ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ غیر آئینی قرار دیتے ہوئے پنجاب کابینہ تحلیل کردی اور پرویز الہیٰ کو وزیراعلیٰ پنجاب قرار دے دیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے چوہدری پرویز الہیٰ کی درخواست منظور کردی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی رولنگ کیس کے فیصلے کا آغاز قرآنی آیات سے کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانونی نکات کے جائزہ میں وقت لگا اور شارٹ آرڈر بھی 11 صفحات پر مشتمل ہے۔
عدالت نے 11 صفحات پرمشتمل فیصلے میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کی رولنگ کوغیرآئینی قراردیتے ہوئے وزارت اعلیٰ کے لیے پی ٹی آئی کے متقفہ امیدوار چوہدری پرویز الہیٰ کی درخواست مںظور کرلی۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے فیصلے میں کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ میں اس عدالت کے شارٹ آرڈر کا حوالہ دیا تھا لہذا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دی جاتی ہے۔
سپریم کورٹ نے مختصر فیصلے میں حمزہ شہباز کے حلف کو بھی کالعدم قرار دیتے ہوئے چوہدری پرویزالہی کو وزیراعلیٰ پنجاب قراردے دیا جب کہ عدالت نے پنجاب کابینہ بھی تحلیل کردی اور چوہدری پرویز الٰہی کا فوراً حلف لینے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے وزارت اعلیٰ کے لیے پی ٹی آئی کے متقفہ امیدوار پرویز الٰہی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا گورنر کو آج رات ساڑھے 11 بجے حلف لینے کا حکم دیا۔
عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ فوری طور پر گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کو پہنچانے کا حکم دیتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر اور چیف سیکرٹری پنجاب کو عدالتی حکم پر عملدرآمد یقینی بنانے کا حکم دیا۔
مختصر فیصلے میں سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ اگر گورنر پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ سے حلف نہ لیں تو صدر پاکستان پرویز الٰہی کا اج رات حلف یقینی بنائیں۔
حکومتی اتحاد کا بائیکاٹ
ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر عدالت میں پیش ہوئے اور حکومتی بائیکاٹ سے متعلق بتایا کہ مجھے کہا گیا ہے عدالتی کارروائی کا مزید حصہ نہیں بنیں گے، ہم فل کورٹ درخواست مسترد کرنے کے حکم کیخلاف نظر ثانی دائر کریں گے۔
اس موقع پر پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے بھی عدالت کو کارروائی کے بائیکاٹ سے آگاہ کردیا جس پر چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے مکالمہ کیا کہ آپ تو کیس کے فریق ہی نہیں، اس کے بعد عدالت نے پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا۔
فل کورٹ بنتا تو معاملہ ستمبرتک چلا جاتا، چیف جسٹس
دورانِ سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے فل کورٹ بنانے کا کوئی قانونی جوازپیش نہیں کیا گیا، عدالت میں صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پرعمل کرنے سے متعلق دلائل دیے گئے، ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایات کون دے سکتا ہے، آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں۔ چوہدری شجاعت کے وکیل نے کہا کہ تمام پارٹی ممبران کو خط بھیجا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس سوال کے جواب کیلئے کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں، اس کیس کو جلد مکمل کرنے کو ترجیح دیں گے، فل کورٹ بنانا کیس کو غیر ضروری التوا کا شکار کرنے کے مترادف ہے، فل کورٹ بنتا تو معاملہ ستمبرتک چلا جاتا کیونکہ عدالتی تعطیلات چل رہی ہیں۔
