سپریم کورٹ نے کراچی میں مدینہ مسجد کو مسمار کرنے سے روکنے کی استدعا مسترد کردی۔
سپریم کورٹ اسلام آباد میں کراچی میں تجاوزات گرانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس میں اٹارنی جنرل نے طارق روڈ پر قائم مدینہ مسجد کو مسمارکرنے کے حکم پر نظرثانی کی استدعا کی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سے درخواست ہے اپنے28 دسمبر کے حکم پر نظر ثانی کرے۔ عدالت کے حکم کی وجہ سے مذہبی تناؤ جنم لے رہا ہے۔
چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ سندھ حکومت چاہے تو مسجد کے لیے متبادل زمین دے دے۔
اٹارنی جنرل نےعدالت سے کہا کہ مسجد گرانے کے حکم سے بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب! یہ پارک تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
جسٹس قاضی امین بولے کہ زمینوں کے قبضے میں مذہب کا استعمال ہو رہا ہے۔ آپ حکومت کے نمائندے ہیں، چاہتے ہیں آسمان گرجائے حکومت نا گرے۔ عبادت گاہ اور اقامت گاہ میں فرق ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جانتا ہوں یہ ریاست اور صوبائی حکومت کا فرض ہے کہ مسجد کے لیے زمین دے۔ سپریم کورٹ اپنا حکم واپس لے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ہم صرف اتنا کرسکتے ہیں کہ جب تک مسجد کی نئی جگہ نا ملے تب تک اس کونا گرانے کا حکم دیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کیس میں سندھ حکومت پارٹی نہیں ہے۔ پہلے سندھ حکومت سے مدینہ مسجد پر تفصیلی رپورٹ لے لیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ یہ تو بہت گڑ بڑ ہو گئی، ہم اپنا آرڈر واپس نہیں لےسکتے۔ اس طرح کیا ہم اپنے سارے آرڈر واپس لے لیں؟
اٹارنی جنرل نےعدالت سے کہا کہ سندھ حکومت کی رپورٹ آنے تک مسجد مسمار کرنے کا حکم روک دیں جس پر جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ پارک سے تجاوزات گرانے کا حکم واپس نہیں ہوگا۔ ہم نے اپنے فیصلے واپس لینے شروع کیے تو اس سب کارروائی کا کیا فائدہ؟
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ تجاوزات پر مسجد کی تعمیرغیرمذہبی اقدام ہے۔ اسلام اس اقدام کی اجازت نہیں دیتا۔ مسجد بنانی ہے تو اپنی جیب سے بنائیں۔
سپریم کورٹ نے سندھ حکومت سے تین ہفتے میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 13 جنوری تک ملتوی کردی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
