فروغ نسیم نے کہا ہے کہ ہم نے وراثت کے قانون میں تبدیلی کی ہے۔
وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر ڈاکٹر محمد فروغ نسیم نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس انور ظہیر جمالی نے خوبصورت تقریر کی۔
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ جب وکلاء تحریک چلی اور جب 2009 کا فیصلہ آیا تو وہ ججز جو ہمارا اثاثہ ہو سکتے تھے سب کو نکال دیا گیا، میں نے اس وقت بڑی کوشش کی کہ الجہاد ٹرسٹ کا فارمولہ تھا اس کے تحت اچھے ججز کو ری ٹین کیا جاتا، ایسا نہیں ہو سکا جس سے ججز کا فقدان سامنے آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ افتخار چوہدری سے میرا پیار کا رشتہ ہے پر انھوں نے میری ایک نہ سنی، افتخار چوہدری جن کی سنتے تھے انھوں نے بھی نہیں سنی اور تمام ججز کو فارغ کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری بار اور وکلاء چاہتے ہیں کہ اسٹیٹس کو ایسے ہی رہے تاکہ جو مقدمہ ہے اگر بیس سال چلتا ہے تو چالیس سال چلے، وراثت کے قانون میں ہم نے تبدیلی کی جس پر بار نے بہت تنقید اور ردعمل دیا، آج میرا بنایا گیا قانون نفاذ العمل ہے اور آج لوگوں کو سہولیات مل رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے پاس سیاہی یا پیپر نہیں ہوتا، پولیس کو جو بجٹ آتا ہے وہ پولیس اسٹیشن جاتا ہی نہیں، اب جب میں نے ریفارمز میں لکھ دیا کہ بجۓ پولیس اسٹیشن جانا چاہیے تو اس پر شور مچایا جا رہا ہے، میں نے بار سے تجاویز بھی مانگی، ان کو شامل کیا لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
فروغ نسیم نے کہا کہ الیکٹرونک ریکارڈنگ دنیا بھر میں ہو رہی ہے، اس سے بڑے بڑے ثبوت ریکارڈ ہو جاتے ہیں لیکن بار والے کہتے ہیں کہ یہ نہیں کرنا، ترقی یافتہ معاشرہ کہاں پہنچ چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی جج صاحب کے بیگم اور بچوں کے اثاثے ایسے ہیں جس کو وہ بیان نہیں کر سکتے کہ وہ کہاں سے لے کر آئیں ہیں، جج ایک پبلک ٹرسٹ ہے اور ایسے نہیں چل سکتا اثاثوں کا جواب دینا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حضرت علی سے جب سوال کیا گیا اتنا مال کیسے آیا تو انہوں نے بتایا، عمران خان کہتا ہے کہ امیر کے لیے فیصلہ کچھ اور غریب کے لیے کچھ۔
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ عوام اگر اپنا کردار پورا نہیں کریں گے تو کچھ نہیں ہو گا، خواتین کے پراپرٹی رائٹس کا بل پاس کیا، جب تک فنانشل ایمپوورمنٹ نہیں ہو گی تب تک خواتین کو ان کے حقوق نہیں ملیں گے، باپ کے مرنے کے بعد خواتین کی وراثت پر قبضہ ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ٹرائل کو کنڈکٹ کرنے کے لیے یہ قانون بن رہا ہے کہ آپ نے نو مہینے میں ٹرائل مکمل کیوں نہیں کیا، اگر وہ جواب نہ دے سکے تو ڈسپلینیری ایکشن لیا جائے گا لیکن بار اس کی مخالفت کر رہی ہے کہ یہ عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیکا یا آیڈہاک جج کا معاملہ ہو تو مخالفت آتی ہے، پیکا کا قانون دو ہزار سولہ میں نواز شریف نے بنایا اور اب پیکا قانون میں کچھ تبدیلی کی گئی ہے۔
فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ وہ کام کریں جو پاکستان کے لیے بہتر ہو، ہمیں اپنے ملک اور لوگوں کے حالات ٹھیک کرنے ہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
