29th Jan, 2023. 09:00 am

ضروریات، تعیّشات سے زیادہ اہم ہیں ۔۔۔

حالیہ خبروں کے مطابق حکومت نے رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران 1.2 ارب ڈالر کی کاریں درآمد کرنے کی اجازت دی۔ اِس عرصے کے دوران تقریباً 2 ہزار لگژری کاریں جن میں نئی اور استعمال شدہ کاروں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجے کی الیکٹرک کاریں بھی شامل ہیں، درآمد کی گئی ہیں۔ یہ انکشاف ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب نقدی کی کمی کا شکار پاکستان اپنے غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر کو حتیٰ کہ اشیائے ضروریہ اور صنعتی اشیاء کی درآمدات کو محدود کرنے کی قیمت پر بچانے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ اِن مہینوں کے دوران پاکستان کو 164 لگژری الیکٹرک کاروں کی درآمد سے صرف ایک فائدہ ہوا کہ اِس نے ٹیکس ڈیوٹی کی مد میں 2 ارب روپے کمائے۔ تاہم ملک نے اِن گاڑیوں کی خریداری اور ان کی ترسیل کے اخراجات پر زیادہ رقم خرچ کی۔ اِس کا حساب کتاب لگانا کتنا مشکل ہوگا؟ گویا طبقاتی تقسیم بذات خود بڑا المیہ نہیں تھا، حکومت کا صرف امراء کے استعمال کی ایک شے پر اتنی بھاری بھرکم رقم خرچ کرنے کا فیصلہ ایک اضافی توہین ہے۔

ابھی تک لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) نہ کھولنے کی وجہ سے بندرگاہوں پر پھنسے ضروری اشیاء لے جانے والے کنٹینرز کی کل تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔ بحری دستاویزات کی منظوری میں تاخیر نے درآمد کنندگان کی پریشانیوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ اِن کنٹینرز میں سڑنے والی کچھ اہم اشیاء خوراک جیسے دالیں، گھی، تیل اور منجمد کھانے کی اشیاء شامل ہیں۔ تیار شدہ ادویات، ادویات ساز کمپنیوں اور دیگر مینوفیکچرنگ صنعتوں کو درکار خام مال کی درآمدات کو بھی کلیئر کیا جانا ابھی بھی باقی ہے، جبکہ توانائی اور زراعت دونوں شعبوں کو چلانے کے لیے ضروری آلات اور مشینری کی درآمدات بھی متاثر ہوئی ہیں۔ دریں اثناء درآمد کنندگان مجموعی زرِ تلافی (ڈیمریج چارجز) پر رو رہے ہیں جو اب درآمدی سامان کی اصل قیمت سے زیادہ ہو چکے ہیں۔

موجودہ بحران کو سر اُٹھانے میں آٹھ مہینے لگے جب حکومت نے اپنے “ہنگامی اقتصادی منصوبے” کے تحت غیر ضروری تعیّشات پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا۔ حکومت نے اُس وقت دلیل دی تھی کہ یہ پابندی ڈالر کے اخراج کو روکنے اور پاکستانی برآمدات کو تقویت دینے کے لیے ہے۔ لیکن جیسا کہ ہماری تمام حکومتوں کے نیک نیتی پر مبنی عظیم اقدامات کے ساتھ ہمیشہ ہوتا آیا ہے، کوئی اسکیم یا حکمتِ عملی فراہم نہیں کی گئی۔ کسی بھی شراکت دار کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ نتیجتاً پیدا ہونے والی خرابی کے باعث حکومت نے اس پابندی کو منسوخ کر دیا اور اس کی بجائے کچھ تعیّشات پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھا دی گئی، اس میں سرِفہرست کاریں ہیں۔ تاہم نقصان ہو چکا تھا اور ہر سطح پر بدانتظامی کسی کمی کے بغیر جاری تھی۔

حکومت کی سراسر نااہلی کے باعث اب کئی کمپنیوں نے صنعتی پلانٹس بند کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے بڑھتی بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہو گیا ہے۔ مینوفیکچرنگ پلانٹس بند ہونے کے بعد پاکستان کو اپنی مستقبل کی اقتصادی سلامتی کے لیے جن برآمدات کی بہت زیادہ ضرورت تھی، وہ بھی تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔ ملک چند ہفتے قبل گندم کے شدید بحران کی لپیٹ میں تھا اور اب اسے رمضان المبارک کی آمد میں صرف دو مہینے رہ جانے پر گھی اور تیل کی قلت کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا ہے۔ دوسری جانب خیبرپختونخوا ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن نے زیادہ زرِ تلافی اور کنٹینر ڈیٹینشن چارجز کی شکایت کی ہے۔ اسپننگ مل مالکان کو ٹیکسٹائل کنسائنمنٹس کی کلیئرنس میں تاخیر کے باعث اپنی ملوں کو چلانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

بہت سے لوگوں نے تباہی کو آتے دیکھا اور حکومت کو اس بارے میں خبردار بھی کیا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ابھی بھی کابینہ اراکین کا پورا جھُنڈ بحران سے سے بے خبر ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان بالآخر گہری نیند سے جاگا اور ایک سرکلر جاری کیا جس میں 18 جنوری یا اس سے پہلے آنے والے درآمدی سامان کے لیے پیشگی منظوری لینے کی شرط ختم کردی گئی، ایک اقدام جس کا مقصد بندرگاہوں پر پھنسے صنعتی خام مال اور دیگر ضروری اشیاء سے لدے کنٹینرز کو کلیئر کرنا ہے۔ بینکوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ درآمد کنندگان کو یک وقتی سہولت فراہم کریں جو یا تو اپنی شرائطِ ادائیگی کو 180 دن یا اس سے زیادہ تک مؤخر کر سکتے ہوں یا اپنی زیر التواء درآمدی ادائیگیوں کے لیے بیرون ملک سے فنڈز کا بندوبست کر سکتے ہوں۔ یہ سہولت 31 مارچ تک کے لیے ہے۔

Advertisement

یہ ایک خوش آئند قدم ہے اور ایک حد تک کاروباری برادری کی شکایات بھی دور کرے گا۔ تاہم حکومت کو تجارتی اُمور سہولت سے چلانے کے لیے ایک پائیدار طویل مدتی منصوبہ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ مُنقسم سیاسی ماحول میں حکومت کو اپنے لیے جس آخری بات پر توجہ دینی چاہیے وہ یہ ہے کہ عوام اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے حوالے سے بھی کشمکش کا شکار ہیں۔

Advertisement
Advertisement

اگلا اداریہ