شمالی آئرلینڈ آئندہ 10 برس میں برطانیہ سے الگ ہوسکتا ہے۔
شمالی آئرلینڈ اور جنوبی آئرلینڈ میں منعقدہ پول کے مطابق دونوں ملکوں کے عوام اگلے 10 برس میں ایک ریاست کے طور پر اتحاد چاہتے ہیں۔
جنوبی جمہوریہ آئرلینڈ میں دی آئرش ٹائمز کی جانب سے منعقدہ پول میں 62 فیصد عوام نے آئندہ دس برسوں میں دونوں ریاستوں کے انضمام کے حق میں رائے دی۔
شمالی آئرلینڈ میں کرائے گئے لارڈ ایش کرافٹ سروے کے مطابق دو تہائی عوامی اکثریت کا خیال ہے کہ اگلے دس برسوں میں وہ دونوں ملکوں کے اتحاد کے حق میں رائے شماری دیکھتے ہیں۔

ایک صدی قبل جنوبی آئرلینڈ کی آزادی کے بعد شمالی آئرلینڈ کے 6 صوبے حکومتِ برطانیہ کے اختیار میں شامل ہوگئے تھے مگر 1998 کے گڈ فرائیڈے ایگریمنٹ کے مطابق دونوں ریاستیں دوبارہ متحد ہوسکتی ہیں۔
دونوں ریاستوں کے انضمام کے لیے ریفرنڈم کے انعقاد کی ضرورت ہوگی۔ شمالی آئرلینڈ میں صرف حکومتِ برطانیہ ہی ریفرنڈم منعقد کرسکتی ہے اگر وہاں کے عوام اِس کے حق میں ہوں۔
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) سے دونوں ریاستوں کے انضمام کے معاملے کو دو عشروں کے دوران برسوں پہ مُحیط فرقہ وارانہ تصادم کے امن معاہدے کے خاتمے پر مزید اہمیت ملی ہے۔
بریگزٹ کی شرائط کے مطابق شمالی آئرلینڈ یورپی یونین کے کسٹمز ایریا میں واحد مارکیٹ کے طور پر شامل ہے۔ اِس بات سے شمالی آئرلینڈ اور برطانیہ کے اتحاد کے خواہش مند افراد فکرمند ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ اِس سے اُن کی برطانوی شناخت متاثر ہوتی ہے۔ دوسری جانب گڈ فرائیڈے ایگریمنٹ طے پانے کے بعد سے پروان چڑھنے والی نسل اِن روایتی وفاداریوں سے خود کو مُبرا سمجھتی ہے۔

شمالی آئرلینڈ کے اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم ہوا تو وہ برطانیہ کے ساتھ ہی شامل رہنا پسند کریں گے مگر نوجوان نسل انضمام کی حمایت کرتی ہے۔ پانچ میں سے ایک فرد کا کہنا ہے کہ بریگزٹ نے اُن کے برطانیہ میں شامل رہنے پر سوال اٹھا دیا ہے۔
شمالی آئرلینڈ کے بہت سے عوام نے اِس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ رائے شماری سے تقسیم پیدا ہوگی اور خطے میں تشدد اُبھرے گا جبکہ جنوبی آئرلینڈ کے اکثریتی عوام کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ ٹیکس، کٹوتیاں، نیا پرچم یا قومی ترانہ قبول نہیں کریں گے۔
دی آئرش ٹائمز کا یہ پول 5 سے 8 دسمبر کے دوران 1200 افراد کی رائے پر مشتمل ہے جبکہ شمالی آئرلینڈ میں 15 سے 18 نومبر کے دوران کیا گیا لارڈ ایش کرافٹ سروے کیلیے 3301 بالغ رائے دہندگان سے رائے لی گئی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
