Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

کیا پاکستان چیلنج کے لیے تیار ہے؟

Now Reading:

کیا پاکستان چیلنج کے لیے تیار ہے؟

دونوں روایتی حریف ایک ہفتے کے عرصے میں ایک بار پھر آمنے سامنے

گزشتہ اتوار کو دبئی انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں ایشیا کپ میں پاک بھارت ٹاکرے کی وجہ سے دونوں ممالک کے شائقین شدید دباؤ میں تھے۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ اتوار بھی زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔ پاکستان ہانگ کانگ کو شکست دینے میں کامیاب رہا جس کی کارکردگی ایشیا کپ میں حوصلہ افزا رہی ہے۔ پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ اوورز میں 2 وکٹ کے نقصان پر 192 رنز بنائے اور یہ ہدف نئی ٹیم کے لیے بہت زیادہ ثابت ہوا۔

یہ ایک سنسنی خیز دن تھا جب روایتی حریف پچھلے ہفتے مدمقابل ہوئے، اگرچہ بھارتی ٹیم نے پاکستانی ٹیم سے بہتر کھیل پیش کیا لیکن قومی ٹیم کے بولرز نے بہترین کوشش کرکے سب کو متاثر کیا۔

7 بار ایشیا کپ کی فاتح ٹیم پاکستان کی بیٹنگ لائن کا مقابلہ کرنے کے لیے بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں اتری اور بھارتی کپتان روہت شرما نے مخالف ٹیم کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی تو بھارتی بولرز نے شارٹ پچ ڈیلیوریز اور باؤنسرز سے انہیں خوب پریشان کیا۔

Advertisement

بھارتی ٹیم نے پاکستان کو 147 رنز تک محدود کیا۔ ہدف کے تعاقب میں ایک مشکل وکٹ پر بھارتی بلے باز بھی نسیم شاہ کے ہمراہ دیگر بولرز کے خلاف جدوجہد کرتے نظر آئے اور 14 اعشاریہ 2 اوورز میں صرف 89 رنز ہی بناسکے تھے اس دوران انہوں نے 4 وکٹیں بھی گنوائیں۔ تاہم 3 وکٹیں حاصل کرنے والے ہاردک پانڈیا نے 17 گیندوں پر 33 قیمتی رنز بنائے جو دونوں ٹیموں کے درمیان واضح فرق ثابت ہوئے۔

پاکستان اور بھارت کا ایک ہفتے کے عرصے میں 2 بار مدمقابل ہونے کا منظر شاذ ونادر ہی دکھائی دیتا ہے۔ عام طور پر روایتی حریف ایک یا دو سال میں ایک بار کسی بڑے ایونٹ میں مدمقابل ہوتے ہیں جہاں زیادہ تر ان کا ایک ہی میچ میں آمنا سامنا ہوتا ہے۔

اور اگلی بار جب بھی وہ مدمقابل ہوتے ہیں تو اس وقت مختلف کھلاڑی، مختلف حالات اور مختلف منظرنامہ ہوتا ہے لیکن اب وہ ایک ہی جیسے کھلاڑیوں، ایک جیسے حالات میں بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ مدمقابل ہوں گے۔

تو آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ پاکستان کے پاس آخری میچ میں کیا کمی تھی اور وہ اسے کیسے پورا کر سکتے ہیں۔

سست اور مستحکم اوپنرز

اس پر کافی بحث ہوچکی ہے کہ جو پاکستان کی طاقت ہے، وہی ان کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہے۔ بابراعظم اور محمد رضوان کی شاندار اوپننگ جوڑی زیادہ تر رنز بناتی ہے لیکن مسئلہ ان کے اسٹرائیک ریٹ کا ہے۔ آخری میچ میں بابراعظم جلدی آؤٹ ہوگئے اور محمد رضوان نے اپنے انداز میں ہی بیٹنگ جاری رکھتے ہوئے 42 گیندوں پر 43 رنز بنائے جو ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کے حساب سے نہیں تھے۔

Advertisement

ہانگ کانگ کے خلاف بھی ایسا ہی دکھائی دیا جہاں بابراعظم 9 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوگئے جس کے بعد رضوان اور فخر زمان اوور میں 6 کے رن ریٹ سے اسکور کرتے رہے۔ اگرچہ اننگز کے آخری حصے میں انہوں نے جارحانہ بلے بازی سے رن ریٹ ریکور کرلیا لیکن وہ زیادہ تجربہ کار اور بہتر بولنگ اٹیک کے خلاف یہی رویہ اختیار نہیں کرسکتے۔ ایسا نہیں ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کے یہ دونوں سرفہرست بلے باز جارحانہ انداز میں بیٹنگ نہیں کرسکتے، وہ ماضی میں بھی ایسا کرچکے ہیں اور وہ آج رات کے میچ میں بھی کرسکتے ہیں۔

انہیں شاید ہانگ کانگ کے میچ سے ایک اشارہ ملا ہے، انہوں نے بھارتی بولنگ لائن کو بے نقاب کرکے پاکستان پر احسان کیا اور انہیں بتایا کہ حریف بولنگ لائن اتنی مضبوط نہیں ہے جتنی دکھتی ہے۔

ارشدیپ سنگھ اور اویش خان ناتجربہ کار ہیں اور ان پر دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔ انہوں نے ایسوسی ایٹ سائیڈ کے خلاف اپنے 4 اوورز میں بالترتیب 44 اور 53 رنز دیے۔ پاکستان کے تمام اوپنرز کو رسک لینے اور مخالف بولرز کے منصوبوں کو جانچتے ہوئے کچھ باؤنڈریز لگاکر انہیں دباؤ میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

فخر زمان کی اہمیت

فخر زمان پاکستان کی موجودہ ٹیم میں سب سے زیادہ دھماکہ خیز بلے باز ہیں اور وہ واحد ایسا کھلاڑی ہے جو 3 سے 4 اوورز میں میچ کو مخالف ٹیم سے دور لے جاسکتا ہے۔ اکثر بڑے میچ کے کھلاڑی کے طور پر شمار کیے جانے والے فخر زمان حالیہ دنوں میں متاثر کن کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔ البتہ وہ ہانگ کانگ کے خلاف اچھی اننگز کھیلنے میں کامیاب رہے جہاں انہوں نے اننگز کا آغاز سست روی سے کیا لیکن 42 گیندوں پر 53 رنز بنانے کر آؤٹ ہوئے، لیکن مستقبل میں بھی بالکل ایسا ہی کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

فخرزمان کو آج کے میچ میں کارکردگی دکھا کر اپنی وکٹ کی اہمیت جاننے کی ضرورت ہے کیونکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ اگر فخر زمان کھیلتا رہا تو پاکستان اچھی پوزیشن میں ہوگا۔

Advertisement

مڈل آرڈر کا معمہ

پاکستان کا مڈل آرڈر کمزور ہے۔ میچ میں ان کے کردار کے بارے میں بحث ہوتی ہے کہ انہیں بہت کم گیندیں کھیلنے کا موقع ملتا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ ان میں کھیل کو سمجھنے اور اس کے مطابق کھیلنے کی صلاحیت کی کمی ہے۔

فی الحال، 2009 کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی چیمپئنز کے پاس ٹیم میں محمد حفیظ اور شعیب ملک جیسے تجربہ کار کھلاڑیوں کی کمی ہے جو جانتے ہیں کہ درمیانی اوورز میں کس طرح کا کھیل پیش کرنا ہے، وہ جرات مندانہ شاٹس کھیلنے کے ساتھ ساتھ اسٹرائیک کو برقرار رکھنے کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔ اگر پاکستان کا مڈل آرڈر 12 اوورز کے کھیل میں بے نقاب ہوتا ہے تو اس کا مطلب وہ بے خبر ہیں۔

افتخار احمد، خوشدل شاہ اور آصف علی جیسے کھلاڑی ایک ہی طرح کی سوچ رکھنے والے کھلاڑی ہیں، یا تو وہ بہت اچھا کھیل جاتے ہیں یا پھر بغیر کچھ کیے واپس پویلین پہنچ جاتے ہیں۔  مڈل آرڈر میں شاید سب سے سمجھدار بلے باز نائب کپتان شاداب خان ہیں۔وہ جانتا ہے کہ اننگز کو کیسے لے کر چلنا ہے اور کس موقع پر شارٹ کھیلنی ہیں، لیکن وہ اکیلا کیا کرسکتا ہے؟

دو بار ایشین چیمپئن رہنے والی ٹیم آج کے میچ کے لیے نوجوان حیدر علی کو موقع دے سکتی ہے۔ حیدر علی کی بے پناہ صلاحیت کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے اور اسے صرف میدان میں اپنے پلان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حیدر کے پاس ہر طرح کی شارٹ موجود ہے، وہ پرکشش ڈرائیوز مارنے کے ساتھ ساتھ بڑی شارٹس بھی کھیل سکتا ہے۔ 21 سالہ نوجوان، آصف علی یا افتخار احمد کی جگہ آسانی سے لے سکتا ہے، جنہیں انتظامیہ اتنے عرصے سے اس امید کے ساتھ لے جا رہی ہے کہ وہ ایک دن بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔

اگر وہ حیدر علی کو نمبر 4 پر رکھتے ہیں، تو ان کے پاس بیٹنگ لائن کی ناکامی کی صورت میں اننگز کو سنبھالنے اور موقع ملتے ہی جارحانہ اسٹروک کھیلنے کا آپشن بھی موجود ہوگا۔

Advertisement

بابر کی کپتانی

بھارت نے پاکستان کے خلاف میچ میں بائیں ہاتھ کے بلے باز رویندرا جدیجا کو نمبر 4 پر بھیج کر ایک ماسٹر اسٹروک کھیلا تاکہ لیگ اسپنر شاداب خان اور بائیں ہاتھ کے اسپنر محمد نواز کے خطرے کو کم کیا جاسکے۔

جیسے ہی جدیجا نے نواز کو کچھ اسٹروکس لگائے تو بابراعظم کو فاسٹ بولرز کو واپس بلانا پڑا، جس کی وجہ سے ان کے پاس آخری اوور بائیں ہاتھ کے اسپنر سے کروانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا۔ اس سے کھیل پر بہت زیادہ اثر پڑا۔

اگرچہ بابر نے اس وقت نواز کو ہٹا کر صحیح فیصلہ کیا لیکن انہوں نے ایسے موقع پر دائیں ہاتھ کے آف اسپنر افتخار احمد سے بولنگ نہیں کروائی۔ افتخار ایک آل راؤنڈر کی حیثیت سے ٹیم میں موجود ہیں اور اگر وہ جدیجا جیسے بائیں ہاتھ کے کھلاڑی کے خلاف بھی بولنگ نہیں کررہے ہیں تو ان کے انتخاب پر سوالیہ نشان ہیں۔

اگرچہ پاکستان نے ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے رینکنگ کے سرفہرست بلے باز کی قیادت میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اس پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ پہلے سے طے شدہ منصوبے پر ہی عمل کرتا ہے اور میچ کے دوران کوئی غیرروایتی یا بہادارانہ فیصلہ نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ پچھلے میچ کے دوران مبصرین نے ایک اور مسئلے کی نشاندہی بھی کی تھی کہ جب اسے وکٹوں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اضافی سلپ نہیں لیتا۔ پاکستان نے بھارت کو ایک اوسط درجے کا ہدف دیا تھا اور وہ صرف وکٹیں حاصل کرکے ہی اس میچ کو جیت سکتے تھے تاہم ایسے مرحلے پر جب بھارتی بلے باز جدوجہد کررہے تھے، ایسے میں بابراعظم نے بغیر کسی وجہ کے سلپ ہٹادیں۔

بڑا چیلنج

Advertisement

گزشتہ اتوار کو پاکستانی بولرز نے سب کے دل جیت لیے، نسیم شاہ نے تکلیف کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور حارث رؤف اپنے آخری اوور کے علاوہ متاثر کن رہے جب کہ شاہنواز دہانی نے بھی اچھا کھیل پیش کیا۔

شاداب اور نواز کی اسپن جوڑی نے بھی معاملات کو سنبھالے رکھا۔ تاہم وہ کھیل اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اور آج رات نئے چیلنجز ہوں گے۔

اس بار تجربہ کار بھارتی بلے باز نسیم شاہ اور دیگر بولرز کے لیے تیار ہوں گے۔ ان کے پاس روہت شرما، ویرات کوہلی اور کے ایل راہول کی شکل میں بہترین بلے باز موجود ہیں اور ایسے بلے بازوں کو زیادہ دیر تک روک کر رکھنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔

شرما اور راہول نے ہانگ کانگ کے خلاف اپنی بیٹنگ کی جھلک دکھائی جب کہ کوہلی اپنی کھوئی ہوئی فارم تلاش کرنے کے قریب دکھائی دے رہے ہیں اور اس کے علاوہ سوریا کمار یادو نے بھی جارحانہ کھیل پیش کیا۔

جس طرح ٹورنامنٹ آگے بڑھ رہا ہے ، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ آنے والے میچ میں پاکستان کے لیے چیزیں مشکل ہوجائیں گی۔کیا بابر اور اس کی ٹیم کچھ بڑا کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
سونے کی قمیت میں ایک بار پھر بڑا اضافہ
محصولات اور 2024 کے انتخابات کے نتائج سےامریکہ کی معیشت مضبوط ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
اسرائیلی نگرانی میں پاک فوج غزہ بھیجنے کا بھارتی پروپیگنڈا بے نقاب، وزارتِ اطلاعات کی تردید
دفاع وطن کیلئے پرعزم، کسی بھی بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا، ڈی جی آئی ایس پی آر
ساحر لودھی نے اہلیہ کے عوامی سطح پر نہ آنے کی وجہ بتا دی
لاہور اور کراچی کا فضائی معیار آج بھی زہریلا قرار
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر