Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

ایک گھمبیر بحران

Now Reading:

ایک گھمبیر بحران

ہم،بالخصوص میڈیا قومی سیاست،پوائنٹ اسکورنگ،بیان بازی اوراقتدار کی جاری کشمکش کے حوالے سے اس قدر جنون میں مبتلا ہیں کہ ملک کودرپیش حقیقی،اہم مسائل پرعوامی گفتگو کے لیے ہمارے پاس بہت کم گنجائش رہ جاتی ہے۔ یہ ناگزیر تلخ حقیقت ہے،حالانکہ یہ مسائل ہمارے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ دانشوروں کا ایک چھوٹا سا گروہ ان مسائل پربحث کرتا ہے، لیکن عوام اورپالیسی سازان سےغافل نظرآتےہیں۔ اوراس کے نتیجے میں بے مثال مہنگائی اورشدید بارشوں کے باعث سیلاب کی وجہ سے وسیع تباہی کی صورت میں زوال کی واضح علامات نظر آرہی ہیں۔

ہماری معیشت زبوں حالی کاشکار ہے، اوراس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے بامعنی پیداواری صلاحیت پر اتنی توجہ نہیں دی جتنی کہ ہم نے غیرملکی قرضوں سے تعمیر کیے گئے موٹر ویز اور چمکدار ہوائی اڈوں کے ٹرمینلز جیسے شاندار منصوبوں پر توجہ دی ہے۔مثال کےطور پر گزشتہ مالی سال میں ملک نے 80 ارب ڈالر کی درآمدات کے مقابلے میں 31اعشاریہ 8 ارب ڈالر کی برآمدات کیں۔جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ 48اعشاریہ2 ارب ڈالر رہا۔جب تک ہم اپنی صنعتی پیداوار کو فروغ نہیں دیں گے، زرمبادلہ کا بحران جاری رہے گا اور پاکستان بین الاقوامی قرضوں پر زندہ رہنے پر مجبور رہے گا۔اگر ہم ایک قابل عمل،پائیدار معیشت چاہتے ہیں تو تیز رفتار صنعت کاری ہمارے اقتصادی ایجنڈے میں سرفہرست ہونی چاہیے۔ ہماری 1ہزار کلومیٹر طویل ساحلی پٹی اس مقصد میں پیشرفت کیلئے دستیاب ہے اگر ہم یہاں صنعتی مرکز بنانے پر توجہ دیں جیسے چین نے اپنے مغربی ساحلی علاقے میں کیا تھا۔

ایک اوراہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنےوسائل سے زیادہ اخراجات کررہے ہیں۔متمول طبقے کا بڑا حصہ اپنا واجب الادا ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ رواں مالی سال (2022-23) وفاقی حکومت کی کل ٹیکس وصولیوں کا 41 فیصد سے زیادہ قرض کی ادائیگی میں چلا جائے گا۔قرضوں، دفاع، گرانٹس اور سبسڈیز پر سود کی ادائیگی کے بعد وفاقی حکومت کے پاس کل محصولات کا 10 فیصد رہ جاتا ہے۔ لہٰذا حکومت موجودہ ترقیاتی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے نئے قرضوں (ملکی اور غیرملکی) کے حصول کی کوششوں میں ہے۔آئین کے تحت، جیسا کہ موجودہ صورتحال ہے،وفاقی حکومت جاگیرداروں پر انکم ٹیکس نہیں لگاسکتی، حالانکہ ان کی انفرادی آمدنی کروڑوں روپے ہے۔ملک کے تمام جاگیردارمشترکہ طور پر برائے نام صوبائی ٹیکسوں کے ذریعے وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کی طرف سے جمع کیے گئے کل محصولات کا نصف بھی نہیں دیتے۔ایک اندازے کے مطابق تقریباً 40 لاکھ درمیانے اور چھوٹے تاجر بھی ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔معاشرے کے ایک بڑے خوشحال طبقے سے ٹیکس کی وصولی ایک بڑا سیاسی مسئلہ ہے،جسے فوری حل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن کوئی بھی حکومت چیل کے گھونسلے میں ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں کرتی۔ جب تک مضبوط سیاسی قوت ارادی نہیں ہوگی اورٹیکس وصولی کے دائرے کو بڑھانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات نہیں کیے جائیں گے، حکومتی مالیات کا انحصارقرضوں پر ہی رہے گا۔جو بالواسطہ طور پر نجی شعبے کی ترقی کو متاثر کرتا ہے اور مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی کا باعث بنتا ہے۔

