26th Feb, 2023. 09:00 am

بارکھان قتل

بلوچستان ایک بار پھر سرخیوں میں ہے اور بغیر کسی معقول وجہ کے، جیسا کہ زیادہ تر ہوتا ہے، صوبے سے وقتاً فوقتاً دماغ کو ہلا دینے والے سانحات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ ملک کا باقی حصہ دیکھ رہا ہے کہ بلوچستان کے لوگ اس جہنم کی آگ میں جل رہے ہیں جو اُن کا صوبہ بن چکا ہے اور ریاست اس صوبے کے ساتھ ہونے والی ہر غلط چیز کی جڑ کا پتا لگانے سے انکاری ہے۔ بلوچستان سے سامنے آنے والا تازہ ترین سانحہ بارکھان مبینہ طور پر صوبائی وزیر سردار عبدالرحمٰن کھیتران کی رہائش گاہ کے قریب واقع کنویں سے ایک خاتون اور دو لڑکوں کی نامعلوم مسخ شدہ اور گولیوں سے چھلنی لاشوں کی برآمدگی ہے۔ متاثرین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں بے دردی سے قتل کرنے سے قبل بلوچستان کے وزیر مواصلات کی نجی جیل میں رکھا گیا تھا۔ خاتون کا چہرہ مبینہ طور پر تیزاب سے جھلس چکا ہے اس لیے شناخت نہیں کی جا سکتی۔

جب مقتولین کی شناخت کا مسئلہ باقی ہے، مری قبیلے کے افراد نے کوئٹہ کے ریڈ زون کے باہر لاشوں کے ہمراہ دھرنا شروع کر دیا ہے۔ خان محمد مری نامی شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ لاشیں اس کی اہلیہ 40 سالہ گراناز اور اس کے دو بیٹوں 22 سالہ محمد انور اور 15 سالہ عبدالقادر کی ہیں۔ اس نے دعویٰ کیا کہ اس کی بیوی، بیٹے اور اس کے مزید پانچ بچے جن میں ایک نابالغ بیٹی بھی شامل ہے، گزشتہ چار برسوں سے کھیتران کی نجی جیل میں قید ہیں۔ خان محمد مری نے کہا کہ اس کے باقی پانچ بچے ابھی تک وہیں ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ شخص کھیتران خاندان میں نجی محافظ کے طور پر کام کرتا تھا اور اُس کے بیٹے کے خلاف گواہی دینے سے انکار پر اپنے ‘آقا’ کی نظروں سے گر گیا۔ یہ معاملہ لاشیں ملنے سے چند روز قبل سامنے آیا تھا جب گراناز کی انصاف کی درخواست کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔

ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں عبدالرحمٰن کھیتران کی گرفتاری ہوئی جسے اب 10 دن کے لیے پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ تاہم پاکستان میں سرداروں اور جاگیرداروں کو حاصل استثنیٰ اور تحفظ کے پیش نظر معاملہ شاید ہی آگے بڑھ سکے۔ ناظم جوکھیو یاد ہے؟ جو کچھ ہونے والا ہے اس کے آثار اس حقیقت سے عیاں ہیں کہ بارکھان کیس میں درج ایف آئی آر میں عبدالرحمٰن کھیتران کی بجائے ’’نامعلوم‘‘ افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔ یہ اہم خامی عام طور پر طاقتوروں کے لیے انصاف سے بچنے کے ایک ذریعے کے طور پر کام کرتی ہے۔ جو بات کسی کی امیدوں کو مزید ختم کر دیتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب صوبائی وزیر پر نجی جیل چلانے کا الزام لگایا گیا ہو۔ گزشتہ الزامات صرف 2014ء کے ہیں جب قانون نافذ کرنے والوں نے اس کے گھر پر چھاپا مارا تھا جب اس نے مبینہ طور پر پولیس افسران پر تشدد بھی کیا تھا۔ یہ حقیقت کہ ایسے جرائم میں ملوث افراد اب بھی پارلیمان میں منتخب ہونے میں کامیاب ہوتے ہیں، یہ ہمارے نظام انصاف کے ساتھ ساتھ ہمارے اجتماعی ضمیر کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اب بھی وزیر نے تمام الزامات کی تردید کی ہے اور اس واقعے کو “اپنی سیاسی ساکھ کو داغدار کرنے” کی کوشش قرار دیا ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں ہوگی اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے خان محمد مری کی بجائے عبدالرحمٰن کھیتران کی حمایت میں آجائیں۔

مسئلہ کہاں ہے؟ مسئلہ نیٹ ورک اور حمایت کا ہے جس سے طاقت حاصل ہوتی ہے۔ ریاستی نظام اکثر اس طاقت کو جواز اور تحفظ فراہم کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کس کو اور کیوں گرفتار کرتے ہیں۔ قانون بنانے والے بھی جانتے ہیں کہ ان کے درمیان کون اور کیوں بیٹھا ہے۔ پارلیمانی جماعتیں بھی بخوبی جانتی ہیں کہ ان کے ارکان کون ہیں اور انہیں انتخابی ٹکٹ کیوں جاری کیے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود ہر ادارہ اور اس کے انفرادی ارکان اشرافیہ کو چیلنج کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس طرح صرف ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہی ان کے مطابق ہے۔ پاکستان میں اکثر جرم کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نہیں نمٹا جاتا بلکہ اُن سے جو لاقانونیت کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ بلوچ سردار ہوں، خیبرپختونخوا کے قبائلی سردار ہوں، سندھ کے جاگیردار ہوں یا پنجاب کے طاقتور کاروباری مالکان، جب قانون کی بات آتی ہے تو سب ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں۔

پاکستان تبھی ترقی کر سکتا ہے جب حکمراں اشرافیہ نوآبادیاتی دور سے متاثر ہونا چھوڑ دے اور اکیسویں صدی میں جینے کی ہمت کرے۔ تبدیلی کو نیچے سے نہیں اوپر سے نیچے آنے کی ضرورت ہوگی۔

Advertisement
Advertisement

اگلا اداریہ