Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

روس یوکرین تنازع: عالمی غذائی اور توانائی کا بحران

Now Reading:

روس یوکرین تنازع: عالمی غذائی اور توانائی کا بحران

سرد جنگ کے اہداف سوویت یونین اور کمیونزم کے انہدام کے بعد نیٹو کے باقی رہنے کا کیا جواز ہے؟

یورپ یوکرین پرروسی حملے کو دوسری عالمی جنگ کے بعد کی سب سے بڑی کاروائی قرار دے رہا ہے جب کہ  روس اسے محض ایک آپریشن قرار دے رہا ہے۔ روس کی یوکرین کی حکومت سے ناراضگی اس بات پر تھی کہ یوکرین مغرب کے دفاعی اتحاد نیٹو میں شمولیت کا آرزومند تھا۔ نیٹو کا قیام سرد جنگ کے ایام میں عمل میں آیا تھا اور سرد جنگ کمیونزم کے خلاف مختلف محاذوں پر لڑی جا رہی تھی۔ یہ ایک علامتی، غیر علامتی، نفسیاتی، مذہبی،تعلیمی، عملی اور غیر عملی جنگ تھی جس کا بنیادی ہدف سوویت یونین اور دیگر کمیونسٹ ممالک تھے اور نیٹو کا قیام سرد جنگ کے دور کی یادگار تھی، انہی ایام میں سیٹو اور سینٹو جسے دفاعی اتحاد بھی بنے تھے، سنٹو میں پاکستان، ایران، عراق اور ترکی کے ساتھ امریکہ، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ  بھی شامل تھے جب کہ  سیٹو میں پاکستان، تھائی لینڈ اور فلپائن، اسٹریلیا، فرانس، نیوزی لینڈ، برطانیہ اور امریکہ شامل تھے۔ گویا روس اور چین کے گرد حصار قائم کرنے کے لئے مشرق اور مغرب میں سنٹو اور سیٹو کی دیواریں کھڑی کی گئی تھی۔

مغرب کے نیٹو، سیٹو اورسنٹو اتحادوں کے مدمقابل معاہدۂ وارسا کے تحت سوویت یونین اور مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک کا دفاعی اتحاد عمل میں آیا تھا۔ اس دفاعی اتحاد میں روس کے علاوہ پولینڈ، ہنگری، رومانیہ، بلغاریہ، چیکو سلواکیہ، البانیہ اور مشرقی جرمنی شامل تھے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد یکم جولائی 1991 کو معاہدہ وارسا عملاً ختم ہوگیا اور وارسا افواج بھی تحلیل ہو گئیں۔ مگرنیٹونہ صرف اب بھی موجود ہے بلکہ وہ دنیا کے مختلف ممالک میں  عملی فوجی کاروائیاں بھی کرتا رہا ہے۔ کمیونسٹ حکومت کے خاتمےاور بطور نظریہ کمیونزم کی پسپائی کے بعد نیٹو افواج نے ایک نیا نظریاتی دشمن ایجاد کرلیا ہے جسے اسلامی انتہا پسندی کا نام دیا گیا ہے۔ اکیسویں صدی کے نئے ہزاریئے میں افغانستان اور عراق پر امریکہ کی سرکردگی میں اتحادی افواج کی چڑھائی نیٹو کے نئے اہداف تھے۔

اس تناظر میں یوکرین پر روس کا حملہ سمجھ میں آئے گا۔ نیٹو کا اتحاد کمیونزم کے خلاف قائم ہوا تو یوکرین سویت یونین کا حصہ تھا بلکہ سویت یونین کے انقلاب کے ایام میں روس کی غذائی ضروریات یوکرین سے پوری ہورہی تھیں۔ اب جب کہ  کمیونسٹ ریاست کے طورپرسوویت یونین کا انہدام ہوچکا ہے تو نیٹو افواج کن مقاصد کے لئے یوکرین میں اپنے اڈے قائم کرنا چاہتی ہیں؟

