
کائنات کےمشاہدات کےنئے دور کے آغاز کےلیے جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ (JWST) کو 18 دسمبر کو مدار میں روانہ کیا جا رہا ہے اور اس کے ذریعے ہونے والی دریافتوں کے بارے میں پایا جانے والا جوش اور ولولہ ناقابل بیان ہے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق سائنسدانوں کو امید ہے کہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ خلاء میں ان ستاروں کو ڈھونڈ پائے گی جو ساڑھے 13 ارب سال پہلے کائنات میں سب سے پہلے روشن ہوئے۔
ناسا کے گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کی ماہر فلکیات ڈاکٹر امبر نکول اسٹروگن کہتی ہیں کہ ’اس قدر بڑی اور بلند نظر ٹیلی اسکوپ کا سب سے دلچسپ پہلو یہ خیال ہے کہ ایسے بہت سے سوال ہیں جن کو پوچھنے کے بارے میں ہم نے ابھی تک سوچا بھی ںہیں۔‘
’یہ خیال کہ ہم کائنات کے بارے میں وہ چیزیں جان سکیں گے جو مکمل طور پر ہمیں حیران کر دیں گی، میرے لیے یہ اس دوربین کا سب سے دلچسپ پہلو ہے۔‘
جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ مدار میں اب تک بھیجے جانے والے سب سے بڑے فلکیاتی آئینے کا استعمال کرے گی جس کا قطر ساڑھے چھ میٹر ہے۔ یہ فلکیاتی آئینہ اتنا بڑا ہے کہ اسے مکمل طور پر کھلنے میں دو ہفتے تک کا وقت لگے گا۔
جمیز ویب ٹیلی اسکوپ امریکی خلائی ادارے ناسا، یورپی خلائی ادارے اور کینیڈین خلائی ادارے کا 10 ارب ڈالر کی لاگت کا مشترکہ منصوبہ ہے۔
جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کو آریان فائیو راکٹ کے ذریعے فرانسیسی گنی سے زمین سے 15 لاکھ کلومیٹر دور خلاء میں چھوڑا جائے گا۔
زمین سے 15 لاکھ کلومیٹر کے اپنے مشاہداتی مقام تک پہنچنے کے لیے اس ٹیلی اسکوپ کو 30 دن تک سفر کرنا پڑے گا۔
اگر سائنسدان یہ چاہتے ہیں کہ یہ ٹیلی اسکوپ اپنی پوری صلاحیت سے کام کرے تو راکٹ لانچ کے تقریباً 30 منٹ بعد راکٹ سے علیحدہ ہونے پر اس کو 344 ایسے کڑے لمحات سے گزرنا ہو گا جو اس کی صلاحیت پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر امبر نکول اسٹروگن کہتی ہیں کہ اس ٹیلی اسکوپ کو مکمل طور پر آپریشنل ہونے اور اس کی مدد سے پہلی تصاویر دیکھنے میں چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ایک بار جب ہم ٹیلی اسکوپ کو خلاء میں لے جائیں گے تو اسے کھولنے کا ایک پیچیدہ نظام ہے، جس کے بعد اسے ٹھنڈا ہونے، اپنے فلکیاتی آئینوں کو ترتیب میں لانے اور آلات کو آن کرنے میں مہینوں لگ جائیں گے۔‘
’تو2022 کے موسم گرما میں ہی ہم پہلی تصاویر حاصل کر سکیں گے۔‘
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News