کچھ کے لیے یہ ’ضرورت‘ہے، دوسروں کے لیے ـ’اداسی‘ کا سبب ہے۔
یوکرین پرروسی افواج کے سرپرائز حملے کے چھ ماہ بعد یہ تنازع روزانہ فضائی حملوں اور لڑائیوں کی مہم میں تبدیل ہو گیا ہے جس کا کوئی واضح انجام نظر نہیں آرہا ہے۔
ملک کا بیشتر مشرقی اور جنوبی حصہ روس کے کنٹرول میں ہے، جس سے یوکرین کو بحیرہ اسود کی بندرگاہوں سے محروم کر دیا گیا ہے، جو اناج کی برآمدات کے لیے اہم ہیں، جو اس کی معیشت کی جان ہے۔
روس بھی مغربی پابندیوں کی زد میں ہے، چنانچہ صدر ولادیمیر پیوٹن سے کچھ لوگوں کو توقع ہے کہ وہ کسی بھی وقت جلد ہی یوکرین میں سست لیکن مستحکم مداخلت کو ختم کر تے ہوئے ان کے زیر قبضہ علاقوں کو چھوڑ دیںگے۔
یہ کب تک جاری رہ سکتا ہے؟
دونوں فریقین کا جانی اور مالی نقصانات کا سلسلہ جاری ہے، لیکن کوئی بھی جنگ بندی پر تیار نظر نہیں آرہا۔
یوکرین کے باشندوں کا خیال ہے کہ وہ قومیت کے دفاع کے لیے اپنے تشخص کی لڑائی لڑ رہے ہیں جسے پیوٹن نے ایک تاریخی غلط فہمی کے طور پر مسترد کر دیا ہے۔
ماسکو میں مقیم سیاسی تجزیہ کار کونسٹنٹین کلاچیف نے کہا کہ ایسے حالات میں کوئی بھی جیت نہیں سکتا۔ یہ ‘خصوصی فوجی آپریشن برسوں تک جاری رہ سکتا ہے۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ روس انہیں شکست دے کر جیتنے کی امید کر رہا ہے، وقت یوکرین کے حق میں نہیں ہے، اور اس کی معیشت تباہ ہوسکتی ہے۔
یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز کی ڈائریکٹر میری ڈومولن نے کہا کہ مغربی اتحادیوں کی بھرپور حمایت دونوں فریقین کے لیے اب پیچھے ہٹنا مشکل بنا دے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہر فریق سمجھتا ہے کہ وہ اب بھی فوجی فائدہ اٹھا سکتا ہے، اس لیے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ یہ جنگ جلد ختم ہو جائے۔
شکست کی کسی بھی تجویز کو ناقابل قبول قرار دینے والے پیوٹن نے اس تنازع کو روس کی توسیع پسندی کے خلاف نیٹو کی مزاحمت کے حصے کے طور پر بھی تیار کیا ہے۔
وہ اوڈیسا کی کلیدی بندرگاہ کی طرف دھکیل کر ملک کو مؤثر طریقے سے لینڈ لاک کر کے اور اس کی برآمدات کا گلا گھونٹ کر یوکرین کو یورپی یونین سے انضمام کی خواہش کے قریب تر ہونے کی سزا دے سکتا ہے۔
اس دوران یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی حکمت عملی سے مزید کامیابی حاصل کر سکتے ہیں، جیسا کہ اپریل میں ماسکو میزائل کروزر کا ڈوبنا، یا ممکنہ طور پر کچھ علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے جوابی کارروائی کی کوشش بھی کر سکتے ہیں۔
میری ڈومولین نے کہا کہ اس سے وہ یوکرین کے فوجیوں اور معاشرے کی حوصلہ افزائی اور یورپی شراکت داروں سے مزید امداد کے لیے اپنی درخواستوں کا جواز پیش کر سکیں گے۔
کیا یوکرین مزاحمت کو جاری رکھ سکتا ہے؟
جبیورپ اور امریکہ کے ملٹری ہارڈویئر اور انٹیلی جنس ڈیٹا نے یوکرائنی افواج کو دونباس اور بحیرہ اسود کے ساحل پر روسی افواج کی رفتار کو کم کرنے میں مدد دی ہے ، لیکن روک نہیں سکے۔
لیکن اس سے روس کو اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے میں مدد مل رہی ہے، جس نے روس کے ساتھ الحاق کے بعد سے گزشتہ آٹھ سال سے جزیرہ نما کریمیا میں اپنی فوجی موجودگی پہلے ہی قائم کر رکھی ہے۔
اور اب تک ولادیمیر زیلنسکی کی مزید جدید اور طاقتور ہتھیاروں کی درخواستیں ناکام رہی ہیں۔
پیرس میں فرانسیسی انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے ایک ریسرچ فیلو دیمتری مینک نے کہاکہ یوکرین کے عوام اب تک متحد ہیں اور حکومت کی حمایت کرتے ہیں، لیکن یہ استحکام اس خیال پر انحصار کرتا ہے کہ مغرب اس جنگ میں یوکرین کی مدد کررہا ہے۔
سرد موسم کی آمد یوکرین کے لوگوں کے عزم کی بھی آزمائش ہوگیکہ جب انہیں ایندھن کی قلت، بجلی یا حرارتی نظام میں کٹوتی اور دیگر مشکلات کا سامنا ہوگا، خاص طور پر اگر لڑائی کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا جائے۔
ڈومولین نے نشاندہی کی کہ ستمبر میں کلاسز دوبارہ شروع ہونے پر یوکرین کے 40 فیصد اسکول بند رہیں گے، جس سے بہت زیادہ نفسیاتی نقصان ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے سردیوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت پر بہت کچھ منحصر ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو اگلی صفوں کے پیچھے ہیں، یہ مشکل ہو گا۔
کیا روس کی معیشت کو روکا جائے گا؟
یوکرین کی مزاحمت کی صلاحیت کے بارے میں غلط اندازہ لگانے کے باوجود روس ایک طویل جنگ کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتا ہے۔
یوکرین کے اتحادیوں نے روس کی تیل اور گیس کی فروخت جس پر وہ انحصار کرتا ہے، کو روک کر اس کی معیشت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی، جب کہ اس کی درآمدات کو محدود کرنے کیلئے اس پر پابندیاں عائد کیں اور بہت سی مغربی کمپنیوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
تاہم میکرو ایڈوائزری کنسلٹنسی کے روس کے تجزیہ کار کرس ویفر نے کہا کہ زیادہ تر تیل، گیس، کوئلہ اور دیگر اشیاء کی برآمدات نہ صرف برقرار رہی ہیں بلکہ توقعات سے بھی تجاوز کر گئی ہیں۔
کریمیا پر قبضے کے بعد سے عام روسی پہلے ہی پابندیوں کو برداشت کر رہے ہیں جبکہ حکومت کو جلد ہی ترکی یا ایشیا سے صنعتی اجزاء اور دیگر مواد کے نئے ذرائع مل گئے۔
کرس ویفر نے کہا کہ معیشت، صنعت اور لوگوں کو پابندیوں کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کے لیے آٹھ سال لگے ہیں جبکہ آج ملک اور لوگ بنیادی سطح پر ہونے کے باوجود بہتر طور پر تیار اور زیادہ خود کفیل ہیں۔
تاہم، پابندیوں کا مکمل اثر آنے والے برسوں میں سخت ہونا شروع ہو سکتا ہے، کیونکہ روس سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے فنڈز کا رخ جنگی کوششوں کی طرف موڑ دیتا ہے،جس سے غیر ملکی کمپنیاںمحتاط رہتی ہیں۔
کونسٹنٹین کلاچیف نے کہا کہ ہم تقریباً پانچ برس میں مکمل اثر محسوس کرنے جا رہے ہیںْ۔
اس کے ممکنہ نتائج کیا ہیں؟
اگر تنازع سردیوں اور 2023 تک جاری رہتا ہے، تو اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آیا مغرب کی حمایت برقرار رہے گی، خاص طور پر اگر رائے دہندگان اس کی قیمت محسوس کرتے ہیں ، نہ صرف ایندھن اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ بہت زیادہ ہو رہا ہے۔
ڈومولین نے کہا،کہ شاید ایک ایسا موقع آئے گا جب پیوٹن مغربی تھکاوٹ کو محسوس کریں گے اور بات چیت کے کچھ مواقع پیش کریں گے، تاکہ مغربی رہنماؤں کو روس کی شرائط پر تنازع کو ختم کرنے کے لیے یوکرین پر دباؤ ڈالنے کے لیے راضی کیا جائے۔
یہ حساب کتاب کی ایک تباہ کن فوجی غلطی ہوگی، یوکرین کی فوج کے مکمل طور پر گرنے کا امکان نہیں ہے، اور کچھ لوگوں کو توقع ہے کہ زیلنسکی کسی بھی ایسے مذاکرات کو قبول کر لیں گے، جس میں یوکرین کو کریمیا سمیت تمام کھوئے ہوئے علاقے کی بازیابی نظر نہ آئے۔
اور اگر اس کے اتحادی امداد اور ہتھیار فراہم کرتے رہے تو روس کی فوجی برتری مسلسل کم ہو سکتی ہے۔
اس سے پیوٹن کی اندرون ملک عوامی حمایت کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، جو مارچ 2024 میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل اپوزیشن قوتوں کو ممکنہ طور پر متحرک کر سکتی ہے۔
دیمیتری مینک نے کہا کہ کریملن اور سول سوسائٹی کے درمیان جو چیز باقی رہ گئی ہے، وہ جنگ، مارشل لاء، یا عوام کی تحریک کا اعلان ہے۔
اس کا انتظام ماسکو یا سینٹ پیٹرزبرگ جیسے بڑے شہروں میں کرنا مشکل ہو گا، جہاں مغرب مخالف جنونی بیانیہ کی گرفت کم ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News