تعلیم کے شعبے میں بھاری سرمایہ کاری کیے بغیرمعیشت مکمل طورپرٹھیک نہیں ہو سکتی۔ ناخواندہ محنت کش جدید معیشت نہیں چلا سکتے۔ ہمارے ہاں خواندگی کی شرح انتہائی کم ہے ،2021 میں 62اعشاریہ3 فیصد تھی، جوکہ جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 60 ملین سے زائد افراد ناخواندہ ہیں۔اس وقت قوم تعلیم پر جی ڈی پی کا 2اعشاریہ5 فیصد خرچ کر رہی ہے،جو کہ بین الاقوامی ماہرین کی طرف سے تجویز کردہ 4 فیصد سے کہیں کم ہے۔

صورتحال درحقیقت کافی پیچیدہ ہے، سالانہ شرح تقریباً دو فیصد کے حساب سے پاکستان کی آبادی میں اضافہ ایک بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔اس وقت ہماری آبادی 230 ملین ہے۔ قوام متحدہ کی رپورٹ ’’ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس 2022‘‘کے پروجیکٹ کے مطابق پاکستان میں سال 2050ء تک 366 ملین آبادی ہوگی۔عام آبادی، بالخصوص دیہی علاقوں میں بڑے خاندان کے معاشی اورسماجی اثرات کے بارے میں بہت کم ادراک پایا جاتا ہے۔خاندانی منصوبہ بندی روایتی طور پرحکومت کے ایجنڈے میں زیادہ اہم نہیں رہی ہے۔ اگر آبادی اسی شرح سے بڑھتی رہی تو یہ ملک کی معیشت اور داخلی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی ایک بہت بڑا اور بڑھتا ہوا چیلنج ہے۔ پاکستان لیبر فورس سروے 2020ء-21 کے مطابق، تقریباً 1اعشاریہ61 ملین افراد سالانہ ملک کی افرادی قوت میں شامل ہوتے ہیں۔

Advertisement

آزادی کے بعد سے آبادی میں تقریباً سات گنا اضافے کے نتیجے میں پانی کی دستیابی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ 1947ء میں پاکستان میں فی کس پانی کی اوسط دستیابی 5ہزار6سو کیوبک میٹر تھی۔جو اب کم ہو کر 1ہزار38 کیوبک میٹر پر آ گئی ہے، جس سے ہمیں پانی کے شدید دباؤ کاسامناہے۔کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس بتائے گئے سرکاری اعداد و شمار سے بھی کم پانی ہے۔اس وقت پاکستان کے 24 بڑے شہروں میں رہنے والے دو تہائی عوام کو صاف پانی میسر نہیں۔اگر پانی کا بحران حل نہ ہوا تو اس کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پانی کی کمی شہر میں فسادات اور بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے خوراک کی قلت کا باعث بن سکتی ہے۔یہ خوراک کے تحفظ سے بھی وابستہ ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود بیرون ملک سے گندم، کپاس، چینی، کوکنگ آئل اور دالیں درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ ملک کو نئی نہریں کھود کر مزید بنجر زمینوں کو زیر کاشت لانے کی ضرورت ہے۔ہمارے ملک میں دستیاب پانی کا تقریباً 95 فیصد زراعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس کیلئے آبپاشی کا ایک بہت ہی ناکارہ قدیم نظام موجود ہے،جس سے کھیتوں میں سیلاب آ جاتا ہے اورفصلیں تباہ ہوجاتی ہیں،اور 60 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ملک کے پانی کے انتظام اور آبپاشی کے طریقوں کو بہتر بنا کر غذائی تحفظ حاصل کیا جا سکتا ہے۔مزید آبی ذخائر کے علاوہ، ریاست کو نہروں کی لائننگ میں سرمایہ کاری کر کے آبپاشی کے نظام کو جدید بنانے کی ضرورت ہے،اور جدید طریقوں جیسے کہ ’’چھڑکاؤ-آبپاشی‘‘ اور ’’ڈرپ-آبپاشی‘‘ کی تکنیکوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔جتنی جلدی ہم اس سفر کا آغاز کریں گے، ہمارے امن اورخوراک کے تحفظ کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔

توانائی کا تحفظ کم اہم نہیں ہے۔پاکستان میں گیس کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ اس وقت مقامی قدرتی گیس ہماری ضروریات کا صرف 45 فیصد فراہم کرتی ہے، 55 فیصد مائع قدرتی گیس بیرون ملک سے آتی ہے۔ تقریباً 2اعشاریہ8 ملین گھرانے نئے گیس کنکشن کے لیے کئی سال سے انتظار کر رہے ہیں۔ ایران سے پائپ لائن گیس،ایل این جی کے تقریباً نصف ریٹ پر دستیاب ہے، جوگیم چینجر ہو سکتی ہے۔یہ ہماری معیشت کو بڑا فروغ دے سکتی ہے اور ہماری تمام ضروریات کو پورا کر سکتی ہے۔ یہ ایک اقدام ہمارے توانائی کے بل کو کافی حد تک کم کر سکتا ہے۔اگر ہم ایران سے پیاز اور ٹماٹر خرید سکتے ہیں تو ہم انرجی کیوں نہیں خرید سکتے جو ہماری بقا کے لیے بہت ضروری ہے؟

حالیہ سیلاب نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ پاکستان موسمیاتی اثرات کے حوالے سے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک میں شامل ہے،اور یہ چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے سب سےتیار بھی نہیں ہے۔ ملک کو چھ قسم کے سیلابوں کا سامنا ہے، جن میں موسم گرما میں دریائی سیلاب جیسے کہ 2010ء میں آنے والا سیلاب، فلیش فلڈ (جنوبی پنجاب، بلوچستان میں)، برفانی جھیلوں سے آنے والے سیلاب (شمالی علاقے)، شہری سیلاب (کراچی، لاہور وغیرہ) شامل ہیں،موسلا دھار بارشیں (اس سال سندھ) اور بادلوں کا پھٹنا(گزشتہ سال جولائی میں اسلام آباد)۔سندھ کے جنوبی اضلاع کو سمندری پانی کے داخلے کے خطرات کا سامنا ہے، جب کہ شمالی علاقے برفانی طوفانوں کا شکار ہیں،جیسا کہ اس سال جنوری میں مری میں آیا تھا۔پاکستان کو ایک جامع پالیسی اور ایکشن پلان کی ضرورت ہے، نا کہ اعلیٰ حکام کی طرف سے بیان بازی کی جائے، تاکہ ہماری آبادی کو موسمیاتی تبدیلیوں کے انتشار سے بچایا جا سکے۔ پاکستانی ریاست اور سول سوسائٹی کو بدلتے ہوئے موسمی حالات کے مطابق ڈھالنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

مندرجہ بالا فہرست میں کچھ اور مسائل جن کے فوری ازالے کی ضرورت ہے،شامل کیے جا سکتے ہیں، جیسے کہ خراب حکمرانی، تنازعات کے حل کا ایک ناکارہ اورغیر موثر نظام، اقتدار کی مرکزیت میں کمی اوراختیارات کی منتقلی، وسیع پیمانے پر بدعنوانی وغیرہ۔ تاہم، ان تمام مسائل کے حل کی کلید عوام کی بڑے پیمانے پر بیداری اور سیاست میں ان کی فعال شرکت میں مضمر ہے، تاکہ حکمران طبقہ اصلاحی اور دوررس اقدامات اٹھانے اور ان پالیسی فیصلوں کو بنانے اور ان پر عمل درآمد کرنے پر مجبور ہو۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
تمباکو اب بھی لوگوں کی جانیں لے رہا ہے، ترجمان صدر مملکت مرتضیٰ سولنگی
صدر مملکت سے وزیراعظم کی اہم ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی
مصطفیٰ کمال کی سعودی ہم منصب فہد بن عبدالرحمن سے ملاقات، باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق
افغان جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کر رہے ہیں ، خواجہ آصف
انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں ایک بار پھر توسیع
بغیر ڈرائیور خودکار ٹیکسی لندن میں کب چلیں گی؟ گوگل نے بتا دیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر