25th Dec, 2022. 09:00 am

دہشت کی نئی لہر

گزشتہ ماہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے حکومت کے ساتھ ایک نازک جنگ بندی ختم کرنے کے بعد خیبر پختونخواہ (کے پی) میں دہشت گردانہ حملوں کے سلسلے نے دہشت گردی کو شکست دینے کے حوالے سے پاکستان کے عزمِ مصمّم کی حقیقت عیاں کر دی۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کافی تیزی سے جاری ہے اور بنوں میں گزشتہ اتوار کے خوفناک واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ حراست میں لیے گئے تقریباً تین درجن دہشت گردوں نے جس انداز سے محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں پر قابو پا کر اُنہیں یرغمال بنایا، اِس سے کئی سوالات کھڑے ہو گئے کہ اِن “خطرناک افراد” کو کس طرح سے رکھا جا رہا تھا، نمٹا جا رہا تھا اور پوچھ گچھ کی جا رہی تھی۔ سی ٹی ڈی کے کام کی خامیوں اور کمزوریوں پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ تاہم پاک فوج کے جوانوں نے دہشت گردوں کے خلاف تیز اور مؤثر کریک ڈاؤن کرکے سی ٹی ڈی کا 48 گھنٹے طویل محاصرہ ختم کر دیا۔ اِن دہشت گردوں میں سے 25 ہلاک اور باقی 10 کو گرفتار کر لیا گیا۔ تین سکیورٹی اہلکار بھی شہید ہوئے۔

انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل احمد شریف نے کہا کہ یہ آپریشن دہشت گردوں کی جانب سے ہتھیار ڈالنے سے انکار اور افغانستان کے لیے محفوظ راستے کے مطالبے پر اصرار کے بعد شروع کیا گیا۔ اگرچہ یہ اچھی خبر ہے کہ زیادہ تر یرغمالیوں کو بغیر نقصان پہنچے رہا کرالیا گیا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ واقعہ اس سیاسی اور معاشی آزمائش کے دور میں پاکستان کے بدقسمت شہریوں کے لیے بعید از امکان تھا۔ کامیاب فوجی آپریشنز کے بعد جن میں ضربِ عضب اور ردالفساد شامل ہیں، ملک دوبارہ انہی حالات کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

اِن دونوں فوجی آپریشنز کے نتیجے میں پاکستان میں حملوں کی تعداد 150 سے کم ہو کر اوسطاً ماہانہ 15 ہو گئی تھی جن میں ملک کے سکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ تاہم 2019ء میں دہشت گردی کے حملوں میں تیزی آنا شروع ہوئی۔ اور گزشتہ ایک سال میں ملک میں ہونے والے حملوں کی تعداد میں کم از کم 30 فیصد اور ہلاکتوں میں 35 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کا ایک خطرناک الٹ ہے۔ مگر بہت سے ماہرین کے لیے یہ ملک کے مسلسل سیاسی عدم استحکام کا متوقع نتیجہ تھا۔ افغانستان کی سرحد سے متصل صوبے خیبر پختونخواہ کے بہت سے دور دراز علاقوں میں مقامی آبادی بارہا مُتنبہ کرتی رہی ہے کیونکہ اسلحہ بردار عسکریت پسندوں کی واپسی ہو گئی ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے احتجاج کرکے اور عسکریت پسندوں کی تصاویر اور وڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کرکے قومی قیادت اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش بھی کی۔ لیکن ان آوازوں کو نظرانداز کر دیا گیا، ان کا گلا گھونٹ دیا گیا اور اس بہانے سے مُسترد کر دیا گیا کہ کچھ شرپسند غیر ضروری طور پر خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں۔ قبائلی پٹی کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخواہ کے آباد علاقوں میں عسکریت پسندوں کی بڑی تعداد میں موجودگی کے دعووں کی مسلسل تردید کی گئی۔ اگست میں سوات میں کئی آنکھیں کھول دینے والے واقعات کے باوجود محض “سوات اور دیر کے درمیان چند پہاڑی چوٹیوں پر مسلح افراد کی ایک قلیل تعداد” کی موجودگی کو ایک لطیف قبولیت ملی۔

سوات میں حملوں کے خلاف ہزاروں افراد کے احتجاجی مارچ کے بعد ہی وزیر دفاع نے غیر ملکی میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس مسئلے کا اعتراف کیا، اور خیبر پختونخواہ حکومت نے بھی اس پر زبانی بیانات دیے کشائی کی، اگرچہ اس نے دہشت گردی پر مرکز کو ہی “ناکامی” کا ذمے دار ٹھہرایا۔

Advertisement

اتنے لمبے عرصے تک حالات خراب کیوں تھے؟ یہ قابلِ ذکر ہے کہ عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان افغان طالبان کے کہنے پر ٹی ٹی پی سے نام نہاد “امن مذاکرات” میں شامل تھا۔ لیکن چونکہ یہ خفیہ مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچنے میں ناکام رہے، ان کے دائرہ کار اور بنیاد کے بارے میں اسمبلیوں سمیت قومی یا صوبائی سطح پر کوئی بحث نہیں ہوئی۔

فیصلہ سازوں کو ان کوتاہیوں اور ناکامیوں کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو عسکریت پسندوں کی واپسی کا باعث بنی ہیں۔ پہلی اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سابقہ فاٹا خطے میں سیاسی اور انتظامی اصلاحات کا عمل شروع کرنے میں حکومت کی نااہلی شامل ہے جب اسے ایسا کرنے کا موقع ملا تھا۔ فنڈز، وقت اور توانائی بلدیاتی انتخابات کے انعقاد اور اداروں کو ترقی دینے میں صرف کی جانی چاہیے تھی، لیکن اس کے بجائے قیمتی وسائل متعصب سیاسی مفادات کی قربان گاہ پر ضائع کیے گئے۔ بنوں واقعے پر موجودہ سیاست بھی بدقسمتی کی بات ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں عسکریت پسندی کو لگام دینے میں ناکامی کا الزام ایک دوسرے پر عائد کر رہی ہیں۔ اگرچہ خود پر تنقید اور کمزوریوں کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے، عوامی سطح پر کیچڑ اچھالنا اچھا نہیں ہے۔

پاکستان کے لیے اس جنگ کو جیتنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اس کے تمام ادارے متحد ہوں اور وسیع تر اتفاق رائے پیدا کریں کہ عسکریت پسندوں کو چین اور محفوظ راستے فراہم کرنے کے دن ختم ہو چکے ہیں۔

Advertisement
Advertisement

اگلا اداریہ