08th Jan, 2023. 09:00 am

تاخیر سے کیا گیا درست فیصلہ

حکومت کی جانب سے توانائی کے تحفظ کا منصوبہ ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب پاکستان کو بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔ یہ درست سمت میں ایک قدم ہے، حالانکہ یہ قدم بہت تاخیر سے اٹھایا گیا اور اس کے سلسلے میں مختلف اسٹیک ہولڈرز سے مناسب مشاورت بھی نہیں کی گئی۔ منصوبے میں تجویز کردہ اقدامات میں بالترتیب ساڑھے آٹھ اور رات 10 بجے بازاروں اور شادی ہالوں کو بند کرنا، حکومت کی بجلی کی کھپت میں 40 فیصد کمی، اور توانائی سے چلنے والی گاڑیوں اور آلات کا استعمال شامل ہے۔

ان اقدامات سے نہ صرف مہنگی درآمدی توانائی کی مصنوعات کے استعمال کو محدود کرنے میں مدد ملے گی جو قومی خزانے پر بوجھ بنی ہوئی ہیں بلکہ یہ اقدامات شہریوں کو صحت مند اور ماحول دوست پائیدار طرز زندگی کی طرف راغب بھی کریں گے۔ ہاں، پاکستان 2022 ء کے تباہ کن سیلاب کی وجوہات سے صرف نظر نہیں کر سکتا۔ یہ سیلاب گلوبل وارمنگ اور بڑے پیمانے پر ماحولیاتی انحطاط کا نتیجہ تھا۔ لہذا، ماحول کی حفاظت کو ہر اس منصوبے کا محور ہونا چاہیے جس کا مقصد رکازی ایندھن کے استعمال کو کم کرنا ہو۔ پھر بھی، ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے توانائی کے تحفظ کے منصوبے میں بہت سے معاملات پر کمی باقی رہ گئی ہے۔

ایک تو یہ کہ ملک میں جاری تیزرفتار سیاسی تقسیم کی وجہ سے یہ معاملہ موجودہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی فٹ بال بن گیا ہے۔ شہباز شریف کی اقلیتی حکومت کے پاس کسی بھی قسم کی اصلاحات کرنے کے لیے عوامی اعتماد اور جذبے کا فقدان ہے۔ آسان الفاظ میں، اس حکومت کو پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کا اعتماد حاصل نہیں۔ دوم، یہ اقدامات، اگرچہ اہم ہیں، اگر 6 ماہ پہلے گرمیوں کے دوران متعارف کرائے گئے ہوتے تو بہت زیادہ مؤثر ہوتے، جب ہماری توانائی کی کھپت اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ اب یہ اقدامات خام اور غیرمربوط نظر آتے ہیں۔ کم توانائی استعمال کرنے والے پنکھے، لائٹ بلب اور موٹر بائیکس اکیلے ڈوبتی معیشت کو نہیں بچا سکتے، خاص طور پر ان خدشات کے پس منظر میں کہ ’’نفع بخش‘‘ ٹھیکے کس کو دیے گئے ہیں، اور جب حکومت اپنی عمارتوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرے گی تو کون سے سیاسی ربط رکھنے والے کاروبار کو فائدہ ہوگا۔

تیسرے یہ کہ، ایک اہم پہلو جو بظاہر وفاقی کابینہ کی نگاہوں سے اوجھل رہا وہ طریقہ ہے کہ حکومت توانائی کے تحفظ کے ’منصفانہ‘ منصوبے پر عمل درآمد کرے گی۔ لوگوں کو کسی مراعات کی پیش کش کیے بغیر اس پر قائل کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ وہ توانائی کا زیادہ استعمال کرنے والی پرانی گاڑیوں اور آلات کو توانائی کی بچت کرنے والی نئی گاڑیوں اور آلات سے بدل دیں، بذات خود ایک مشکل کام ہوگا۔ چہارم یہ کہ پاکستان کی شدید سیاسی تقسیم نے پہلے ہی اس منصوبے پر عمل درآمد کو مشکوک بنا دیا ہے، اگر کچھ نہیں تو، منصوبے میں صراحت کردہ اقدامات کو لاگو کرنے سے پہلے ہی پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومتوں کی جانب سے ان پر عمل نہ کرنے کے اعلان سے توانائی کی بچت کے منصوبے کو شدید دھچکا پہنچ چکا ہے۔

چھٹے نمبر پر ، تشویش کی بات یہ ہے کہ سادگی کے اقدامات کا ہدف صرف عام پاکستانی ہیں، جو پہلے ہی بلند ترین مہنگائی اور معاشی سرگرمیوں میں سست روی کی وجہ سے شدید طور پر متاثر ہیں۔ لیکن طاقتور اشرافیہ اس بوجھ میں کچھ کمی کے لیے کیا قربانی دے رہی ہے؟ پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت کی قیمت پر حکمران اشرافیہ کا تفریحی طرز زندگی بلاتعطل جاری ہے۔ حکومت نے اس معاملے کے لیے اپنے اخراجات کو کم کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ کیا اس نے وزرا کو دیے گئے ایندھن کے کوٹے میں کمی کی ہے؟ کیا اس نے سیکیورٹی پروٹوکول کے حجم کو کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں وہ سفر کرتے ہیں؟ کیا شہباز شریف اپنی بڑی کابینہ کا حجم کم کر رہے ہیں؟ جی نہیں۔ حکومت کو سیاحتی اور مذہبی دونوں مقاصد کے لیے بین الاقوامی سفر کو کم کر دینا چاہیے تھا جو صرف دولت مند افراد ہی برداشت کر سکتے ہیں۔ اس سے ڈالر کی مانگ کو کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

Advertisement

پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کا ایک اہم عنصر اس کا توانائی کے شعبے میں مسلسل بڑھتا ہوا گردشی قرضہ ہے، جو اب 2اعشاریہ43 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان آگے کنواں پیچھے کھائی جیسی صورتحال سے دوچار ہے۔ اگرچہ آئی ایم ایف کے رکے ہوئے پروگرام کو دوبارہ شروع کرنا بہت ضروری ہے، لیکن یہ پروگرام ایندھن، بجلی اور گیس کی قیمتوں کو مزید غیر منظم سطح تک لے جائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت ان پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے اپنے توانائی کی تقسیم کے نظام کو بہتر بنائے، تقسیم اور ترسیلی نقصانات کو کنٹرول اور بجلی کی چوری کو کم کرے۔ اسے توانائی کی پیداوار کی متبادل اشکال پر بھی غور کرنا ہوگا اور درآمد شدہ تیل کے ذریعے توانائی پیدا کرنے پر اپنے موجودہ انحصار کو ختم کرنا ہوگا۔

یہ سنگین صورتحال جرات مندانہ اور عملی پالیسیوں کی متقاضی ہے، لیکن کیا ایک غیر مقبول حکومت جس کی کوئی ساکھ نہیں ہے اور وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، پاکستان کو طوفان سے نکال سکتی ہے؟ اس بات کے امکانات بہت کم ہیں۔

Advertisement
Advertisement

اگلا اداریہ