
امریکی گلوکارہ، اداکارہ، ڈانسر و پروڈیوسر’سرپرستی‘ کا نظام ختم کرکے انہیں ان کی زندگی پر اختیاردینے کی استدعا کر دی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق39 سالہ برٹنی اسپیئرز نے امریکی عدالت میں 13 سال میں پہلی مرتبہ زبانی بیان دیتے ہوئے عدالت سے استدعا کی ہے کہ ان کی ’سرپرستی‘ کا نظام ختم کرکے انہیں ان کی زندگی پر اختیار دیا جائے۔
برٹنی اسپیئرز کے والد جیمی اسپیئرز 2008 سے اداکارہ کےقانونی طور پر ’سرپرست‘ ہیں اور اداکارہ گزشتہ دو سال سے والد کی مذکورہ حیثیت ختم کروانے کے لیے کوشاں ہیں۔
برٹنی اسپیئرز کے والد کو امریکی عدالت نے 2008 میں اس وقت گلوکارہ کا ’سرپرست‘ مقرر کیا تھا جب کہ اداکارہ کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی۔
گزشتہ 13 سال سے والد ہی اداکارہ کے تمام معاملات دیکھ رہے ہیں اور برٹنی اسپیئرز والد کی اجازت کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتیں۔
یہاں تک کہ وہ کسی شو میں پرفارمنس یا کسی مرد سے تعلقات بھی اپنے والد کی مرضی سے استوار کرنے کی پابند ہیں۔
رٹنی اسپیئرز کی پہلی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے کچھ عرصے کے لیے ان کے والد اور ایک فرم کو ان کا ’سرپرست‘ مقرر کیا گیا تھا۔
مگر گلوکارہ نے پھر سے مذکورہ نظام کو ختم کرانے کے لیے درخواست دی تھی۔
23 جون کو ہونے والی سماعت میں پہلی بار برٹنی اسپیئرز نے ’سرپرستی‘ کے کیس میں بیان ریکارڈ کروایا۔
مذکورہ کیس میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی بھی بیان کو سرعام ریکارڈ کیا گیا اور اسے کمرہ عدالت میں موجود لوگوں سمیت عدالت کے باہر کھڑے برٹنی اسپیئرز کے مداحوں نے بھی سنا۔
اس سے قبل مذکورہ کیس کی سماعتیں میں ہونے والی کارروائیوں اور بیانات کو خفیہ رکھا جاتا تھا۔
گلوکارہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کی ’سرپرستی‘ کا نظام ایک طرح سے انہیں غلامانہ زندگی پر مجبور کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ سسٹم کو ختم کرکے انہیں ان کی زندگی پر اختیار دیا جائے۔
گلوکارہ نے والد کے رویے پر بھی کھل کر بات کی اور بتایا کہ ان کے حقیقی والد انہیں تکلیف دے کر خوش ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق ’سرپرستی‘ کے نظام میں وہ غلام بن کر زندگی گزار رہی ہیں، انہیں ان کی زندگی پر کوئی اختیار نہیں مگر اب وقت آگیا ہے کہ انہیں ان کی زندگی واپس دی جائے، انہیں اپنی مرضی سے جیون گزارنے دیا جائے۔
اداکارہ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ اگر ’سرپرستی‘ کا نظام نہ ہوتا تو وہ اپنے بوائے فرینڈ ایرانی نژاد امریکی فٹنیس ٹرینر سام اصغری سے شادی کر چکی ہوتیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2008 سے لے کر اب تک مذکورہ کیس میں ان کے بیانات کو بھی ممکنہ طور پر تبدیل کیا گیا جب کہ حتیٰ الامکان کوشش کی گئی کہ وہ درست نہ ہوسکیں اور انہیں ذہنی مریض کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔
برٹنی اسپیئرز کے مطابق انہیں سکون کرنے کے نام پر بھاری مقدار کی نشہ آور ادویات بھی دی جاتی رہیں، جس سے وہ ہمیشہ غنودگی میں رہتیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ مذکورہ سماعت کے وقت عدالت کے باہر برٹنی اسپیئرز کے مداح بھی موجود تھے، جنہوں نے ’سرپرستی‘ کا نظام ختم کرکے گلوکارہ کو آزاد کرنے کے نعرے بھی لگائے۔
دوسری جانب سماعت کے دوران برٹنی اسپیئرز کے والد جیمز اسپیئرز کے وکیل نے ان کا بیان بھی پڑھ کر سنایا، جس میں انہوں نے بیٹی سے ہمدردی اور محبت کا اظہار کیا تھا۔
تاہم گلوکارہ کے والد نے بیان میں کہا کہ وہ بیٹی کی صحت اور زندگی سے متعلق پریشان ہیں، وہ دعاگو ہیں کہ ان کی بیٹی جلد ٹھیک ہوجائے۔
عدالت نے کوئی بھی فیصلہ سنائے بغیر کیس کی سماعت ملتوی کردی لیکن خیال کیا جا رہا ہے کہ برٹنی اسپیئرز کی جانب سے پہلی مرتبہ مذکورہ کیس میں کھل کر بات کیے جانے کے بعد ممکنہ طور پر ان کی ’سرپرستی‘ کا نظام ختم کردیا جائے گا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News