
بارشوں اور سیلاب نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں گندم کی قلت پیدا کردی
موسلا دھار بارشوں اورسیلاب کی وجہ سے سڑک کے بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے بڑے پیمانے پر نقصان کا ایک اثریہ ہوا ہے کہ پاکستان کے سب سے پسماندہ اور کم آبادی والے صوبے میں آٹے کی قلت ہے کیونکہ ملک کے دیگر حصوں سے کئی علا قوں کو گندم اور آٹے کی رسد رک گئی ہے۔
بارشوں اورسیلاب نے مختلف اضلاع کے گوداموں میں ذخیرہ شدہ گندم کی بڑی مقدارکوبھی تباہ کردیا۔ جگہ جگہ بارشوں نے گندم کو بھی نقصان پہنچایا جسے کسانوں نے مشکل وقت کیلئے سنبھال کر رکھا تھا۔
منافع خوروں نے بھی گندم اور آٹا ذخیرہ کرکے صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش شروع کردی ہے، آٹے کے ساتھ پہلے سے غیریقینی صورتحال کو مزید بڑھا دیا ہے، ایک اہم خوراک جوغریبوں کے لیے تیزی سے ناقابل رسائی ہوتی جا رہی ہے۔
اس ہفتے صوبائی دارالحکومت میں نان بائیوں نے بھی سرکاری خوردہ قیمت پر آٹے کی عدم دستیابی کی وجہ سے غیر معینہ مدت کے لیے ہڑتال کا اعلان کیا۔ بعد ازاں صوبائی حکومت کے حکام سے مذاکرات کے بعد احتجاج ملتوی کردیا۔
میڈیا پرگندم کی قلت اور آٹے کی آسمان چھوتی قیمتوں کو مسلسل اجاگر کرنے کے باوجود صوبائی حکومت آٹے کے بحران کو کم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام کرنے میں ناکام رہی ہے۔وزیراعلیٰ کے دفترسے جاری حالیہ پریس بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے آٹے کے بحران کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو اسے حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔تاہم، ان کے مخالفین ان پرکوئی عملی قدم نہ اٹھانے اورصرف لفظی جمع خرچ کا الزام لگاتے ہیں۔
سیلاب کے پیش نظر وزیراعلیٰ نے خود کو زیادہ تر کوئٹہ تک محدود رکھا سوائے چند فضائی دوروں کے جب انہوں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے تباہی کا فضائی جائزہ لیا۔
تاہم، کوئٹہ کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف غفورنے پاک فوج کی جانب سے امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے سیلاب سے متاثرہ متعدد علاقوں کا دورہ کیا۔
ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) کے مقررکردہ معیار کے مطابق، ایک فرد کو سالانہ 124 کلو آٹے کی ضرورت ہوتی ہے۔ 12 اعشاریہ 2 ملین کی آبادی والے بلوچستان کو سالانہ 12 اعشاریہ 5 سے 15 ملین بوری گندم کی ضرورت ہے۔حکومت بلوچستان نصیر آباد اور جعفرآباد اضلاع میں مقامی کاشتکاروں سے 10 لاکھ بوریاں خریدتی ہے۔ یہ بوریاں آبادی کی صرف 5 فیصد سے 6 فیصد ضرورت پوری کرتی ہیں۔
شمالی اضلاع چمن، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، ژوب، شیرانی، موسیٰ خیل، لورالائی، دکی اور زیارت اور جنوبی اضلاع گوادر، کیچھ، پنجگور، خاران اور واشک کی آبادی کی اکثریت کا انحصار سندھ اور پنجاب سے بھیجی جانے والی گندم پر ہے۔
وسطی اضلاع مستونگ، قلات، سوراب، خضدار، خاران اور لسبیلہ اور مشرقی اضلاع نصیر آباد، جعفرآباد، ڈیرہ بگٹی، کوہلو، صحبت پور، جھل مگسی، سبی اور کچھی کے اضلاع میں نہ صرف اتنی گندم پیدا ہوتی ہے کہ ان کی اپنی آبادی کا پیٹ بھرا جا سکے بلکہ ملحقہ علاقوں کے بازاروں میں بھی فروخت کی جاتی ہے۔کسی زمانے میں گوادر، تربت اور پنجگور کے اضلاع کو ایرانی گندم اور آٹا فراہم کیا جاتا تھا، لیکن اب اس کی آبادی کا انحصار پڑوسی اضلاع خاران، کراچی اور کوئٹہ سے لائے جانے والے آٹے پر ہے۔
ایرانی حکومت نے پاکستان میں گندم کی اسمگلنگ پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے تاہم ایندھن سمیت دیگر اشیا کو بلوچستان میں داخل ہونے کی اجازت ہے۔
کبھی آٹا اور گندم کے ساتھ ساتھ کھاد کی ایک بڑی مقدار چمن، قلعہ عبداللہ اور قلعہ سیف اللہ کے اضلاع کے راستے پڑوسی ملک افغانستان میں سمگل کی جاتی تھی۔
