Advertisement

جنسی ہراسگی ، عورتیں ہی نہیں مرد بھی نشانہ!

  

بین الاقوامی جنسی ہراسگی سے متعلق آگاہی مہم می ٹو کا قصہ پرانا نہیں بلکہ ایک دو سال پہلے ہی شروع ہوا اور اس کو زیادہ نمایاں تب کیا گیا جب اکتوبر 2018 میں ہالی وڈ کے پروڈیوسر ہاروی وائنسٹن کی جانب سےدرجنوں خواتین اور اداکاروں کو کئی سال تک جنسی نشانہ بنائے جانے کی خبریں سامنے آئیں ۔

اس مہم کو دنیا بھر میں  خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔

 دوسری جانب می ٹو مہم پر پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر کے فنکاروں اور دیگر اہم شخصیات نے بھی بات کی ۔

Advertisement

 کسی نے کہا کہ جس جگہ بھی خواتین اور مرد اکٹھے ہوں گے وہاں پر ایسی واقعات ہوں گے اور یہ فطری بات ہے ۔

ہمارے  معاشرے میں جنسی ہراسگی کے واقعات مرد کے ساتھ پیش آئیں یا خواتین کے ساتھ، اس گھناؤنے فعل کے ثبوت مشکل سے ملتے ہیں، مرد ہو یا عورت،اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، جملے بازی کرکے ذہنی اذیت پہنچانا اور دست درازی اس سب کے شواہد اور ثبوتوں کا تو تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ 

خواتین کو جنسی ہراسگی سے محفوظ رکھنے کی اقوام متحدہ کی قرارداد پر دستخط کرنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔

سال 2010 میں پاکستان میں ملازمت پیشہ خواتین کو کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کا قانون منظور کیا گیا۔

قانون کے تحت باقاعدہ سزاؤں کا اعلان ہوا کہ اگر کوئی بھی شخص کسی ملازمت پیشہ خاتون کو ہراساں کرے گا تو آئینِ پاکستان کی دفعہ509کے تحت اسے تین سال قید اور پانچ لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جا سکتی ہیں ،بعد میں 2012ء میں ایک ترمیمی ایکٹ کے ذریعے ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والی طالبات اور پبلک مقامات پر سفر کرنے والی خواتین کو بھی اس ایکٹ کے تحت تحفظ فراہم کیا گیا۔

ایک بر طانوی نشریاتی ادارے کی حالیہ ریسرچ میں ایک غیرمتوقع بات سامنے آئی اور وہ یہ کہ عرب دنیا میں خواتین کی نسبت مردوں کی طرف سے یہ شکایت زیادہ سامنے آئی کہ انھیں زبانی اور جسمانی طور پر جنسی ہراس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

Advertisement

برطانوی نشریاتی ادارے کی عربی سروس نے دس عرب ممالک اور فلسطینی علاقوں میں ایک سروے کیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے دو ممالک، تیونس اور عراق، ایسے ملک ہیں جہاں زبانی اور جسمانی جنسی تشدد کی شکایات خواتین کی نسبت مرد زیادہ کرتے ہیں۔

تیونس میں مردوں اور خواتین کے درمیان فرق بہت کم تھا، یعنی مردوں میں صرف ایک فیصد زیادہ۔

 عراق میں یہ فرق خاصا زیادہ نظر آیا جہاں جائزے میں حصہ لینے والے مردوں میں سے 39 فیصد کا کہنا تھا کہ انھیں لوگوں سے زبان سے جنسی ہراس کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ایسی خواتین کا تناسب 33 فیصد تھا۔

اس کے علاوہ 20 فیصد عراقی مردوں کا کہنا تھا کہ انھیں جسمانی طور پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جبکہ خواتین میں سے یہ شکایت 17 فیصد نے کی۔

اس کے علاوہ گھریلو تشدد کے سلسلے میں بھی خواتین کی نسبت مردوں نے اپنے تجربات کا اظہار زیادہ کیا۔

عراق میں خواتین کے حقوق کی صورتحال جس قدر خراب ہے، اسے سامنے رکھا جائے تو جائزے کے یہ نتائج حیران کن ہیں۔

Advertisement

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ جنسی زیادتی ہوتی رہے گی کیونکہ اس کے روک تھام کے لیے کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے اور اس کے حل کے لیے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔

 جنسی زیادتی کے خاتمے کے لیے ہمیں بحیثیت مجموعی ردعمل (ری ایکٹیو) رویے سے زیادہ پیشگی حفاظتی (پرو ایکٹیو) رویہ اپنانا ہو گا، جس سے جنسی زیادتی کے جرائم کا خاطر خواہ خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
اختتام
مزید پڑھیں
آج کی بول نیوز
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار دوحہ پہنچ گئے
رحیم یار خان، دریائے سندھ میں اونچے درجے کا سیلاب، زمیندارہ بند ٹوٹنے سے دیہاتوں میں تباہی
حب کینال کا مرمتی کام مکمل، پانی کی فراہمی تاحال معطل
کراچی: شربت والے کے روپ میں جنسی درندے کے خلاف مزید مقدمات درج
معرکہ حق میں شکست کے بعد بھارت جنگی سازوسامان کے جعلی ماڈلز بنانے پر مجبور
پنجاب اسمبلی میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کی قرارداد جمع
Advertisement
Next Article
Exit mobile version