سپریم کورٹ نے بائیکاٹ کرنے والوں کو ایک بار پھر اپنے فیصلے پر نظرثانی کا آپشن دے دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے ساری صورتحال واضح ہوچکی ہے ، سب نے بہترین دلائل دیے۔
چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمہ کیا کہ عدالت کو پارٹی سربراہ کی ہدایات یا پارلیمانی پارٹی ڈائریکشنزپرمعاونت درکارہے، قانونی سوالات پرمعاونت کریں یا پھرہم اس بینچ سےالگ ہوجائیں، جو دوست مجھے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اپنے کام کوعبادت کا درجہ دیتا ہوں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ میرے دائیں بیٹھے حضرات نے اتفاق رائے سے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا ہے، شکرہے کہ اتنی گریس باقی ہے کہ عدالتی کارروائی سننے کے لیے بیٹھے ہیں۔
علی ظفر کے دلائل
بعد ازاں عدالت نے سماعت میں ڈھائی بجے تک وقفہ کردیا جس کے بعد سماعت پھر شروع ہوئی تو علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف ارکان کے خلاف ایکشن پارٹی سربراہ لے گا، پارٹی سربراہ منحرف ارکان کےخلاف ڈکلیئریشن بھیجتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جمع کرائے تحریری جوابات کو فیصلے کا حصہ بنائیں گے، یہ ایک حساس معاملہ ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں، اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا جائزہ لے لیتے ہیں ، دوسرے فریقین نے بعض عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا تھا۔
جس پر علی ظفر نے کہا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ان پر کچھ گزارشات کرنا چاہوں گا، علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ پارٹی سربراہ کا کردار انتہائی اہم ہے لیکن اسے ووٹنگ دینے، نہ دینے کا اختیار 63 اے میں نہیں دیا گیا ، سپریم کورٹ ایک فیصلے میں طے چکی ہے کہ نااہل شخص پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا، نواز شریف پارٹی سربراہ کیس میں کہیں نہیں کہا کہ ہدایات پارٹی سربراہ دے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نواز شریف پارٹی صدارت کیس میں سپریم کورٹ نے کہا پارٹی سربراہ سیاسی جماعت کو کنٹرول کرتا ہے، ہم اس معاملے کو دیکھیں گے۔
علی ظفر نے کہا کہ پارٹی سربراہ کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں، پارٹی ہیڈ کے اختیارات بلکل ختم نہیں کیے جاسکتے، اس وقت ہم صرف آرٹیکل 63 اے کے تحت پارٹی ہیڈ اختیارات کا جائزہ لے رہے ہیں، پارٹی سربراہ انتظامی معاملات میں مکمل خودمختار اور با اختیار ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارٹی سربراہ منحرف رکن کو معاف بھی کر سکتا ہے، پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کے فیصلوں پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ برطانیہ میں بورس جانسن نے پارلیمنٹری پارٹی کے کہنے پر استعفی دیا، پارٹی سربراہ تحریک عدم اعتماد، منی بل وغیرہ پر اراکین کو اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے قائل کرتا ہے، پارٹی سربراہ ممبران کو ڈکٹیشن نہیں دے سکتا، پارٹی سربراہ رکن پر اثرانداز ہوسکتا ہے لیکن ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حکومت چلانے میں بھی پارٹی سربراہ کا اہم کردار ہوتا ہے، کچھ معاملات میں پارٹی رکن کو پارٹی سربراہ کے ماتحت کیا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عائشہ گلالئی کیس میں بھی قرار پایا کہ فیصلہ کرنا پارلیمانی پارٹی کا اختیار ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل اور سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلے سے قبل کچھ باتیں سامنے رکھے، تین ماہ سے وزیر اعلی پنجاب کا معاملہ زیر بحث تھا، ق لیگ کے تمام ارکان کو علم تھا کہ کس کو ووٹ دینا ہے۔
بائیکاٹ کرنے والوں کے تحریری جوابات کا اوپن کورٹ میں جائزہ
سپریم کورٹ نے بائیکاٹ کرنے والوں کے تحریری جوابات کا اوپن کورٹ میں جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ بائیکاٹ کرنے سے پہلے فریقین تحریری جواب اور تفصیلی دلائل دے چکے تھے۔
عدالت نے ڈپٹی اسپیکر کے جواب کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ بیرسٹر علی ظفر عدالتی حکم پر بائیکاٹ کرنے والوں کے جواب پڑھ کر سنائے۔ جب کہ سوالات کے جوابات بھی علی ظفر نے دیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی سربراہ پارلیمنٹرینز کو کہہ سکتا ہے کہ ووٹ کس کو دینا ہے ، اختیارات پارٹی ہیڈ کے زریعے آتے ہیں، کوئی شعبہ نہیں پارٹی سربراہ کا اہم کردار ہے، لیکن پارلیمانی پارٹی ہیڈ ووٹنگ کیلئے ہدایات جاری کرتا ہے۔
وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ عائشہ گلالئی کیس میں عدالت پارٹی سربراہ کی ہدایات کا طریقہ کار دے چکی ہے، جس پر جسٹس اعجازالااحسن نے کہا کہ عائشہ گلالئی کیس کا فیصلہ تو آپ کے موکل کے خلاف جاتا ہے۔ علی ظفر نے کہا کہ عائشہ گلالئی کیس میرے موکل کے خلاف لیکن آئین کے مطابق ہے، عائشہ گلالئی کیس میں بھی منحرف ہونے کا سوال سامنے آیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا عائشہ گلالئی کیس میں لکھا ہے کہ ہدایت کون دے گا؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ عائشہ گلالئی کیس میں ارکان کو مختلف عہدوں کیلئے نامزد کرنے کا معاملہ تھا، عائشہ گلالئی کیس میں قرار دیا گیا کہ پارٹی سربراہ یا اس کا نامزد نمائندہ نااہلی ریفرنس بھیج سکتا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ عدالت میں پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں فل بینچ اور درخواست مسترد کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر کے جواب میں تاثر دیا کہ پارٹی سربراہ زیادہ اہم ہے، ڈپٹی اسپیکر نے جواب میں رولنگ کی بنیاد الیکشن کمیشن کا حکم قرار دیا ہے ، الیکشن کمیشن آرٹیکل 63 اے سے منافی کوئی فیصلہ نہیں دے سکتا، فریق دفاع نے الیکسن کمیشن کے منحرف ارکان کیخلاف فیصلہ کا حوالہ دیا ہے۔ جس پر علی ظفر نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ میں الیکشن کمیشن فیصلے کا زکر نہیں کیا۔
عدالت نے بائیکاٹ کرنے والوں کے تحریری جوابات پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا۔ تحریری جوابات میں بنیادی سوال کا جواب ہی موجود نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کیا ڈپٹی اسپیکر کا جواب قابل عمل ہے یا نہیں؟ علی ظفر نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے بھی فل کورٹ بنانے کی استدعا کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے یکم جولائی کے حکم پر تمام فریقین کا اتفاق تھا، دونوں فریقین نے اتفاق کیا کہ ضمنی الیکشن کے نتائج کے بعد وزیر اعلیٰ کا رن آف الیکشن ہوا، سپریم کورٹ کے حکم پر 22 جولائی کو وزیر اعلیٰ کا انتخاب کرایا گیا، حمزہ شہباز اور پرویز الٰہی نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب پر کسی خدشے کا اظہار نہیں کیا، اس وقت کسی نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کا حوالہ نہیں دیا، کیا یکم جولائی کا پنجاب اسمبلی میں الیکشن سے متعلق فیصلہ باہمی رضامندی سے تھا۔
سپریم کورٹ کے حکم پر اس وقت کوئی اعتراض نہیں تھا تو اب کیوں؟
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران دونوں فریقین نے رضامندی ظاہر کی تھی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ضمنی انتخابات ہوجانے پر سب نے رضامندی ظاہر کی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اس حکم پر اگر اس وقت کوئی اعتراض نہیں تھا تو اب یہ کیسے اعتراض کرسکتے ہیں۔
بعد ازاں ایڈووکیٹ جنرل کے جواب کا جائزہ لینا شروع کردیا گیا اور ایڈووکیٹ جنرل کا تحریری جواب بھی غیر تسلی بخش قرار دیا گیا۔
عدالت نے کہا کہ حمزہ شہباز نے الیکشن تک نگران وزیر اعلٰی رہنے پر اتفاق کیا، غیر مشروط حمایت اور ضمنی الیکشن کے بعد سب کچھ کیسے واپس کیا جاسکتا ہے، تمام فریقین نے اپنے پارٹی لیڈرز سے مشاورت کے بعد یقین دہانی کرائی تھی ، کیا ڈپٹی اسپیکر کے جواب کے بعد مزید کسی دستاویز کے جائزے کی ضرورت ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق نہیں دی، ڈپٹی اسپیکر الیکشن کمیشن کے فیصلے کا پابند بھی نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کل عدالت میں بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا ، سپریم کورٹ کس قانون کے تحت الیکشن کمیشن کے فیصلوں کی پابند ہے۔ علی ظفر نے جواب دیا کہ کوئی قانون سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن فیصلے کا پابند نہیں بناتا۔
عدالت نے پوچھا کہ کتنے منحرف ارکان نے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا؟ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ 20 میں سے 16 نے (ن) لیگ، دو نے آزاد الیکشن لڑا، جن 18 نے الیکشن لڑا ان میں سے 17 کو شکست ہوئی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا رضامندی دیتے وقت حمزہ شہباز عدالت میں موجود تھے؟ پرویز الہیٰ کے وکیل نے جواب دیا کہ حمزہ شہباز عدالت میں موجود تھے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا معاملہ طے ہو چکا، اب مزید تشریح کی ضرورت ہی نہیں، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بھی آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی کوشش کی ہے، کوشش اچھی ہے لیکن ایڈووکیٹ جنرل کی تشریح درست نہیں اور ایڈووکیٹ جنرل نے جو سوال اٹھائے، ان کا جواب 5 رکنی بینچ دے چکا ہے۔
جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ فریق دفاع کے مطابق منحرف ارکان کے کیس میں ہدایات پارٹی ہیڈ عمران خان نے دی ، فریق دفاع کا کہنا ہے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم ہوا تو 25 ارکان بحال ہو جائے گے ، فریق دفاع کا کہنا ہے اپیل منظور ہونے سے حمزہ کے ووٹ 197 ہوجائے گے تاہم الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے بعد بہت ساری پیشرفت ہو چکی ہے۔
علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ وزارت اعلی کے الیکشن پر ہائیکورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے ، الیکشن کمیشن کا فیصلہ پاسٹ اینڈ کلوز ٹرانزیکشن ہو چکی ہے، یکم جولائی کو سپریم کورٹ نے وزارت اعلی کے الیکشن پر متفقہ فیصلہ دیا۔
عدالت نے کہا کہ ہم نے علی ظفر صاحب کو تفصیل سے سن لیا ہے، پہلے مرحلے میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لیا، دوسرا سوال ہے کہ پارٹی سربراہ کس حد تک پارلیمانی پارٹی پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت مکمل ہوگئی۔ عدالت نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے پونے 6 بجے سنانے کا حکم دے دیا۔
فل کورٹ نہ بنانے کیخلاف نظر ثانی درخواست دائر کریں گے
سپریم کورٹ کے باہر ڈپٹی اسپیکر پنجاب کے وکیل عرفان قادر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ بنا، ہم نے ان سے درخواست کی کہ آپ کے خلاف سب نے آواز بلند کی ہے، ہمارا آئینی حق ہے فل کورٹ نہ بنانے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر کریں گے، نظر ثانی کی اپیل اگر مسترد ہوئی تو پھر فل کورٹ کے سامنے درخواست لگے گی، مجھے امید ہے کہ وہاں مسترد نہیں ہوگی۔
عرفان قادر نے کہا کہ میں بھی جج رہا ہوں اگر کسی کو اعتراض ہوتا تھا تو میں بینچ چھوڑ دیتا تھا، یہ مسلمہ قانون ہے کہ اگر کسی کو اعتراض ہے تو بیںچ تبدیل ہو جاتا ہے، اگر آپ کا کیس ایسے جج کے سامنے ہو جہاں لاکھوں لوگ اعتراض کر رہے ہوں تو ہٹ جانا چاہیے۔
فل کورٹ بینچ بنانے کی درخواست مسترد
گزشتہ سماعت پر تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کچھ دیر کا وقفہ لیا اور پھر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کردی۔
چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہم نے کئی گھنٹے تمام فریقین کو سنا، فریقین نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حوالے دیے، سوال یہ تھا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ قانونی ہے یا نہیں، سوال تھا کیا پارٹی ہیڈ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات دے سکتا ہے یا نہیں جب کہ صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ فیصلہ سنا چکی ہے۔
چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے رولنگ میں پارٹی ہیڈ کے خط کو بنیاد بنایا، مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر دلائل دیے۔
عدالت کا سیاسی بحران اور معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار
سپریم کورٹ نے پچھلے 4 ماہ سے جاری سیاسی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حمزہ شہباز کیس کو زیادہ دنوں تک التواء میں رکھنے سے انکار کردیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملات جلد حل کرنے کی ضرورت ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ایک نئی حکومت سامنے آئی، ہم چاہتے ہیں پارلیمان مضبوط ہو، ایوان میں مضبوط اپوزیشن ہو۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں جاری بحران میں اضافہ ہورہا ہے، کیا آپ بحران میں مزید اضافہ چاہتے ہیں ، آپ چاہتے ہیں ستمبر میں فل کورٹ بنایا جائے، فل کورٹ بنانے کی صورت میں ملکی بحران میں اصافہ ہوگا، سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہو یا غلط لیکن فیصلہ بائنڈنگ ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت عوامی مفاد اور آئینی معاملات کو مزید التواء کا شکار نہیں کرے گی، ملک میں جاری معاشی بحران پر اس عدالت کو خدشات ہیں، کیا اس عدالت کی وجہ سے ملک میں بحران اور انتشار پیدا ہوا۔
سپریم کورٹ نے ملکی معاشی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر شہری کی طرح معیشت کی صورتحال سے ہم بھی پریشان ہیں، کیا معیشت کا یہ حال عدالت کی وجہ سے ہے یا عدم استحکام کی وجہ سے؟ آج زیادہ ووٹ لینے والا باہر اور کم لینے والا وزیراعلی ہے۔
کیس کا پس منظر
خیال رہے کہ 22 جولائی کو وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے سلسلے میں ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے مسلم لیگ (ق) کے اراکین کی جانب سے چوہدری پرویز الہٰی کے حق میں ڈالے گئے 10 ووٹس مسترد کردیے تھے۔
انہوں نے رولنگ دی تھی کہ مذکورہ ووٹ پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے احکامات کی خلاف ورزی ہیں، جس کے نتیجے میں حمزہ شہباز ایک مرتبہ پھر وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے۔
بعد ازاں چوہدری پرویز الہٰی نے مسلم لیگ (ق) کے وکیل عامر سعید راں کے توسط سے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔
مذکورہ درخواست پر 23 جولائی کو سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو پیر تک بطور ٹرسٹی وزیر اعلیٰ کام کرنے کی ہدایت کی تھی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے تاہم عدالت نے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد جاری حکم نامے میں کہا تھا کہ حمزہ شہباز آئین اور قانون کے مطابق کام کریں گے اور بطور وزیر اعلیٰ وہ اختیارات استعمال نہیں کریں گے، جس سے انہیں سیاسی فائدہ ہوگا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
