 
                                                                              پاکستان ٹیم مینجمنٹ ورلڈ کپ سے چند ماہ قبل ایک فکرمندانہ طرز پر کھیل رہی ہے
پاکستان کرکٹ ٹیم وائٹ بال کرکٹ میں پاور ہاؤس بنی ہوئی ہے قومی ٹیم نے 1992 میں ورلڈ کپ جیتا، ء2017 میں چیمپئنز ٹرافی جیتی، 1999ء کے میگا ایونٹ کے فائنل میں جگہ حاصل کی اور سیمی فائنل بھی کھیلا۔ جبکہ کئی میگا ایونٹس میں بھی شامل رہے۔
ون ڈے فارمیٹ میں قومی ٹیم نے کئی شاندار ریکارڈ بنائیں ہیں اور انہی کامیابیوں کے تعقب میں وہ کئی بار مشکل سے بھی گزرے، جن میں سے ایک مصباح الحق کی کپتانی کے دوران آیا جب ایک یقینی خدشہ تھا کہ ٹیم زمبابوے جیسی ٹیموں کے خلاف بھی ہار جائے گی۔
اس وقت جن وجوہات کی نشاندہی کی گئی ان میں سے ایک ٹیم سلیکشن میں مستقل مزاجی کا فقدان تھا۔ جہاں کھلاڑیوں کو کئی بار ایک کھلاڑی کو دوسرے سے بدلا اور تبدیل کیا گیا، اس طرح ٹیم میں اتحاد اور اتفاق بہترانداز میں قائم نہیں ہوا۔
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کپتان بابر اعظم اور کوچ ثقلین مشتاق کی قیادت میں موجودہ ٹیم مینجمنٹ نے ان تاریک دور سے کچھ نہیں سیکھا اور وہ بھی اسی طرز پر چل رہے ہیں۔
قومی ٹیم نے منگل کو روٹرڈیم میں نیدرلینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز کا پہلا میچ کھیلا تھا ۔
قومی ٹیم کی جانب سے آل راؤنڈر آغا سلمان اور فاسٹ بولر نسیم شاہ نے ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میں ڈیبیو کیا۔ دونوں کھلاڑیوں نے ون ڈے کے فارمیٹ میں ڈیبیو کرنے سے پہلے ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی بہترین نمائندگی کی تھی۔
دونوں کھلاڑیوں نے کافی اچھی آؤٹنگ کی اس میچ میں نسیم شاہ نے تین وکٹیں حاصل کیں اور آغا سلمان نے 16 گیندوں پر 27 رنز بنائے ۔
نوجوان ٹیلنٹ کو موقع دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، خاص طور پر جب مخالف ٹیم تھوڑی کمزور ہو لیکن کیا کسی اور نوجوان کھلاڑی کی قیمت پر ایسا کرنا قابل قبول ہے؟
پاکستان کرکٹ میں کئی بار حیرانی کا عنصر دیکھنے میں آیا ہے۔ 2019ء سے پاکستان نے ون ڈے کرکٹ میں 13 مختلف کھلاڑیوں کو کھیلنے کا موقع دیا ہے جنہوں نے آج تک ملک کے لیے پانچ میچز بھی نہیں کھیلے۔
مجموعی طور پر 25 کھلاڑی ایسے ہیں جنہوں نے 10 میچ بھی نہیں کھیلے ہیں، انہیں تین سال سے زیادہ عرصے تک آزمایا بھی نہیں گیا
ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم گراؤنڈ میں پاکستان کی آخری ون ڈے سیریز میں قومی ٹیم نے وکٹ کیپر اور بلے باز محمد حارث کو ڈیبیو کیا۔
پی ایس ایل فرنچائز پشاور زلمی کے وکٹ کیپر تاہم اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے اور دو اننگز میں صرف چھ رنز بنائے۔ اس کے بعد انہیں نیدرلینڈ کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹیم میں شامل کیا گیا لیکن پہلے میچ میں انہیں کھیلنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