ضلعی انتظامیہ بھی مردم شماری کی رپورٹس کی روشنی میں آبادی کو گندم کے پرمٹ جاری کرتی تھی۔ تاہم پاکستان افغانستان سرحد پر باڑ لگانے اور دیگر حفاظتی اقدامات کے بعد ان اشیاء کی سمگلنگ کافی حد تک کم ہو گئی ہے۔
محکمہ خوراک کے بعض عہدیداروں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے گندم کی خریداری میں تاخیر کی۔ متعدد یاد دہانیوں کے بعد صوبائی محکمہ خزانہ نے محکمہ خوراک کو اپریل کے آخری ہفتے میں گندم کی خریداری کی اجازت دی۔’’جب تک محکمہ خوراک کو رقم جاری کی گئی، نصیر آباد اور جعفرآباد کی منڈیوں کے تاجر پہلے ہی اپنی گندم کا ذخیرہ فروخت کر چکے تھے۔ بعد میں، محکمہ نے ضلعی انتظامیہ کی مدد سے کاشتکاروں اور فلور ملوں کے احاطے پر چھاپے مار کر تین لاکھ بوریاں ضبط کیں۔
محکمہ خوراک کے ایک اور اہلکار نے بتایا کہ صوبے کے کاشتکار اس سال اپنا 10 اعشاریہ 5 لاکھ میٹرک ٹن کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے اور صرف 7 لاکھ میٹرک ٹن پیداوار حاصل کر سکے۔ پیداوار میں اس کمی کی وجہ شدید سردی کی لہر تھی جس نے فصلوں کو بری طرح متاثر کیا اور فصلوں کی کم پیداوار کے ساتھ ساتھ معیار میں خرابی کی بھی وجہ بنا۔انہوں نے کہا کہ موسلا دھار بارشوں اور شدید سیلاب نے بعد میں چھوٹے، درمیانے اور بڑے کسانوں کے گندم کے ذخیرے کو نقصان پہنچایا، جس سے کاشتکاروں کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔
’’آنے والے ہفتوں میں صورتحال مزید نازک ہونے جا رہی ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ حقیقی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اپنے اتحادیوں اور ایم پی اے کو خوش کرنے میں زیادہ مصروف ہیں۔ یہ بحران لوگوں کو سڑکوں پر آنے اور حکومتی گوداموں میں توڑ پھوڑ کرنے پر مجبور کر سکتا ہے‘‘ اہلکار نے مزید کہا۔رابطہ کرنے پر ڈائریکٹر جنرل فوڈ ظفر اللہ بلوچ نے اعتراف کیا کہ صوبے میں آٹے کا بحران ہے اور 20 کلو آٹے کا تھیلا سرکاری نرخ 1400 روپے کی بجائے 2500 روپے میں دستیاب ہے۔
’’محکمہ اس سال 10 لاکھ بوریوں کے بجائے صرف 3 لاکھ بوری گندم خرید سکا۔ محکمہ جلد ہی فلور ملوں کو سرکاری سٹاک سے گندم فراہم کرنا شروع کر دے گا‘‘۔
’’پاسکو (پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن) کے پاس چار لاکھ بوریاں دستیاب ہیں اور یہ سٹاک بھی جلد خرید لیا جائے گا‘‘۔
ظفر اللہ بلوچ نے مزید کہا کہ ’’آٹا جلد ہی 1400 روپے فی بوری کے سرکاری نرخ پر مارکیٹ میں دستیاب ہوگا۔ ہم منافع خوروں کو صورتحال کا فائدہ نہیں اٹھانے دیں گے‘‘۔
اپوزیشن کا کوئی کردار نہیں
آٹے جیسی بنیادی ضرورت کی عدم دستیابی اورسیلاب کے پیش نظر صوبائی حکومت کی جانب سے لوگوں کو کوئی خاطر خواہ ریلیف فراہم کرنے میں ناکامی کے باوجود اپوزیشن کا کوئی بھی نمائندہ عبدالقدوس بزنجوحکومت پرتنقید کرتا نظر نہیں آیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بزنجو حکومت صوبائی تاریخ کی پہلی حکومت ہے جسے 23 قانون سازوں (ایم پی اے) کی اپوزیشن کا سامنا ہے جیسا کہ بلوچستان اسمبلی میں زیادہ تر قانون ساز حکمران اتحاد کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اس اپوزیشن میں جمعیت علمائے اسلام کے 11 ایم پی اے، بلوچستان نیشنل پارٹی کے نو ایم پی اے اور پاکستان مسلم لیگ نوازپشتونخوا سے ایک ایک ایم پی اے شامل ہے۔ ملی عوامی پارٹی اورایک آزاد ایم پی اے بھی اس کا حصہ ہیں۔
تاہم، اس کے باوجود بزنجوحکومت نے ان اپوزیشن اراکین کو پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP) میں ان کے حلقوں کے لیے فنڈزمختص کرنے کے علاوہ انہیں مختلف مراعات دے کرقابو کرنے کا انتظام کررکھا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News