Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

کیا پی پی پی، ایم کیوایم سےکئے گئے وعدے پورے کرے گی؟

Now Reading:

کیا پی پی پی، ایم کیوایم سےکئے گئے وعدے پورے کرے گی؟

’’ایم کیو ایم کو مستقبل میں سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے‘‘

فردوس شمیم نقوی ،پی ٹی آئی رہنما

مستقبل میں ایم کیو ایم کو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان پیپلزپارٹی ( پی پی پی) اس پوزیشن میں ہی نہیں کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیوایم) سے کیے گئے وعدے پورے کرسکے گی۔

پی پی پی کا سب سے بڑا وعدہ گورنرشپ کا ہے اورسپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی تیاری ہے جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔

پی پی پی سیاسی ، انتظامی اور مالیاتی طور پر لوکل گورنمنٹ نہیں چھوڑے گی۔ کراچی پورے سندھ کا 95 فیصد ٹیکس دیتا ہے جو لوکل گورنمنٹ کو جائیں گے اور اس کے بعد پی پی پی ان محصولات کو اپنی جیب میں ڈالے گی۔ پی پی پی نے کراچی کے حقوق اور وسائل سلب کرلیے ہیں جس میں 15 سالہ حکومت اور کرپشن شامل ہے۔

Advertisement

لوکل گورنمنٹ کے تحت کراچی کی زمینوں پر قبضہ ملے گا۔ پہلے ہی بحریہ ٹآون اور بلڈرز سے معاہدے کے بعد خطیر رقم کما چکی ہے۔ ریکارڈ میں محصولات کم دکھائے جاتے ہیں اور اپنی جیبیں بھری جاتی ہیں۔ اگرایماندار لوکل گورنمنٹ آتی ہے تو یہ سب ختم ہوجائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے پی پی پی کسی بھی جماعت کو یہ حق نہیں دینا چاہتی۔

پھر کراچی کے میئر کو کمزور کرنے کے لیے پی پی پی نے شہر کو پہلے ہی 25 ٹاون میں تبدیل کردیاہے۔ اس طرح ضلعی حد بندی اور حدود سے انہوں نے کئی معاملات اپنے حق میں کرلیے ہیں۔ گڈاپ اور ملیر ٹاون اب بھی ان کی مکمل گرفت میں ہیں۔ یہ پہلے سے ان کا منصوبہ ہے اور اگر ایم کیو ایم ناکام ہوتی ہے تو کراچی کو ایک اور صدمہ ہوگا اور اس کی بقیہ ساکھ بھی متاثر ہوگی۔

اس کا واحد حل یہ ہے کہ ایم کیو ایم پی پی پی کی تائید ختم کردے اور پی ڈی ایم سے الگ ہوکر صوبے میں پی پی پی کے ساتھ مزید تعاون سے انکار کردے، توایم کیو ایم کوسازشی قراردیا جاسکتا ہے ۔ جب الطاف حسین کا دور تھا حتیٰ کہ اس وقت بھی تمام جماعتیں ایم کیو ایم کو سازشی اور بیرونی ایجنڈے پر کاربند قرار دیتی تھیں۔

انہیں یعنی ایم کیو ایم کو پاکستان تحریک انصاف چھوڑ کر آخر کیا ملا اور دیگر پارٹیوں سےرابطے سے حاصل کیا ہوا؟  کیا معیشت بحال کرسکے؟ کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد ہوئی ؟ کیا ان کے ہاتھ لوکل گورنمنٹ آگئی؟ آخر ایم کیو ایم کو کیا ملا۔

اب عوام پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں، غلامی سےآزادی اور خود اعتمادی کا عمران خان کا بیانیہ عوامی رائے میں ڈھل چکا ہے۔

کراچی اور حیدرآباد سمیت شہری سندھ کی عوام سمجتے ہیں کہ پی پی پی کراچی دشمن ہے اور یوں پی پی پی کے دوست بھی کراچی کےدشمن ہی قرارپائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مستقبل میں ایم کیو ایم کو اس کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔  2013ء میں ایم کیو ایم پی پی پی کی حامی نہ تھی لیکن اب منظرنامہ بدل چکا ہے۔