محمد حارث کو ڈیبیو میں محمد رضوان نے کیپ پیش کیا، جو خود نوجوان کو انتہائی ضروری اعتماد فراہم کرنے کے خواہاں تھے۔
اس سے پہلے ہونے والی سیریز میں، افتخار احمد نے نومبر 2020ء کے بعد پہلی بار ہوم گراؤنڈ پر آسٹریلیا کا سامنا کرنے کے لیے ون ڈے ٹیم میں منتخب کیا گیا۔
انہوں نے دو اننگز میں بیٹنگ کی اور مجموعی طور پر 10 رنز بنائے جس میں ایک ناٹ آؤٹ اسکور بھی شامل ہے۔ اس کے بعد انہیں آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے کے لیے ٹیم میں نہیں لیا گیا۔ پچھلے سات سالوں میں 2015ء میں اپنا ون ڈے ڈیبیو کرنے کے بعد سے افتخار نے ملک کے لیے صرف 10 میچ کھیلے ہیں۔
مڈل آرڈر بلے باز سعود شکیل ایک اور کھلاڑی ہیں جنہیں آسٹریلیا کے خلاف دو میچوں میں کھیلی جانے والی تاریخی ہوم سیریز کے لیے منتخب کیا گیا تھا، انہوں نے اس سیریز کے دو میچز میں صرف ایک میں بیٹنگ کی تھی۔
اس کے بعد انہیں ٹیم سے باہر کردیا گیا اور ہالینڈ کے خلاف انتخاب کے لیے غور نہیں کیا گیا۔ گزشتہ سال انگلینڈ کے خلاف ڈیبیو کرنے کے بعد سے وہ پاکستان کے لیے صرف پانچ ون ڈے میچوں کا حصہ رہے ہیں۔
کراچی میں پیدا ہونے والے اس بلے باز سعود شکیل کو اب ملک کے لیے ٹیسٹ ڈیبیو کرنا ہے۔ انہیں پاکستان شاہینز کا کپتان نامزد کیا گیا انہوں نے لاہور میں ایک پریکٹس میچ کے لیے پاکستان کے ون ڈے اسکواڈ کے ٹیم کی قیادت کی۔
پچھلے سال پاکستان نے مڈل آرڈر بلے باز صہیب مقصود کو تقریباً چھ سالوں میں پہلی بار ون ڈے اسکواڈ میں واپس لیا۔
انگلینڈ کے خلاف انہوں نے تین میچوں میں صرف ایک رنز بنائے جس کے بعد انہیں منتخب نہیں کیا گیا۔
حیدر علی اور دانش عزیز بھی اسی سلوک کا شکار ہوئے ہیں۔ انہیں بالترتیب 2020ء اور 2021ء میں دو دو میچوں میں شامل کیا گیا۔
2020ء میں فاسٹ بولر محمد موسیٰ خان نے بھی پاکستان کے لیے اپنا ون ڈے ڈیبیو کیا۔ انہیں بھی زمبابوے کے خلاف صرف دو میچوں کے بعد ڈراپ کر دیا گیا تھا۔
ایک سال پہلے سعد علی، شان مسعود اور عابد علی نے قومی ٹیم کے لیے ون ڈے ڈیبیو کیا تھا۔
یہ تینوں انگلینڈ میں ہونے والے ورلڈ کپ سے قبل متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا کا مقابلہ کرنے والے قومی اسکواڈ کا حصہ تھے۔
شان مسعود بہترین کھلاڑیوں کے فہرست اے میں دوسرے نمبر پر ہیں انہوں نے صرف پانچ ون ڈے میں کم از کم 100 رنز کی اننگز کھیلی۔
انہیں بھی نیدرلینڈ کے خلاف سیریز میں نظر انداز کیا گیا تھا۔ عابد علی نے چھ میچ کھیلے، جبکہ سعد صرف دو میچ میں نظر آئے ان دونوں کو بھی ون ڈے میں دوبارہ کبھی نہیں کھلایا گیا۔
بائیں ہاتھ کے بلے باز حسین طلعت نے بھی اپنا ون ڈے ڈیبیو 2019ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف کیا تھا۔ جس کے بعد سے انہیں بھی کسی دوسرے ون ڈے میں شامل نہیں کیا گیا۔
بولنگ کے شعبے میں شاہنواز دہانی زیادہ اسکواڈ کا حصہ رہے ہیں انہوں نے ملک کے لیے میچ کھیلنے سے زیادہ کیک کاٹے ہیں۔
24 سالہ نوجوان شاہنواز دہانی نے ملتان میں صرف ایک میچ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اچھی بولنگز کی تھی، دہانی اب تک پاکستان کے لیے دو ٹی ٹوئنٹی کا حصہ بھی رہ چکے ہیں۔
لیگ اسپن باؤلر زاہد محمود نے اس سال کے شروع میں آسٹریلیا کے خلاف تین ون ڈے کھیلے لیکن ویسٹ انڈیز کے خلاف انہیں موقع نہیں دیا گیا ۔
دوسرے لیگ اسپنر عثمان قادر نے اپنا ڈیبیو 2021ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف کیا تھا اور انہوں نے آج تک ون ڈے کا دوسرا میچ نہیں کھیلا ہے۔ تاہم انہیں متحدہ عرب امارات میں ایشیا کپ کے لیے پاکستان کے اسکواڈ کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔
پاکستان کرکٹ میں نئے کھلاڑیوں کو آزمانے کا رجحان نیا نہیں ہے۔ پچھلی دہائی کے دوران اس قسم کے بے شمار کیسز سامنے آئے ہیں اور کئی کھلاڑیوں نے سلیکٹرز اور کوچز سے ناروا سلوک کی شکایت کی ہے۔
اس طرح کی چیزیں کسی ایسے شخص کے اعتماد کو آسانی سے توڑ سکتی ہیں جو سینئر ٹیم تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔
نہ صرف ون ڈے کرکٹ میں، بلکہ ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی میں بھی کھلاڑیوں کو ایک بار موقع ملنے اور بعد میں کبھی واپس نہ بلانے کی کافی مثالیں موجود ہیں۔ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں چند اچھی پرفارمنس کی بنیاد پر کسی کھلاڑی کا انتخاب کرنا کافی آسان ہے، لیکن کھلاڑیوں کے انتخاب میں انصاف کرنا بھی ایک اہم چیز ہے۔
دوسری جانب اگر آپ کسی خاص کھلاڑی کا انتخاب سخت کر رہے ہیں، تو یقینی بنائیں کہ اسکواڈ سے ڈراپ کرنے سے پہلے اسے اپنی قابلیت ثابت کرنے کا ایک موقع دیا جائے۔
ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ کھلاڑیوں کو ایک مخصوص سیریز کے لیے اسکواڈ میں منتخب کیا جاتا ہے اور پھر اگلی سیریز کے لیے بغیر کھیل کے ڈراپ کر دیا جاتا ہے۔
یہ نظیر بھی کافی عرصے سے موجود ہے اور پچھلے دو سالوں میں غالب ہے، اس کی بڑی وجہ عالمی وبا کورونا پابندیوں کی وجہ سے جہاں سلیکٹرز کو بڑے اسکواڈز چننے کی ترغیب دی گئی تھی۔
مستقل مزاجی کھلاڑی ہمیشہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جنہیں باقاعدگی سے رنز بنانے یا اہم وقفوں پر وکٹیں حاصل کرنے کے لیے مناسب طریقے سے حمایت حاصل ہوتی ہے۔
اگر کوئی کھلاڑی اگلے میچ میں اپنی پوزیشن کے بارے میں زیادہ فکر مند ہے اور جس میچ میں وہ شامل ہے اس پر صحیح طریقے سے توجہ نہیں دے رہا ہے، تو وہ کبھی بھی اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کر سکے گا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹیم کے انتخاب کے ساتھ میوزیکل چیئرز کا یہ خاص کھیل ختم ہو گیا اور اس کی طرف مزید ترقی پسندانہ انداز اپنایا گیا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
 
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                 