اب سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اس جنگ کا دوسرا مرحلہ ’’اسلامی انتہا پسندی‘‘ کے خلاف شروع ہوا۔اس مرحلے میں دواسلامی ممالک افغانستان اور عراق نیٹو کا نشانہ بنے، جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ سرد جنگ نفسیاتی، علامتی، غیر علامتی، مذہبی اور تعلیمی محاذوں پرلڑی جارہی تھی ہم نے اس جنگ کا ایک اور مظاہرہ بہار عرب کے دوران بھی دیکھا جس کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن قہقہوں کے دوران بتارہی تھیں کہ ہم آئے، ہم نے دیکھا اور ہم نے منہدم کردیا۔ بہار عرب میں تیونس سے تبدیلی کی ہوا چلی اور دیکھتے ہی دیکھتے شمالی افریقہ کے کئی ممالک کی جمی جمائی آمرانہ حکومتیں منہدم ہونے لگیں۔ تیونس کے بعد مصر، لیبیا اور یمن میں حکومتیں تحلیل ہوگئیں اسے عوامی فتح تصور کیا جانے لگا حالانکہ اس فتح کی حقیقت ہیلری کلنٹن نے لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی کے سفاکانہ قتل پر کھول دی تھی۔ بہارعرب کو جب شام میں کانٹا چبھا اور وہاں رجیم  چینج کا خواب پورا نہ ہوسکا تو امریکہ کو نئی حکمت عملی کو لانا پڑا۔ شام میں بشارالاسد کا پورے طورپرگھراؤ کیا جاچکا تھا۔ وہاں پر دہشت گردوں کو بھاری رقوم اور دہشت گردی کی تربیت دی جاچکی تھی۔ امریکی اتحادی عرب ممالک دہشت گردوں کو پوری طرح کی سہولتیں فراہم کر رہے تھے ادھر ترکی بھی شام کو آنکھیں دکھا رہا تھا۔ ایسے میں روسی مدد نے شام میں بہار عرب کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔

Advertisement

اب اسی تناظر میں یوکرین کے تنازع کوسمجھنے میں مدد ملے گی۔ یوکرین سابق سویت یونین کا ایک ایساصوبہ تھا جہاں پر ایٹمی ہتھیاروں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ یوکرین کو روس کے بعد سب سے زیادہ طاقتور سوویت (صوبہ) سمجھا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سوویت ایٹمی ہتھیاروں کا ایک تہائی سے زائد حصہ یوکرین میں تھا۔ یوکرین میں ہزاروں ایٹم بم موجود تھے۔ 1994 میں یوکرین نے این پی ٹی پر دستخط کرنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ اس سے قبل ہی امریکی تھنک ٹینک اور سکہ بند دانشور یہ کہنے لگے کہ روس یوکرین پر حملہ کر دے گا۔ یوں مغرب یوکرین سے ایٹمی ہتھیار لے کر اس کے اندر روسی حملے کا خوف پیدا کرنا چاہتا تھا۔ لگ بھگ تیس سال پہلے ایسا ماحول پیدا کیا جارہا تھا کہ یوکرین نہ صرف یورپی بلاک اور یورپی یونین کا حصہ بنے بلکہ وہ مغرب کے دفاعی حصار کو بھی قبول کرے۔ اس پس منظر میں گزشتہ برس امریکی اور اتحادی فوجوں کا افغانستان سے نکلنا خالی ازعلت نہیں تھا۔ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی یوکرین کو ایک ایٹمی ریاست کے طور پرقبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ ایسا کرنے سے یورپ میں برطانیہ اور فرانس کے بعد ایک اور یورپی ملک کو ایٹمی طاقت کا درجہ مل جانے سےیوکرین کو یورپی فیصلہ سازی کے بڑے مراحل میں شامل کرنا ضروری ہوجاتا۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس اس شراکت داری کے لئے قطعی طور پر آمادہ نہیں ہوسکتے تھے۔ اسی لئے یوکرین کو عالمی ایٹمی کلب کا ممبر بنانے سے بھی عمداً اور عملاً گریز کیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ امریکہ اور یورپی ممالک اقتصادی طورپر زبوں حال  اور سماجی،  مذہبی اور نسلی طور پر منقسم ملک بھارت کو ایٹمی قوت کے ساتھ ایک بڑے صنعتی اور معاشی طور پر طاقتورملک بنانے کے لئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لا رہے تھے یورپ اور مغرب ، ایشیا میں ایک متبادل قوت کے طور پر چین اور روس کے مدمقابل بھارت کو آگے لانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا تھے۔ اسی مقصد کی تکمیل مشرق وسطیٰ کے بڑی معیشتوں کے حامل عرب ممالک کو بھی بھارت کا حلقہ بگوش بنانے کا عمل شروع کردیا گیا اور سرد جنگ کے گرم ایام میں مغربی دنیا کا ساتھ دینے والے پاکستان کو غربت، افلاس اور دہشت گردی کے منجھدار میں تنہا چھوڑ دیا گیا۔