Advertisement

’’ان کے ساتھ اس سے قبل بھی کئی معاہدے ہو چکے ہیں جو ابھی تک پورے نہیں ہوئے‘‘

وسیم اختر،رہنما ایم کیو ایم پاکستان

ان سے یعنی پی پی پی سے کئی معاہدے ہوئے تھے جن پر عمل درآمد اب بھی باقی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ ماضی میں بھی پی پی پی کے ساتھ اچھے تجربات نہیں رکھتی۔ ان سے کئے گئے کئی معاہدوں پرعمل درآمد نہ ہوسکا اور اب ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ ایسا ہی ایک معاہدہ ہم نے پی ٹی آئی کے ساتھ بھی کیا تھا لیکن ساڑھے تین برس میں بھی اس پر عمل نہیں ہوسکا۔ انہوں نے کراچی کی 14 سیٹیں ہم سے چرالیں۔ پھر بھی ہم نے سوچا کہ ان کی تائید سے کراچی کے مسائل حل ہوں گے لیکن افسوس ایسا نہیں ہوسکا۔

اب سندھ میں ہمارے پاس پی پی پی اور وفاق میں پاکستان مسلم لیگ نون کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں بچا ہے اور دونوں جماعتیں مین اسٹریم پرہیں۔ ہم نے یہ معاہدہ خلوص سے کیا ہے اور بہتری کی امید رکھتے ہیں۔

تاہم، معاہدے پر اب تک عمل درآمد نہیں ہوا اور اب تک وہ اسے ٹالے جارہے ہیں۔ تاہم یہ محض معاہدہ نہیں بلکہ سپریم کورٹ کا حکم بھی ہے۔ تو انہوں نے اس پرعمل کرنا ہے ورنہ ہم کورٹ بھی جاسکتے ہیں۔

Advertisement

خود میں نے بھی امید نہیں چھوڑی اور پی پی پی کےمثبت اقدام کا منتظر ہوں۔ اگر وہ اس میں ناکام رہتے ہیں تو سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں کا شدید ردِ عمل سامنے آئے گا۔

ہمارے تمام مطالبات عوامی مسائل کے تحت ہی ہیں جن میں صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، پینے کا صاف پانی اور سیوریج سسٹم شامل ہیں۔

پی پی پی سے اہم وعدوہ میں سپریم کورٹ کے احکامات پرعمل درآمد کرانا، 40 اور 60 کا کوٹہ سسٹم اور ملازمت کی فراہمی شامل ہیں۔ اگرایسا ہوتا ہے تو کراچی کا بلدیاتی نظام مضبوط ہوگا، لوکل گورنمنٹ تک وسائل اور اختیارات جائیں گے۔ اس سے اٹھارویں ترمیم کے تحت وفاقی اختیارات صوبائی حکومت تک جاتے ہیں۔  ہم چاہتے ہیں کہ اس پر جلد ہی عمل کیا جائے۔

ہمارے معاہدے کی رو سے یہ بھی لازم ہے کہ پی پی پی جو بھی منصوبہ بنائے وہ ہمیں اس سے آگاہ کرے کیونکہ ہم سندھ اور کراچی کی سب سے بڑی جماعت بھی ہیں۔ میں یہاں پی ٹی آئی کو شمار نہیں کروں گا کیونکہ اس نے  2018 میں ہماری سیٹیں چرائی ہیں۔

میں دونوں حکومتوں سے کہوں گا کہ وہ کراچی اوراس کی عوام پررحم کریں۔ یہ دو بندرگاہوں کا شہر ہے جو سب سے زیادہ محصولات سے پورے ملک کو چلاتا ہے۔ کراچی کے ٹیکس کراچی پر خرچ ہونا ضروری ہیں۔ کراچی مدد چاہتا ہے ورنہ یہ ایک بدحال کچی آبادی میں بدل جائے گا۔

Advertisement

’’یہ وعدوں کا معاملہ نہیں، قانون کو بہتر بنانے کا معاملہ ہے‘‘

تاج حیدر ،سینیئر رہنما پی پی پی

یہ وعدوں کا معاملہ نہیں بلکہ قانون بہتر بنانے کا معاملہ ہے۔

ہم شمولیت پر یقین رکھتے ہوئے کسی کو نکال باہر نہیں کرتے۔ سیاسی جماعت ہو یا کوئی ملک وہ اسی وقت آگے بڑھتا ہے جب وہ مفاہمت کی راہ اختیار کرے ناکہ دوسروں کو نکال باہر کرے کیونکہ اس کا مقصد دوسروں کو نیچا نہ ہوتا ہے۔ ہم ہرایک کا احترام کرتے ہیں۔

ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو ایم کیو ایم اور پی پی پی کےدرمیان معاہدے کا جائزہ لے رہی ہے۔ اس ضمن میں اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔ اگرکسی بات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہوئی تو اسے بدلا جائے گا۔

تو یہ وعدوں کی بات نہیں بلکہ قانون بہتر بنانے کا معاملہ ہے۔ ایم کیو ایم نے بہتر قانون سازی کے لیے بعض تجاویز دی ہیں جس پر مرتضیٰ وہاب کام کررہے ہیں۔ اگر کوئی بات سمجھ نہیں آتی تو ہم اب بھی ان سے رابطہ کریں گے۔

Advertisement

ہم شخصیات پر بات نہیں کرتے بلکہ پالیسیوں پر گفتگو کرتے ہیں۔ کئی مقامات پر پی پی پی اور ایم کیو ایم یکساں سوچ رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان میں مذہبی شدت پسندی، ایسی شے ہے جس کے خلاف دونوں جماعتیں یکجا ہیں۔

اگرچہ ماضی میں عسکریت پسندی رہی تو ہم کئی محاذ پر ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں اور کئی معاملات پر دونوں جماعتیں ایک ہی پیج پرہیں۔ میں خود ایم کیو ایم کے مرکزگیا اورمردم شماری میں کم گنتی پرگفتگو کی ۔ اب ہم اس پرایک مشترکہ مفاہمت پرپہنچ چکے ہیں اور دونوں نے ساتھ آگے بڑھنے کا منصوبہ بنایاہے۔

پھر دونوں جماعتیں قومی نوعیت کے مسائل پر ساتھ کام کریں گی جن میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات، تازہ مردم شماری اور سب سے بڑھ کر معیشت ہے جو ہرشے کی بنیاد ہے۔ معیشت متاثر ہونے سے سب کچھ ختم ہوسکتا ہے تو ہمیں مل کر معیشت کو ترقی دینا ہے۔ اس ضمن میں میں نے سینٹ میں بھی بات کی ہے۔ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا کوئی حل نہ ہوگا۔

اس کا حل قدرےسہل ہے۔ ہم توانائی کے شعبے پر کام کررہے ہیں، اس کے ساتھ صنعت، زراعت ، مواصلات اور ماحول پر کام ہورہا ہے۔ اگرکوئی کسی مسئلے کا حل پیش کرے توعدم اتفاق کے باوجود بھی اس کا احترام ضروری ہوتا ہے۔ ہم تمام سیاسی جماعتوں کے خیالات قبول کرتے ہیں اور یہی وہ راہ ہے جس سےقوم تقسیم کی بجائے یکجا ہوسکتی ہے۔

ہم سے میڈیا پوچھتا ہے کہ کیا ہم ایم کیو ایم کو ساتھ لے کر چلیں گے تو اس کا جواب اثبات میں ہے کیونکہ ہمارے دروازے کھلے ہیں۔ اگر وہ اپوزیشن میں رہنا چاہتی ہے تو تب بھی مسائل پر تبادلہ خیال جاری رہے گا۔

نوے کی دہائی میں ایم کیوایم کے دو گروپ یا گروہ تھے ایک سیاسی اور دوسرا عسکری اور دونوں کے درمیان تنازعات تھے۔ اس وقت بھی میں ان لوگوں میں سے ہوں جب ان سے بات کی گئی لیکن ہم عسکری گروہ کے خلاف تھے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پاک افغان بارڈر پر مادر وطن کے شہید 12 جوانوں کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی
پاکستان اور روس کا تیل، گیس و معدنیات کے شعبے میں شراکت داری بڑھانے پر اتفاق
شرم الشیخ، وزیراعظم شہباز شریف کی عالمی رہنماؤں سے اہم ملاقاتیں، فلسطین سے یکجہتی کا اعادہ
انکم ٹیکس ریٹرن کی تاریخ میں توسیع کی جائے، ایف پی سی سی آئی کا مطالبہ
شرم الشیخ، وزیر اعظم اور صدر محمود عباس کی ملاقات، فلسطینی عوام کو خراج تحسین
لاہور ٹیسٹ دوسرا دن، جنوبی افریقا کے پہلی اننگ میں 6 وکٹوں پر 216 رنز
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر