 
                                                      جیلوں میں بندقیدیوں کوسہولیات کی فراہمی سے متعلق درخواست کا تحریری فیصلہ جاری
مسلم لیگ ق کے وکلاء نے جاوید قصوری کے نام پراعتراض کیا جس پرعدالت نے رجسٹرارکو ڈپٹی اسپیکرکیساتھ جانے کی ہدایت کردی۔
تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کا نوٹیفکیشن منسوخ کرنے کیخلاف درخواستوں پردوپارہ سماعت ہوئی۔
دوپہر2 بجے تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے عدالت نے حکم دیا کہ اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، حمزہ شہبازاورتمام فریقین کے وکلاء ایڈووکیٹ جنرل آفس میں بیٹھ کرمعاملہ اچھے طریقے سے حل کریں اور2 بجےعدالت کو نتیجے سے آگاہ کیا جائے جس کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔
چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ امیر بھٹی نے اے جی پنجاب سے پوچھا جی ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کیا بنا میٹنگ کے بعد؟
اعظم نذیرتارڑایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ میں نے قیادت سے مشاورت کے بغیر کہا تھا کہ کل یا پرسوں اجلاس بلایا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس کیس کو میرٹ پر نہیں سن رہے۔ اسمبلی سیکرٹریٹ اس کیس میں اہم فریق نہیں ہے۔
بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ ہم نے کہا ہے کہ 16 اپریل کو ہی اجلاس کروایا جائے۔ 16 اپریل سے قبل بہت سی چیزیں کرنا باقی ہیں۔ یہ تو پھر ایسا لگتا ہے کہ آپ نے کچھ نہیں کرنا۔
چیف جسٹس امیر بھٹی نے کہا کہ اگرآپ نے اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹنا تو پھر کیا سمجھوتا کیا؟ ایسا تو نہیں ہونا چاہئے کہ آپ نیچے آ جائیں میں تو اپنے موقف پر کھڑا ہوں۔ پرویز الٰہی متعلقہ فرد کی نمائندگی بیرسٹر علی ظفر کر رہے ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہماری بڑی کوشش تھی کہ ہم تماشا نہ دکھائیں، ایک آئینی ادارے کو تماشا نہ بنایا جائے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو کچھ نہ ہو سکے؟
بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ 16 اپریل سے قبل اجلاس نہیں ہو سکتا جس پر چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کچھ تو آفر کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ یہ تاثرنا جائے کہ سارے کام عدالتیں کررہی ہیں۔ آپ وہ کچھ کرکے دکھائیں، اچھے پارلیمنٹیرین ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم کل دوبارہ کوشش کرلیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کل کو جو آپ نے کرنا ہے پارلیمنٹ کی باتیں یہاں ڈسکس نہ کریں۔ ہم نہیں چاہتے کہ اسمبلی سے ایسی باتیں باہر نہ آئیں۔ میں نے اس عدالت کے ماحول کو برقراررکھنا ہے کہ باہر کوئی برا مسیج نہ جائے۔
وکیل پنجاب اسمبلی نے کہا کہ کل سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے ریفرنس کی سماعت مقررہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ صوبہ حکومت کے بغیرچل رہا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں دوبارہ کوشش کر لیتا ہوں، کل تک کا وقت دے دیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ٹائم مانگنا ہے تو ہم تمام درخواست گزاروں کو سن کر فیصلہ کریں گے جس کے بعد حمزہ شہباز کے وکیل اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے دلائل شروع کیے۔
ایڈووکیٹ اعظم نذیر نے کہا کہ قانون کے مطابق کاغذات نامزدگی کے اگلے روز الیکشن کرانا ضروری ہے۔ اسمبلی رولز کی دفعہ 9 کے اسپیکر کے الیکشن میں حصہ لینے کی صورت میں اسے عہدے علیحدہ ہونا پڑے گا۔
اعظم نذیرنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ میں مسلم لیگ ن نے استدعا کی تھی کہ 6 اپریل کو پنجاب اسمبلی میں الیکشن کروایا جائے۔ 5 اپریل کو ایڈووکیٹ جنرل نے 6 اپریل کو اجلاس بلائے جانے کا بیان دیا۔ مجھے اورایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی علم نہیں تھا کہ اجلاس 16 اپریل تک ملتوی ہو گیا ہے۔
دلائل میں ایڈووکیٹ اعظم نذیر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آبزرویشن بھی دی تھی جا کر اجلاس کروایا جائے۔ ڈپٹی اسپیکر کو تو اسمبلی میں جانے ہی نہ دیا گیا اوراجلاس منعقد نہ ہوسکا۔
ایڈووکیٹ اعظم نذیر نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو سپریم کو 6 اپریل کو اجلاس نہ ہونے سے متعلق آگاہ کیا۔ سپریم کورٹ میں درخواست حمزہ شہباز کی بجائے مسلم لیگ ن نے دائر کی تھی۔
دلائل میں اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وزیراعلٰی پنجاب کا آفس گزشتہ 10 روز سے خالی ہے۔ وزیراعلی کو عارضی چارج دیا گیا ہے مگراہم فیصلے نہیں ہو سکتے۔ ڈپٹی اسپیکر اب مجاز آفیسر ہے مگر اسے تو اسمبلی میں جانے ہی نہیں دیا جا رہا۔
ایڈووکیٹ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کالعدم کی مگر پنجاب میں مسئلہ انتہائی مختلف ہے۔ آرٹیکل 53 کے تحت چودھری پرویزالٰہی نے دوست محمد مزاری کو اختیارات تفویض کیے۔
انھوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کو اپنے فرائض انجام دینا چاہئے۔ اسپیکر صوبائی اسمبلی چودھری پرویزالٰہی خود وزارت اعلی کے امیدوار ہیں پھر خود چارج لے کر اجلاس ملتوی کردیا۔
اعظم نذیر تارڑ کی استدعا نے عدالت سے استدعا کی کہ چودھری پرویزالٰہی کو کسی بھی قسم کی رکاوٹ پیدا کرنے سے روکا جائے۔ چودھری پرویزالٰہی اپنے آپ میں جج بن چکے ہیں۔ دوست محمد مزاری کو بطور ڈپٹی اسپیکر کے اختیارات استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔
حمزہ شہباز کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ رولز 210 کے تحت جب امن و امان کی صورتحال ہو تو اجلاس ملتوی کیا جا سکتا ہے۔ فرنیچر، کیمرے وغیرہ توڑے گئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کتنے دن چاہئیں فرنیچرکی درستی کرنے میں؟ کب آخری اجلاس ہوا تھا؟ جس پر وکلا نے کہا کہ 3 اپریل کو اجلاس ہوا تھا۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے پوچھا کہ 6 سے 7 دن ہو گئے ہیں آپ نے اب تک کیا بہتری کی؟
اے جی پنجاب نے جواب دیا کہ یہ 4 سے 5 دن کا معاملہ ہے، اجلاس ہو جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلی کا کسٹوڈین اب کون ہے؟ وکیل پنجاب اسمبلی نے کہا کہ اس وقت اسیکرٹریٹ کسٹوڈین ہے۔ ڈپٹی اسپیکر کیخلاف عدم اعتماد آ چکی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں تو صبح سے اسی کوشش میں ہوں کہ معاملے کو پارلیمنٹ خود سلجھائے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ہم خود چاہ رہے ہیں کہ معاملہ سلجھ جائے اورالیکشن صحت مند ماحول میں ہو جائے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سارا کچھ زیادہ ہی صحت مند نہیں ہو رہا؟ سارے ادارے بلڈوز کئے جا رہے ہیں۔
ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے وکیل بیرسٹرعمر نے دلائل دیے کہ اسپیکر اگر الیکشن لڑ رہا ہو تو اسپیکر کے اختیارات استعمال نہیں کرسکتا۔ عدالت سے استدعا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کو اپنے اختیارات استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔
چودھری پرویزالٰہی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر کی جواب کی تیاری کیلئے مہلت دینے کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نوٹسز تو ہفتے کے روز جاری کر دیے تھے، میڈیا پر بھی خبرآئی تھی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آج صبح اس کیس میں میری خدمات حاصل کی گئی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے کلائنٹ کو سارا کچھ علم تھا اب انہیں اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ یہ درخواستیں قابل سماعت ہی نہیں پہلے اس پر فیصلہ کیا جائے۔
علی ظفر نے کہا کہ وزارت اعلی انتخاب کیلئے 16 اپریل کی تاریخ مقرر کرنا کوئی غیر قانونی امرنہیں تھا۔ آرٹیکل 67، 68 اور 69 کے تحت آئینی رکاوٹ ہے۔ سپریم کورٹ بھی صوبائی اسمبلی کو ہدایت کرسکتی تھی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مسلم لیگ ن کو کوئی ریلیف نہیں دیا تھا۔ ہائیکورٹ اسی ادارے کو ہدایت کر سکتی ہے جو اس نے ماتحت ہوگا۔
چیف جسٹس امیر بھٹی نے کہا کہ اسمبلی میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر آزادی سے کسی بھی ہال یا چیمبر میں جا سکتا ہے؟
علی ظفر نے کہا کہ بالکل اسپیکریا ڈپٹی اسپیکر کسی بھی چیمبر میں جا سکتا ہے جس پرعدالت نے کہا کہ تو پھر سیکریٹری اسمبلی نے کیوں روکا ہوا ہے؟
وکیل پنجاب اسمبلی نے کہا کہ کسی نے نہیں روکا ہوا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر یہاں موجود ہیں؟ ۔
بیرسٹر محمد عمر نے ڈپٹی اسپیکر کچھ ہی لمحوں میں یہاں پہنچ جائیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیکریٹری صاحب جائیں اورڈپٹی اسپیکر کو ان کے چیمبر میں بٹھا کرآئیں۔
وکیل پنجاب اسمبلی نے کہا کہ معاملے کی غیر جانبداری کیلئے کسی بھی وکیل کو ساتھ بھیج دیں تا کہ ڈپٹی اسپیکر یہ نہ کہیں کہ میں نے نہیں جانا۔
اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے 16 اپریل کیلئے اجلاس ملتوی کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر رکھا ہے۔
وکیل پنجاب اسمبلی نے کہا کہ جاوید قصوری ایڈووکیٹ کو بھی ساتھ بھیج دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قصوری صاحب جب آپ اسمبلی جائیں تو وہاں توڑ پھوڑ کو بھی دیکھیے گا۔
وکیل پنجاب اسمبلی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کو چیمبر میں جانے سے روکنے کیخلاف تحریک اسحقاق بھی نہیں لائی گئی۔ ڈپٹی اسپیکریہ بھی نہیں کہتے کہ سیکرٹری اسمبلی نے 6 اپریل والا نوٹیفیکیشن وصول نہیں کیا۔
وکیل پنجاب اسمبلی نے کہا کہ 16 اپریل کی تاریخ تبدیل کرنے کیلئے پوری فائل ساتھ ہوتی ہے مگر تاریخ تبدیلی کے دوسرے نوٹیفیکیشن کیساتھ فائل نہیں تھی۔ جو اسمبلی میں منتخب ہو کر آتے ہیں۔
وکیل پنجاب اسمبلی نے کہا کہ ان کے پیچھے لاکھوں ووٹ ہوتے ہیں، ان کے پاس پیسہ ہوتا ہے۔ سیکریٹری اسمبلی بیچارے کی کیا مجال ہے کہ وہ ڈپٹی اسپیکر کی خواہش کیخلاف چل سکے۔
وکیل پنجاب اسمبلی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کو 16 اپریل سے 6 اپریل کرنے کی وجوہات بھی تو بتانی چاہئیں۔ آپ بڑے وسیع القلب آدمی ہیں، آپ ان کیلئے اتنی رحم دلی نہ رکھیں۔
وکیل پنجاب اسمبلی نے کہا کہ میں آپ کو ذاتی طورپرجانتا ہوں آپ ہمیشہ سے سائلین کیلئے نرم دلی رکھتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اچھا طریقہ ہے پسپا کرنے کا، اب آپ میری طرف شروع ہو گئے ہیں۔
عامر سعید راں وکیل ق لیگ نے کہاکہ حمزہ پارٹی کے پاس 170 افراد ہیں اور30 ہمارے بٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ ہارس ٹریڈنگ نہیں تو اورکیا ہے۔
چیف جسٹس امیر بھٹی نے کہا کہ کسی رکن کو ووٹ کاسٹ کرنے سے تو نہیں روکا جا سکتا۔ اگر کوئی پارٹی ڈسپلن کیخلاف ووٹ دے تو آر63 اے کے تحت کارروائی شروع ہو سکتی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ڈنڈے سوٹے لے کرتو نہیں کسی کو روکا جا سکتا۔ قانون نے اپنا راستہ بنانا ہے، وہ راستہ بنائے گا۔ ڈپٹی اسپیکر کہاں ہیں؟
وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ دوست محمد مزاری آ رہے ہیں۔
کچھ دیربعد ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری عدالت پیش ہوئے۔
مسلم لیگ ق کے وکلاء نے جاوید قصوری کے نام پراعتراض کیا جس پر عدالت نے رجسٹرار کو ڈپٹی اسپیکرکیساتھ جانے کی ہدایت کر دی۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ تحریری حکم دونوں فریقین کی رضا مندی سے لکھوا رہا ہوں، اگر کہیں کوئی اعتراض ہو تو بتا دیجئے گا۔
عدالت نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر پریزائڈنگ افسر کے فرائض انجام دیں گے جس پر وکیل ق لیگ نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر الیکشن پریزائیڈ نہیں کر سکتے۔ پینل آف چیئرمینز میں ایک فرد پریزائڈ کر سکتے ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے کہا کہ اسد قیصر نے قومی اسمبلی میں اجلاس پزیزائیڈ کیا۔
وکیل ق لیگ عامر سعید راں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر رات کے اندھیرے میں 2 نمبر کام کر رہے تھے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ اسمبلی کی کارروائی میں عدالت مداخلت نہیں کرسکتی۔
وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نااہل جب تک نہیں ہوتا وہ اپنا کام کرسکتا یے۔
چیف جسٹس امیر بھٹی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی نااہلی کا فیصلہ اسمبلی میں کریں۔
وکیل ق لیگ نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کے اختیارات واپس لیے گئے ہیں جب وہ اسمبلی میں جائیں گے وہی اختیارات استعمال کریں گے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ اختیارات واپس لینے کے نوٹیفکیشن میں صرف اجلاس کی تاریخ واپس لینے کی بات تھی۔
ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے کہا کہ معذرت میں تاخیر سے آیا۔ سارا کام قانون کے مطابق ہو رہا ہے۔ میرا آفس بند ہے۔
چیف جٹس نے کہا کہ آپ کا آفس کھل گیا یے جس پر ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ جب وزیر اعلی کا انتخاب کروا رہا ہوں گا تو سیکریٹری اسمبلی وہاں پر موجود نہ ہو۔
چیف جسٹس امیر بھٹی نے کہا کہ جتنا آپ کو حکم دیا ہے آپ بس اتنا کریں۔ باقی فیصلہ آپ کا کل کریں گے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News

 
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                 