
جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے کہا کہ میرے روسٹر کا مسئلہ نہ ہوتو پٹیشن کو ایک سال تک چلاؤں سارا مری ٹھیک ہوجائے گا۔
تفصیلات کے مطابق لاہورہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں سانحہِ مری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس میں ایکس سی این ہائے ویز پنجاب ، سی ای او ضلع کونسل ، ریسکیو 1122، ٹی ایم اے کے نمائندگان عدالت میں پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت عدالت نے کہا کہ ایکس سی این صاحب گریسر کو کیسے آپریٹر پر پروموٹ کیا گیا۔
ایکس سی این ہائی ویز نے جواب دیا کہ ہائے وے رولز کے مطابق پچیس سال بعد گریسر کو آپریٹر پر پروموٹ کیا جاتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ سروس رولزکب کے ہیں پیش کریں جس پر ایک سی این نے جواب دیا کہ رولز2020 کے ہیں لیکن ڈرافٹ کی شکل میں ہیں ابھی منظورنہیں ہوئے۔
راولپنڈی بنچ نے پوچھا کہ مطلب ڈرافٹ منظورہونے سے قبل ہی آپ نے پروموشن شروع کردی۔ آپ اپنی مرضی سے اداروں کو چلاتے ہیں۔ عدالت نیشل ہائی وے والوں کو بھی بلائے گی اور اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچائے گی۔
جسٹس چوہدری عبد العزیزنے کہا کہ سارا کام واٹس ایپ گروپوں میں چلے گا تو نتائج یہی ہوں گے۔
وکیل درخواست گزارجلیل اختر عباسی نے کہا کہ پانچ باقاعدہ آپریٹرز میں سے ایک موقع پر موجود تھا چار موقع پر موجود نہیں تھے۔ پہلی رپورٹ میں صرف ایک آپریٹر ظاہر کیا گیا بعد والی رپورٹ میں چارغیر حاضر آپریٹرز کو بھی شامل کر دیا گیا۔
عدالت نے کہا کہ جس کے پاس سنو بلور چلانے کا تجربہ نہیں اس کو کیسے اتنی بڑی مشین پر چڑھا دیا۔ خاکروب، گرہسر اور مالیوں کو خود ساختہ آپریٹر ظاہر کرکے کیسے مشینوں پر چڑھا دیا گیا۔
جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے سی ای او ضلع کونسل سے سوال کیا کہ مری میں کتنی غیر قانونی عمارات ہیں؟
سی ای او ضلع کونسل نے جواب دیا کہ 2019 میں تعمیرات پر پابندی ہٹی تو تعمیرات پر کوئی پابندی نہیں۔
عدالت نے کہا کہ پابندی ہٹانے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مری کو راجہ بازار بنا دیں۔ عدالت سانحہ مری کیس اینٹی کرپشن کو بھی بھیجے گی۔ مری میں سیوریج کا کیا نظام ہے؟
سی ای او ضلع کونسل نے جواب دیا کہ مری میں سیوریج سپٹک ٹینکس میں جاتا ہے۔
عدالت نے کہا کیا پورا مری سپٹک ٹینکس پر چلتا ہے کوئی باقاعدہ سیوریج کا نظام نہیں۔ میرے روسٹر کا مسئلہ نہ ہو تو پٹیشن کو ایک سال تک چلاؤں سارا مری ٹھیک ہوجائے گا۔
جستس چوہدری عبدالعزیز نے کہا کہ محکمہ موسمیات کی ایک الرٹ سے کہانی شروع ہوئی جس کے بعد پی ڈی ایم اے ضلعی انتظامیہ سمیت تمام ادارے سوئے رہے۔ اتنا بڑا سانحہ ہو گیا۔
عدالت نے چیف ٹریفک آفیسرکو آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ محکمہ موسمیات کی ایڈوائزری کے باوجود متعلقہ محکمے سوئے رہے۔ میڈیا رپورٹس کے بعد جاگے تو قیمتی جانیں جا چکیں تھیں۔ کسی کے خلاف آرڈر ہوا یا نہیں کوئی ایک انفرادی طور پر بتا دیں۔
لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک نئی رپورٹ لے آئے ہیں۔ ایم او پی صاحب رمادا ہوٹل کا کیا بنا۔ اس ہوٹل کے نام پرآپ چپ کیوں ہوگئے۔
ایم او پی نے جواب دیا کہ میری طبیعت خراب ہے قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔
عدالت نے کہا کہ رمادا ہوٹل کا سن کرتمام انتظامیہ خاموش کیوں ہو جاتی ہے۔ ڈی سی اوراے سی نے رپورٹ بھیجی کہ غیر قانونی ہے اس کو گرایا جائے تو کیوں نہیں گرایا گیا۔
عدالت نے وکیل درخواست گزار جلیل اختر عباسی سے پانچ نقاط پرمعاونت مانگ لی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News