مغربی دنیا یوکرین کو اپنے ساتھ رکھنے پر مجبور ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ 1991 میں سویت یونین کے انہدام کے بعد یورپ اپنی غذائی اور توانائی کی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے یوکرین پر تکیہ کرنے پر مجبور ہوتا گیا۔ روس اور یوکرین دنیا بھر میں گندم کے بڑے برآمدکنندگان میں شامل ہیں۔ دنیا میں گندم کے کاروباریا فروخت کی ایک تہائی حصہ ان دونوں ممالک کے پاس ہے۔ یہی دونوں ممالک دنیا میں سورج مکھی کی 55 فیصد برآمدات کرتے ہیں۔ اسی طرح دالوں اور دیگر اجناس کے برآمدکنندہ بھی یہی دونوں ممالک ہیں۔ اس کے علاوہ توانائی کے وسائل تیل اورگیس بھی روس اور یوکرین میں بہت زیادہ مقدارمیں موجود ہیں۔ یورپ کا توانائی کے معاملے میں ایک حد تک یوکرین پرانحصار ہے۔ ان حالات میں مغرب یہ سمجھتا ہے کہ یوکرین اگر یورپی یونین کا حصہ بن کر نیٹو کی چھتری تلے آجاتا ہے توعالمی اقتصادی اور معاشی توازن ہمیشہ مغرب کے پلڑے میں رہے گا۔ دوسری طرف بھارت بھی مغرب کے ایک اتحادی کو طور پر چین، روس اور دیگر نئی غیر مغربی ابھرتی معیشتوں کے لئے ایک چلینج کے طور پر موجود رہے گا۔

اناج کی طرح یوکرین میں توانائی کے بھی وسیع ذخائر موجود ہیں۔ یوکرین کے پاس قدرتی گیس، کوئلہ، پیٹرولیم اور دیگر مائع انرجی کی اشیاء ایٹمی اور قابل تجدید توانائی کے بے پناہ وسائل موجود ہیں۔ چند برس قبل یہ تخمینہ لگایا گیا تھا کہ یوکرین کے پاس قدرتی گیس کے 10 کھرب کیوبک میٹر کے ذخائرموجود ہیں۔ قدرتی گیس پیدا کرنے والے 25 بڑے ممالک میں یوکرین شامل ہے۔ دنیا میں گیس کے جو مجموعی ذخائر موجود ہیں ان کا تخمینہ 54 کھرب کیوبک میٹر ہے۔ اس طرح یوکرین کے پاس تیل کے 3 ارب 95 کروڑبیرل کے مصدقہ ذخائرموجود ہیں۔ دنیا میں تیل کے مجموعی ذخائرکا اندازہ 16 کھرب 50 ارب 58 کروڑ 51 لاکھ 40 ہزار بیرل لگایا  گیا ہے۔ اجناس اور توانائی کے وسائل رکھنے کے معاملے میں یوکرین دنیا کے چند بڑے ممالک میں شامل ہے اور اس کی یہی خصوصیت مغربی دنیا کو للچاتی ہے کہ وہ ایٹمی کلب کا ممبر بنے بغیر اور سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کئے بغیرہی نیٹو کی چھتری کے نیچے آجائے تاکہ طاقت کے توازن میں وہ برطانیہ اور فرانس کے مد مقابل نہ آسکے اور دوسری طرف وہ بھارت سے کمتر حیثیت کا حامل ملک ہی رہے۔ یوکرین پر روس کے حملے نے بھی بھارت کے لئے ہی نئے مواقع پیدا کئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزاعظم نریندرامودی نے امریکی صدر جو بائیڈن کو یہ پیغام بھیجا ہے کہ بھارت یوکرین میں جنگ سے پیدا شدہ غذائی بحران کا مقابلہ کرنے کے لئے دنیا کوغذائی اشیاء بھیجنے کے لئے تیار ہے۔ مودی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بھارت کے پاس اپنی ایک ارب 40 کروڑ آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے وافر مقدار میں اجناس موجود ہیں اور اس کے بعد بھی ہم دنیا کی ضروریات کو پوری کرنے کے لئے کل سے ہی غذائی اسٹاک بھیجنے کے استطاعت رکھتے ہیں۔

جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ روس اور یوکرین دنیا میں گندم فروخت کرنے والے بڑے ممالک ہیں او ریہ دونوں ممالک دنیا کی ایک تہائی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔بھارت غذائی اجناس کے معاملے میں تو ایک بڑا دعویٰ کر رہا ہے مگر توانائی کے وسائل کے معاملے میں بھارت نہ تو اتنا بڑا دعویٰ کرسکتا ہے اور نہ ہی اس کے پاس توانائی کے مطلوبہ ذخائرموجود ہیں۔ ان حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے مواقع پیدا ہونے کی صورت میں پاکستان کی کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں۔ پاکستان میں دنیا کے بیشترممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ قابل کاشت اراضی ہےمگر ہم جاگیرداری کے باعث اپنی وسیع زرعی اراضی سے مطلوبہ ضروریات ہی پوری نہیں کرپار ہے۔  مزید برآں ہم پانی کے وسائل کومناسب طور پر استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ اگر ہم دریاؤں پر ڈیم بنانے کے بجائے ملک بھر میں بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کا انتظام کرتے ہیں تو ہم سینکڑوں مصنوعی جھیلیں یا بارانی ڈیم بنا کر اپنی آبی ضروریات کے لئے بھی وافر پانی محفوظ کر سکتے ہیں۔ ہم زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ اگر آج جاگیرداری اور زرعی اراضی کی اجارہ داری ختم کر کے جدید فارمنگ پر توجہ دیں تو ہم بھی دنیا کی غذائی ضروریات پوری کرنے والے ممالک  کی فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اور دوسری طرف اگر ہم جیونی سے سرکریک تک اپنے وسیع وعریض ساحل کے نزدیک تیل اور گیس کے ذخائر دریافت کریں تو ہم خوشحالی کے ایک نئے دور میں داخل ہوسکتے ہیں۔ ہمارے پاس چونکہ تیل اور گیس کے ذخائر کو دریافت کرنے کی ٹیکنالوجی موجود نہیں ہے اس لئے بھارت سرحدی علاقوں سے ہمارے تیل اورگیس کے وسائل چوری کررہا ہے۔ ملک میں توانائی کے امور کے ایک ماہر انجینئر ارشد عباسی یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ پاکستانی حکام بھارتی سرحد پر اپنے علاقوں مین موجود وسائل سے بے خبر ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ راجھستان کے سرحدی پاکستانی علاقوں کے وسیع پیمانے پر تیل اور گیس کے وسائل بھارت منتقل ہورہے ہیں۔ انہوں نے آج سے چار سال پہلے 2019ء میں یہ انکشاف کیا تھا کہ ہم نے اپنے وسائل کی منتقلی کے معاملے کو اب تک نظر انداز کر رکھا ہے۔ بھارت ان سرحدی علاقوں سے یومیہ دو لاکھ بیرل تیل نکال رہا ہے۔ ان حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ چار برسوں سے ہماری حکومتوں  نے کیوں خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور ہماری تیل و گیس کی کمپنیوں نے کیوں چپ سادھ رکھی ہے۔

ہم ہمیشہ  اپنے داخلی سیاسی اور غیر سیاسی مسائل میں ہی الجھے  رہتے ہیں یا الجھا دیئے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں سے بڑی حد تک لاتعلق رہتے ہیں۔

پاکستان کے لیے دنیا بھر میں بہتر مواقع موجود ہیں۔ ہم اس سنگین بحران کے دنوں میں بھی روس سے سستے تیل کی خریداری کی بات ہی نہیں کر سکے تو دیگر معاملات میں ہماری بے خبری کا کیا عالم ہوتا ہے۔

Advertisement

ہمیں بہرحال ایک بالغ نظر قیادت اور انتظامیہ کی ضرورت ہے جو ہمیں عطا کی گئی قدرتی عنایات کا تخمینہ لگائے اور دنیا کے مختلف  خطوں میں پیدا ہونے والے بحرانوں میں اپنے لیے مواقع تلاش کرے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پہاڑوں میں چھپی ایک مقدس نشانی
بابا گرونانک کا 556 واں جنم دن، بھارتی سکھ یاتریوں کی ننکانہ صاحب آمد
مفتی تقی عثمانی اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر دنیا کے با اثر مسلمانوں کی فہرست میں شامل
27 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے پہلے سینیٹ میں پیش کی جائے، اسحاق ڈار
متنازع ترین نائب امریکی صدر 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
ایشیا کپ میں کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی، آئی سی سی نے سزاؤں کا اعلان کر دیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر