01st Jan, 2023. 09:00 am

پاکستانی معیشت ۔۔ ایک تاریک نقطہء نظر

2022ء کے تجربات ایک بار پھر اِس ضرورت کو سامنے لاتے ہیں کہ غیر ملکی زرمبادلہ کی کمائی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی معمولی آمد کی ملکی ساختہ کمزوریوں کو دور کیا جائے۔

اگلے ہفتے کے 1 ارب ڈالر کے قرض کی ادائیگی سے قبل 23 دسمبر 2022ء تک سرکاری ذخائر مزید کم ہو کر 5 اعشاریہ 8 ارب ڈالر رہ گئے تھے۔ اگر فوری طور پر نقد ڈالر کا بندوبست نہ کیا گیا تو یہ ذخائر 5 ارب ڈالر سے بھی نیچے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کے پہلے سے ہی مشکلات کا شکار میکرو اکنامک منظر نامے کو سیلاب سے ہونے والی تباہی سے ایک بڑا دھچکا لگا ہے جس سے لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ ملکی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے ابتدائی نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ لگایا ہے۔

اس کے نتیجے میں مالی سال 2023ء کی دوسری ششماہی کے لیے مرکزی بینک کی طرف سے نیچے کی طرف نظرثانی کی گئی، اب جی ڈی پی کی شرح نمو 3 سے 4 فیصد کے گزشتہ تخمینے سے 2 فیصد کے قریب متوقع ہے۔ 2022ء کی پہلی ششماہی پر اثرانداز ہونے والے میکرو اکنامک فیصلوں کے گرد بھڑک اٹھنے والی سیاسی کشیدگی اور غیر یقینی صورتحال 2022ء کے دوسرے نصف تک بڑی حد تک کم ہو گئی۔

تاہم توانائی اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگیاں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کا باعث بنیں۔ روپیہ مسلسل دباؤ میں رہا اور 30 فیصد سے زیادہ گر گیا۔ متضاد مالیاتی پالیسیاں اور فراہمی کا دباؤ (سپلائی سائیڈ پریشر) جو مقامی اور بین الاقوامی دونوں محاذوں پر برقرار رہنے کی توقع ہے، مالی سال 2023ء میں حقیقی معیشت میں کم ترقّی کی پیش گوئی بھی کرتے ہیں۔

حکومت بقیہ مالی سال کے دوران مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کے 4 اعشاریہ 9 فیصد تک لانے کا ہدف رکھتی ہے جو مالی سال 2022ء میں 7 اعشاریہ 9 فیصد تھا۔ یہ نتیجہ آمدن اور اخراجات کے اقدامات کے امتزاج سے حاصل کیا جائے گا۔ یہ کہنا محفوظ ہے کہ مالی سال 2023ء  نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی وصولی کے لحاظ سے ایک اچھی شروعات کی ہے جو مالی سال 2023ء  کے لیے اپنے پانچ ماہ (جولائی تا نومبر) کے ہدف سے زیادہ ہے۔ تاہم یہ دیکھتے ہوئے کہ بحالی کی کوششوں کے سلسلے میں اخراجات کے محاذ پر ممکنہ طور پر کمی ہوگی، آئی ایم ایف مالیاتی اور بنیادی خسارے کو منظورشدہ سطحوں کے اندر رکھنے کے لیے زیادہ وصولی پر اصرار کر رہا ہے۔

Advertisement

اس وقت حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان 1 ارب ڈالر کی اگلی قسط تعطل کا شکار ہے، آئی ایم ایف اور مقامی حکام مقداری اہداف پر متفق نہیں ہیں۔ زیادہ ٹیکس وصولی کے باوجود مالی سال 23 کی دوسری ششماہی کے دوران انتخابات اور سیلاب کے امدادی اخراجات کے سبب زیادہ قرضوں کی فراہمی اور تجارت میں ممکنہ کمی کی وجہ سے مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 6 اعشاریہ 5 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔

آئی ایم ایف حکومت پر اخراجات کو کم کرنے، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے اور اضافی ٹیکس لگانے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ تاہم جہاں وزیر خزانہ اسحاق ڈار ایسے فیصلوں کے سیاسی نتائج سے بچنے کے لیے اِس دباؤ کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں، تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیر خزانہ کے پاس زیادہ آپشن نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اسحاق ڈار معیشت کو ٹھیک کرنے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے اپنے دعووں پر پورا اُترنے میں بھی اب تک ناکام رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی نویں قسط پر اُن کا داؤ اور اس کے بعد آنے والی آمد، مارکیٹ میں زیادہ اعتماد پیدا نہیں کرتے۔

2022ء کے تجربات ایک بار پھر اِس ضرورت کو سامنے لاتے ہیں کہ غیر ملکی زرمبادلہ کی کمائی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی معمولی آمد کی ملکی ساختہ کمزوریوں کو دور کیا جائے۔ توانائی کی کارکردگی اور تحفظ کو یقینی بنا کر معیشت کی توانائی کی شدت کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی مقامی مینوفیکچرنگ بیس کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک مربوط نقطہء نظر کی ضرورت ہے۔ مزید برآں موسمیاتی تبدیلی اور غذائی تحفظ کی صورتحال سے متعلق بڑھتے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک اچھی حکمتِ عملی وضع کرنے کی فوری ضرورت ہے۔

بیجوں کی نئی اقسام کی پیداوار کو ترجیح دی جانی چاہیے جو مختلف موسمی حالات کے لیے موزوں ہوں اور ایک ایسا دائرہ کار وضع کیا جانا چاہیے جو زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے پانی کے انتظام کی حکمتِ عملیوں پر زور دیتا ہو۔ ہمارے صنعتی شعبے کو بھی ایک اعلیٰ ٹیکنالوجی کے حامل شعبے میں تبدیل ہونا چاہیے۔ تاہم یہ سب دیرپا مدت کے لیے مادی اور انسانی وسائل کی سرمایہ کاری میں بڑے پیمانے پر اضافے کی ضرورت کا متقاضی ہے۔

سال کے اختتام کے ساتھ ہی پاکستان کا معاشی نقطہء نظر بھیانک دکھائی دیتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ (خدانخواستہ) اِس ملک کا انجام بھی اپنے علاقائی پڑوسی سری لنکا جیسا ہو سکتا ہے جو قرض ادا کرنے سے قاصر، غیر ملکی ذخائر کی کمی اور ناقابلِ برداشت، آسمان چھوتی مہنگائی سے دوچار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت واضح طور پر متعدد اقتصادی چیلنجوں کا سامنا کرنے کی پابند ہے۔ موجودہ صورت حال میں کسی بھی طرح کی ہچکچاہٹ کے بغیر اب وقت آگیا ہے کہ عوام خود کو سال 2022ء، جو اُنہوں نے ابھی برداشت کیا تھا، سے مشکل تر سال کے لیے تیار کرلیں۔

Advertisement
Advertisement

اگلا اداریہ