
کم عمراورعمررسیدہ ٹرانسجینڈرزکیلئے پروٹیکشن سینٹربنانے کی ہدایت
جنس تبدیلی کی اجازت کے قانون کے خلاف درخواستوں پرسماعت کے دوران چیف جسٹس کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں موجود خواجہ سراؤں نے تالیاں بجا دیں۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی شرعی عدالت اسلام آباد میں جنس تبدیلی کی اجازت کے قانون کیخلاف درخواستوں پرسماعت کے دوران جسٹس سید محمد انورنے ریمارکس دیے کہ دومیڈیا رپورٹس کے مطابق قانون میں کچھ ترامیم بھی ہورہی ہیں۔
درخواست گزار نے بتایا کہ عدالت نے کیس شرعی تناظر میں دیکھنا ہے بنیادی حقوق کا نہیں۔ اللہ تعالی نے ہرمخلوق کو جوڑوں کی صورت میں تخلیق کیا ہے۔ بعض خواجہ سراؤں میں خواتین، کچھ میں مردانہ علامات حاوی ہوتی ہیں۔ تیسری قسم کے خواجہ سراؤں میں کوئی علامت حاوی نہیں ہوتی
درخواست گزار نے کہا کہ شریعت میں اپنی جنس چھوڑ کر دوسرے جیسا بننے والے پر لعنت بھیجی گئی ہے جس پر چیف جسٹس شریعت عدالت نے کہا کہ جو جیسا پیدا کیا گیا ہے خود کو ویسا ہی ظاہر کرنے والے پر کوئی لعنت نہیں۔
کمرہ عدالت میں موجود خواجہ سراؤں نے چیف جسٹس کے ریمارکس پر تالیاں بجا دیں جس پرچیف جسٹس نے تالیاں بجانے والوں کو روکتے ہوئے ہدایت کی کہ عدالت کا احترام کیا جائے۔
اوریا مقبول جان نے عدالت سے کہا کہ پیدائشی خواجہ سراؤں کو شریعت نے وراثت اور نکاح سمیت حقوق دیے ہیں جس پر جسٹس سید انورنے کہا کہ جو خواجہ سرا نہیں ہیں اور خود کو ظاہرکرتے ہیں ان پر سب کو اعتراض ہے۔
جسٹس سید انورنے ریمارکس دیے کہ قانون خواجہ سراؤں کے حقوق اور تحفظ کیلئے بنا ہے۔ قانون غلط ہونا اوراس کا استعمال غلط ہونا الگ الگ چیزیں ہیں۔ کسی کو خواجہ سرا کی جنس پر اعتراض ہوتومیڈیکل کروایا جا سکتا ہے۔
اوریا مقبول جان نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ کوئی مرد خواتین والے کپڑے پہن لے تو وہ عورت کہلائے گا نہ ہی خواجہ سرا۔ خواجہ سرا ہونے کا دعوی کرنے والوں کا میڈیکل ٹیسٹ کیا جائے۔
جسٹس سید انور نے وفاقی حکومت کے وکیل سے پوچھا کہ وزارت انسانی حقوق کے وکیل نے کہا تھا قانون پرعملدرآمد کیلئے رولز بن رہے ہیں جس پر وکیل وفاقی حکومت نے جواب دیا کہ رولز میں ایسی شق شامل نہیں ہو سکتی جس کا قانون میں ذکر نہ ہو۔
اوریا جان مقبول نے کہا کہ رولز کا نوٹیفکیشن ہوچکا ہے جس میں جنس تبدیلی کی اجازت دی گئی۔
وکیل احسن منگی نے کہا کہ وزارت انسانی حقوق سے ہدایات لیکر آگاہ کروں گا۔
جسٹس شیخ قاسم بولے کہ کس کی جنس کیا ہے اس پر تو جھگڑا ہونا ہی نہیں چاہیے۔
درخواست گزارنے کہا کہ قانون میں ہراس شخص کو خواجہ سرا کہا گیا جو دوسری جنس کا حلیہ اپنائے۔ رولز میں نادرا کو پابند کیا گیا ہے کہ وہی جنس لکھی جائے گی جو کوئی لکھوانا چاہے۔
درخواست گزار محمد بن ساجد نے کہا کہ نادرا ریکارڈ میں جنس وہی ہوگی جو کوئی خود کو سمجھتا ہے یا بننا چاہتا ہے، جنس تبدیلی کی اجازت دینے کا قانون ہم جنس شادیوں کی جانب پہلا قدم ہے۔
درخواست گزار نے عدالت سے کہا کہ قانون میں لکھا ہے کہ خواجہ سراؤں کو حکومت مالی امداد دے گی جس پر چیف جسٹس شریقت کورٹ نے سوال کیا کہ کیا خواجہ سرا انسان نہیں کہ حکومت انکی مالی امداد کرے؟
درخواست گزار نے عدالت سے کہا کہ پیدائشی سرٹیفکیٹ میں ہربچے کی جنس لکھی ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ 34 سال بعد کوئی کسی کوعورت کہے۔
خواجہ سرا نایاب علی نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں کوئی امداد ملی نہ ہی نوکریاں جن کا غلط استعمال ہوسکے۔ خواجہ سراؤں کیخلاف نفرت پھیل رہی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ نے آپ کو تخلیق کیا ہے نفرت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
خواجہ سرا ماہ نور نے عدالت سے کہا کہ ہم معاشرے کے سامنے اپنے کپڑے اتار کر جنس ثابت نہیں کرسکتے جس پر پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو کپڑے اتارنے کا کس نے کہا ہے؟
خواجہ سرا عائشہ مغل نے کہا کہ اوریا مقبول جان کوئی اصلی خواجہ سرا عدالت میں پیش کردیں۔
شرعی عدالت نے جعلی خواجہ سراؤں کے سدباب کیلئے تجاویز مانگتے ہوئے مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News