں سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے مراعات اور ٹیکس میں چھوٹ دینے کی تجویز دی۔

پاکستان کے ساحلی ماحولیاتی نظام میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے حصول اور اسے ذخیرہ کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے، اس طرح یہ ساحل کم لاگتی ساحلی کاربن فراہم کرتے ہیں۔ تاہم ملکی جہاز رانی کی صلاحیت میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے جو 70ء کی دہائی میں 50 بحری جہازوں سے کم ہو کر2000ء کی دہائی میں درجن بھر رہ گئی ہے۔ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن (PNSC) کا قومی درآمداتی اور برآمداتی کارگو میں صرف 7 فیصد حصہ ہے، باقی آمدن غیر ملکی کمپنیاں لے جاتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو پاکستان کو سالانہ ڈیڑھ لاکھ ڈالر کی بچت ہو سکتی ہے۔ عالمی بینک کے 160 ممالک کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان لاجسٹک پرفارمنس انڈیکیٹرز (ایل پی آئی) کے لحاظ سے 122 ویں نمبر پر ہے جبکہ جرمنی پہلے اور بھارت 44 ویں نمبر پر ہے۔

پاکستان مرچنٹ میرین پالیسی 2001ء میں 2020ء تک تجارتی بحری بیڑے میں کارگو کا حصہ 5 فیصد سے بڑھا کر 40 فیصد کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا جبکہ جہاز کی سامان لے جانے کی صلاحیت کو 10 لاکھ ٹن تک بڑھایا تھا۔ نئے اہداف تو مقرر کیے گئے ہیں تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ کتنے اہداف پورے کیے گئے ہیں۔

Advertisement

پاکستان کی نیلگوں معیشت کے شعبے (بلیو اکانومی سیکٹر) کی کل مالیت 100 ارب ڈالر سے زیادہ ہے تاہم سالانہ آمدنی صرف 450 لاکھ ڈالر ہے۔ پاکستان نے2020 ء کو نیلگوں معیشت کا سال قرار دیا تھا اور ریاست کے 2025ء کے مقاصدِ بصیرت (ویژن گول) میں نیلگوں معیشت کو بھی شامل کیا ہے۔

پاکستان کی نیلگوں معیشت ملکی جغرافیائی اور اقتصادی رکاوٹوں کو دُور کرنے کے لیے مخصوص سمندری شعبوں کے ایک سلسلے کے ذریعے ترقی کا راستہ پیش کرتی ہے۔ پاکستان ایک کم متوسط آمدنی والا ملک ہے جس کی معیشت 3 فیصد سے بھی کم شرحِ نمو سے ترقی کر رہی ہے جبکہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس پاکستان کے لیے سالانہ 8 فیصد کی پائیدار ترقی کا امکان تجویز کرتا ہے۔

ہمیں سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بڑھانے، خصوصی بحری صنعتی زونز کی ترقی کے لیے پالیسی اصلاحات کی ضرورت ہے، ہمیں2050 ء تک ’’ماحول دوست بحری نقل و حمل (گرینر شپنگ)‘‘ کے تصوّر کے لیے بھی کام کرنا ہے۔ پاکستان میں تحقیق کے ذریعے پالیسیوں کو ترویج دینے کی خاطر تعلیم اور بحری تحقیق کے شعبے میں موجود خلا اور صنعتی تعلیمی روابط کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ نگرانی اور تشخیص کے طریقہ کار کے ساتھ ساتھ طویل مدتی اور مُستقل پالیسیوں کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ تمام شراکت داروں (اسٹیک ہولڈرز) کی جانب سے یقینی اور جامع شراکت بھی ضروری ہے۔

Advertisement

Next OPED