Advertisement
Advertisement
Advertisement

احتساب عدالت نے میر شکیل کی بریت درخواست پر اہم سوالات اٹھادیئے

Now Reading:

احتساب عدالت نے میر شکیل کی بریت درخواست پر اہم سوالات اٹھادیئے
میر شکیل

احتساب عدالت نے میر شکیل کی بریت درخواست پر اہم سوالات اٹھا دیئے،عدالت نے 5 اگست کو نیب پراسکیوٹر کو حتمی دلائل کیلئے طلب کر لیا۔

احتساب عدالت کے جج اسد علی نے میڈیا فرعون میر شکیل کے خلاف پلاٹوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ ریفرنس کی سماعت شروع کی تو سپیشل پراسکیوٹر نیب عاصم ممتاز نے کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کے مرکزی پراسکیوٹر حارث شفیق قریشی علالت کے باعث آج پیش نہیں ہو سکتے۔

نیب پراسکیوٹر نے کہا کہ ٹرائل کی تفصیلات سے اگر آگاہ ہوتا تو ضرور دلائل دیتا۔ کیس کی سماعت ملتوی کیے جانے کے بعد ملزم میر شکیل کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے اور عدالتی فیصلے کا حوالہ پیش کرنے کی استدعا کی۔

احتساب عدالت کے جج نے ملزم میر شکیل کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا محکمے کی طرف سے تاخیر کے سبب ملزم کو کوئی رعایت دی جا سکتی ہے؟ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے تسلیم کیا کہ تاخیر کے سبب ملزم کا بریت کا حق نہیں بنتا مگر کیس کے کچھ حقائق ریکارڈ پر موجود ہیں۔

نیب پراسکیوٹر عاصم ممتاز نے امجد پرویز ایڈووکیٹ کے مزید دلائل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ملزم کے وکیل اپنے دلائل مکمل کر چکے ہیں اب انہیں نیب کے دلائل کا انتظار کرنا چاہئے پھر اگر کوئی نکتہ سامنے آئے تو اپنے دلائل دیں۔

Advertisement

نیب پراسکیوٹر نے مزید کہا کہ حیرانی ہے کہ عدالت نے بھی ملزم کے وکیل کو کیس ملتوی کرنے کے بعد دلائل دینے کی اجازت دے دی۔

احتساب عدالت کے جج اسد علی نے ریمارکس دئیے کہ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے عدالتی استفسار پر اپنے دلائل کا آغاز کیا ہے، فاضل جج نے امجد پرویز ایڈووکیٹ سے استفسار کیا کہ ملزم میر شکیل کو زمین الاٹ کرنے کیلئے ڈی جی ایل ڈی اے نے 2 تجاویز اے اور بی پیش کی تھیں مگر الاٹمنٹ کے وقت ان دونوں تجاویز کے کچھ حصے کیسے اکٹھے کرلئے گئے۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ جب ملزم میر شکیل کو الاٹمنٹ ہوئی تب اس علاقے میں گلیاں اور سڑکیں تعمیر نہیں ہوئی تھیں۔

اس موقع پر جج اسد علی نے ریمارکس دیئے کہ جوہر ٹاؤن کا نقشہ تو عدالت میں پیش کیا گیا ہے جس میں گلیاں اور سڑکیں موجود ہیں جبکہ گلیاں اور سڑکیں تو عوام کی پراپرٹی ہوتی ہیں۔

میر شکیل کے وکیل نے کہا کہ میر شکیل کو زمین الاٹ ہونے کے 3 برس بعد گلیوں کا نقشہ منظور کیا گیا تھا اور مجاز حکام نے میر شکیل کو پلاٹوں کے ساتھ گلیاں اور سڑکیں شامل کرنے کی منظوری دی تھی۔

عدالت نے میر شکیل کے وکیل سے استفسار کیا کہ ملزم 1992ء کے ایل ڈی اے کے خط کا جواب دے چکا ہے  یا تو آپ اس خط کے موجود ہونے کا یکسر انکار کرتے پھر اس پر بھروسہ کرتے، امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل دیئے کہ الزام ہے کہ میر شکیل نے ایل ڈی اے کے ملازمین کی ملی بھگت سے الاٹمنٹ کروائی مگر عملہ یہاں گواہ نہیں ہے۔

Advertisement

فاضل جج نے ریمارکس میں کہا ریفرنس میں لکھا ہے کہ افسران اور ملازمین کی ملی بھگت سے الاٹمنٹ کروانے کا الزام ہے تو افسران تو گواہی کیلئے پیش ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ نیب ریفرنس پیش ہونے کے بعد طلبی کے باوجود پیش نہ ہونے پر شریک ملزم نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا جاچکا ہے، نیب ریفرنس میں میر شکیل، سابق ڈی جی ایل ڈی اے ہمایوں فیض رسول اور بشیراحمد کو گنہگار قرار دیا گیا ہے۔

ریفرنس میں ملزم میر شکیل پر اس وقت کے وزیراعلیٰ نواز شریف کی ملی بھگت سے 1، 1 کنال کے 54 پلاٹ ایگزمپشن پر حاصل کرنے الزام ہے۔

نیب ریفرنس کے مطابق ملزم میر شکیل کا ایگزمپشن پر ایک ہی علاقے میں پلاٹ حاصل کرنا ایگزمپشن پالیسی 1986 کی خلاف ورزی ہے جبکہ ملزم میر شکیل نے نواز شریف کی ملی بھگت سے 2 گلیاں بھی الاٹ شدہ پلاٹوں میں شامل کرلیں اور ملزم نے اپنا جرم چھپانے کیلئے پلاٹ اپنی اہلیہ اور کمسن بچوں کے نام پر منتقل کروا لئے۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پنجاب میں طوطوں کی رجسٹریشن لازمی قرار
چیئرمین پی ٹی اے نے عہدے سے ہٹائے جانے کے فیصلے کو چیلنج کردیا
مریض پر نفسانی خواہش کو ترجیح دینے والے ڈاکٹر کو بحال کر دیا گیا
صدر کی چینی قیادت سے ملاقات، پاک چین تعلقات مزید گہرے کرنے پر اتفاق
پوسٹ پہلگام – مئی 2025 کی تقریب رونمائی ، عطا اللہ تارڑ اور دیگر مقررین کا خطاب
ڈاکٹرز صرف معالج نہیں، مسیحا ہونے چاہئیں، مصطفیٰ کمال
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر