آب و ہوا میں تبدیلی، درجہ حرارت میں اضافے، قدرتی آفات اور دیگر عوامل کی وجہ سے دنیا بھر میں غذائی عدم تحفظ بڑھتا جا رہا ہے۔
غذائی قلت میں سب سے اہم کردار ماحول دشمن گیسوں خصوصاً کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آنے والی نسلوں کو قحط سے بچانےکے لیے دنیا بھر میں سائنس دان مختلف تصورات پیش کر رہے ہیں۔
آب و ہوا میں تبدیلی کے بین الاقوامی پینل سے وابستہ ماہرین کے مطابق لائیو اسٹاک کے بعد زراعت کا شعبہ سب سے زیادہ میتھین اور نائٹروس آکسائیڈ خارج کرتا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہر معیشت اور کنسلٹنٹ ہینری ورتھٹنگٹن کا کہنا ہے کہ 2030 تک دنیا بھر میں کھانے کا مینیو تبدیل ہوجائے گا۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ حشرات الارض پروٹین سے بھرپور ہونے کے ساتھ ساتھ کاربن کا اخراج بھی کم سے کم کرتے ہیں۔ کچھ ماہرین لیباریٹری میں مصنوعی گوشت تیا رکرچکے ہیں حال ہی میں جاپانی سائنس دانوں نے تھری ڈی پرنٹڈ گوشت تیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اگلے چند سالوں میں کھانے میں کیا کیا ملے گا؟
لیباریٹری میں تیار کردہ سا سیج
برطانیہ کی زرعی ٹیکنالوجی فرم آئیوے فارم تجارتی بنیادوں پر 2023 تک لیباریٹری میں تیار ہونے والے کھانے پیش کرنے پر کام کر رہی ہے۔
یہ کمپنی اس وقت لیب میں قیمہ اور ساسیج (قیمہ بھری آنت ) بنانے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ اس کام کے لیے جو ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے اس کا نام ’ تھرمو رسپانسو اسکیفولڈ‘ ہے۔

اس سے قبل لیب میں گوشت بنانے کے لیے مویشیوں کی جلد کے خلیات کو پٹھوں اور چربی کے خلیات میں تبدیل کیا جاتا تھا، لیکن آئیوے فارم اس مقصد کے لیے زندہ جانوروں کے عضلاتی خلیات اور چربی کی مدد سے گوشت تیار کر رہی ہے۔
گوشت کے قتلے
اسرائیلی کمپنی می ٹیک نے رواں ماہ ہی لیباریٹری میں دنیا کا سب سے بڑا گوشت کا ٹکڑا اگانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کام کے لیے می ٹیک نے زندہ گائے کے نسیجوں سے حاصل کیے گئے پٹھوں کے خلیات اور چربی کی مدد سے 3 اعشاریہ 67 اونس وزنی بیف اسٹیک( گوشت کا ٹکڑا) بنایا ہے۔

گوشت کے اس ٹکڑے کو انکیو بیٹر میں رکھ کر اس کی نشوونما کی گئی، جس کی وجہ سے پٹھوں کے خلیات اور چربی مل کر پٹھوں کے نیسجوں میں تبدیل ہوگئے۔
لیباریٹری میں تیار ہونے والی کافی
سائنس دان صرف گوشت اور سبزیوں کو ہی لیب میں نہیں اگا رہے بلکہ کچھ سائنس دان لیباریٹری میں جینیاتی طور پر تیار کی گئی کافی بھی ایجاد کر چکے ہیں جس کا رنگ اور ذائقہ حقیقی کافی کی طرح ہی ہے۔
فن لینڈ میں قائم اس کمپنی کے ریسرچر کا اس بارے میں کہنا ہے کہ لیباریٹری میں تیار ہونے والی کافی کے لیے ’ سیلیولر ایگرکلچر‘ کا طریقہ کار استعمال کیا گیا ہے جس میں جانوروں اور چھوٹے پودوں کے نموںوں سے خلیات کو کشید کیا جاتا ہے۔

اس طریقہ کار کو ماضی میں مصنوعی دودھ اور گوشت بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاچکا ہے۔
لیب میں کافی تیار کرنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس تخلیق سے دنیا بھر میں کافی کی بڑھتی ہوئی طلب کو مستحکم کیا جاسکے گا۔
تھری ڈی پرنٹڈ گوشت
جاپان کی اوساکا یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے تھری ڈی پرنٹڈ گوشت کی تیاری کا مرحلہ بھی سر کرلیا ہے، جسے اسٹیم سیلز کی مدد سے لیب میں پرنٹ کیا گیا ہے۔
لیب میں تیار کیے جانے والے دیگر گوشت کی نسبت یہ چربی، پٹھوں اور شریانوں کے ساتھ بنایا گیا ہے اور اسی وجہ سے اسے تھری ڈی پرنٹد گوشت کا نام دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
