
کسی قیامت کی صورت میں نسل انسانی کی حفاظت کے لیے چاند پر شمسی توانائی سے چلنے والا ایک بنکر ڈیزائن کیا گیا ہے۔
خلا میں موجود اس بنکر کے ڈیزائن ڈرافٹس میں سائنس دانوں نے بیج، سپرم اور بیضہ دانی محفوظ کرنے کے لیے زیرِ زمین اسٹوریج یونٹس مختص کیے ہیں۔
جدید دور کی کشتیِ نوح قرار دیا گیا یہ ڈیزائن پروفیسر جیکن تھینگا کا ‘عالمی انشورنس پالیسی’ پلان ہے۔
پروفیسر تھینگا کے مطابق، چاند کی ٹھنڈا ماحول اسے انسانوں اور پودوں دونوں کی تولید کے لیے محفوظ مواد رکھنے کے لیے بہترین تجوری بناتا ہے۔
اس سےملتا جلتا ایک ‘ڈومز ڈے والٹ’ پہلے ہی ناروے میں موجود ہے، سوالبارڈ سیڈ بینک میں سیکڑوں ہزاروں بیجوں کے نمونے موجود ہیں لیکن تھینگا کا خیال ہے کہ انہیں زمین پر محفوظ کرنا بہت خطرناک ہے۔
اس کے بجائے وہ 6.7 ملین انواع کو منجمد بیجوں، سپرم اور بیضہ دانیوں کی شکل میں چاند پر کرائیوجینک طور پر ذخیرہ کرنا چاہتے ہیں، تاکہ عالمی تباہی کے دوران انسانی بقا کی ضمانت دی جا سکے۔
ایریزونا یونیورسٹی کے پروفیسر تھینگا کا کہنا ہے کہ “زمین قدرتی طور پر ایک غیر مستحکم ماحول رکھتی ہے۔”
“بطور انسان، ہم تقریباً 75,000 سال پہلے ٹوبا کے سپر آتش فشاں پھٹنے سے بال بال بچے ہیں، جس کی وجہ سے 1,000 سال تک سردی کا موسم رہا تھا اور کچھ کے مطابق، انسانی تنوع میں ایک اندازے کے مطابق کمی واقع ہوئی تھی۔”
اس منصوبے کا مقصد موسمیاتی تبدیلی کے ممکنہ طور پر تباہ کن اثرات، عالمی وبا اور ایٹمی جنگ کے لیے تیاری کرنا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چاند کے لاوا ٹیوبوں کا منجمد نیٹ ورک جو اربوں سال پہلے پگھلا ہوا تھا، نمونوں کو شمسی تابکاری، شہابِ ثاقب اور سطح کے اوپر موجود دیگر خطرات سے بچا سکتا ہے۔
تھینگا نے مزید کہا کہ “امید ہے جب خلائی سفر کے اخراجات کم ہوں گے، تو ہم اس پر پیش قدمی شروع کر سکتے ہیں، لیکن ہمیں واقعی اگلے 30 سالوں میں چاند پر نمونے بھیجنا شروع کرنے کی ضرورت ہے۔”
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News