
سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ خلا میں زیادہ وقت گزارنا انسانی آنکھوں کو ممکنہ طور پر نقصان پہنچا سکتا ہے، جبکہ خلا نوردوں کی جانب سے خلائی سفر کے بعد نظر دھندلانے کی شکایات سامنے آئی ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر انسان حقیقی زندگی میں دوسرے سیاروں پر رہائش اختیار کرنے کے قابل ہوئے تو ممکنہ طور پر چمگادڑوں کی طرح اندھے ہو سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق خلا نوردوں کو خلائی مہم کے بعد زمین پر واپس آکر نظر کے چشموں کی ضرورت محسوس ہوئی۔
جس کے بعد ماہرین نے آنکھوں کی روشنی پر دماغ اور کشش ثقل کے اثرات پر تحقیقات کی ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ مستقبل میں انسانی خلائی بستی کو مستقل دھندلے پن کے ساتھ رہنا پڑ سکتا ہے۔
سائنس دانوں نے اسپیس فلائٹ ایسوسی ایٹڈ نیورو اوکیولر سنڈروم (SANS) کا تجزیہ کیا اور خلائی سفر سے پہلے اور بعد میں دماغی اسکینز کا موازنہ کیا۔
ان کا دعویٰ ہے کہ خلاباز خلا میں جتنی دیر تک رہتے ہیں، زمین پر واپس آنے پر انہیں مبہم بصارت اور بینائی کے مسائل کے بارے میں اتنی ہی زیادہ شکایت وہتی ہے۔
امریکا کی میڈیکل یونیورسٹی آف ساؤتھ کیرولائنا سے تعلق رکھنے والے مارک روزن برگ کہتے ہیں کہ، “یہ تجزیہ اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ خلا باز جب خلا میں جاتے ہیں تو حقیقت میں چشموں کے اضافی جوڑے رکھتے ہیں۔”
“وہ جانتے ہیں کہ وہاں ان کی نظر خراب ہونے والی ہے۔”
قبل ازیں ناسا کے ایک سابق سربراہ نے کہا تھا کہ سرخ سیارے (مریخ) کے گرد میگینیٹک فیلڈ بنا کر مریخ کو انسانوں کے لیے قابل رہائش بنایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر جم گرین کے مطابق، نظام شمسی کے تمام سیاروں میں سے مریخ سب سے زیادہ قابل رہائش امیدوار ہے۔
مریخ پر جا کر انسانوں کو ‘ملٹی پلینیٹری’ نوع بنانا SpaceX کے سی ای او ایلون مسک کا ایک طویل عرصہ سے ایک اہم مقصد رہا ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News