سیاست دان اپنے پس منظر، اصلیت اور وابستگیوں سے قطع نظر، بے دریغ غریب عوام کی بنیادی ذہانت کو آزماتے رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ رائے دہندگان کو نا سمجھ اور آسانی سے باتوں میں آجانے والے لوگوں کا ایک ٹولہ سمجھتے ہیں جو ان کے ہر قول و فعل پر یقین کر لے گا۔
پیشہ ور سیاستدان جن کی اکثریت زیادہ تر باتیں اور عملی کام بہت کم کرتی ہے، اس “پیشے” کو برادری یا انسانیت کی خدمت کے طور پر، جیسا کہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے منشوروں میں دعویٰ کیا جاتا ہے، نہیں بلکہ ایک کاروبار کے طور پر سمجھتی ہے۔ اگرچہ ہمارے سیاستدان اپنی سیاسی سرگرمیوں میں اِس “کاروباری مثال” کا اطلاق کرنے میں ماہر اور تجربہ کار ہیں، مُتاثرکن القابات کے باوجود جن سے اُنہیں نوازا جاتا ہے، وہ اِس طرح کی سیاست کرتے ہوئے اِس اعزاز کے تمام دعووں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں اور ایوان بالا یعنی سینیٹ پر مشتمل پاکستان میں اراکین پارلیمان کی کل تعداد 1232 ہے۔ یہ تقریباً 22 کروڑ لوگوں کی آبادی کا 0.00056 فیصد بنتا ہے۔ 0.00056 فیصد کی یہ اشرافیہ نہ صرف 22 کروڑ عوام کی بلکہ اُن کی آنے والی نسلوں کی قسمت کا بھی فیصلہ کرتی ہے۔ یہ فیصلے کم سے کم اور بغیر کسی احتساب کے کیے جاتے ہیں اور وہ اپنی ہتک آمیز حرکتوں سے کبھی بھی ان لوگوں کا مذاق اُڑانے سے باز نہیں آتے جنہوں نے اُنہیں اِن معزز اسمبلیوں کے لیے ووٹ دیا تھا۔
لہٰذا 22 کروڑ پاکستانی اُس ڈرامے کو دیکھتے ہیں جب یہ ہر روز اُن کے گھروں میں لگی ٹی وی اسکرینوں پر چلتا ہے، اور جو کچھ وہ انتہائی متحرک الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے دیکھتے ہیں وہ اُنہیں ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اُن کی مایوسی اُن سیاستدانوں کے لیے قطعی غیرمتعلقہ ہے جو اِس کی بدولت شاندار زندگیاں گزارتے ہیں۔ دریں اثناء، جیسا کہ اس معاملے کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے اِس پاک سرزمین میں جو جتنا بڑا بدمعاش ہوگا، وہ مقامی سیاست کے گند میں اتنا ہی خوش قسمت ثابت ہوگا۔
کچھ سیاست دان فخریہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ “اپنے ضمیر کی بات کہنے” پر یقین رکھتے ہیں اور وہ عملی طور پر بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ ’’میں اپنا ہاتھ اپوزیشن لیڈر کے حلق میں ڈالوں گا اور تمام ناجائز پیسہ وصول کروں گا‘‘ اور ’’میں اِس پاک سرزمین سے غربت کے خاتمے کے لیے اپنے تن پر موجود کپڑے تک بیچ ڈالوں گا،‘‘ اِیسے دعووں کی محض دو مثالیں ہیں۔ واضح طور پر وہ بھول جاتے ہیں کہ جو کچھ ذہن میں آتا ہے وہ کہہ ڈالنا عزت یا آداب کی عکاسی نہیں ہے۔ قدیم داناؤں کا فرمان ہے کہ باوقار رویے میں چیخ و پکار کی بجائے تحمل ہوتا ہے، کہ ضبطِ نفس اور اعتدال کو اچھے سیاستدانوں کی پہچان سمجھا جاتا ہے۔
اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سیاست دانوں کا خود پر کوئی زور نہیں چلتا تو وہ یہ کیوں سوچتے ہیں کہ وہ دوسروں پر زور چلا سکتے ہیں؟
سیاست دانوں کو اپنے تبصروں پر قابو پانا سیکھنا ہوگا اور خاص طور پر جب اُن کے سیاسی حریف جو ماضی کے تلخ دشمن تھے، اُنہیں تباہ کرنے کے یک نُکاتی ایجنڈے پر ایک دوسرے کے ساتھ کھاتے پیتے نظر آتے ہیں۔
سیاست کو ایک ایسے پیشے کے طور پر سمجھا جاتا ہے جس میں ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ تمام پیشہ ور افراد ریٹائر ہو جاتے ہیں اور عالمی سطح پر سیاستدان بھی، تو پاکستانی سیاستدان کیوں نہیں؟ کیا یہ قانون سازی ممکن نہیں کہ کوئی بھی ایسا شخص جو 40 سال سے سرگرم سیاست میں ہو یا اُس کی عمر 75 سال سے زیادہ ہو، سیاسی میدان سے ریٹائر کر دیا جائے؟ کسی بھی قوم کو ایک آدمی کی سوچ کا یرغمال نہیں بنایا جانا چاہیے اور وہ بھی بار بار، ہمیشہ، ایک ہی طرح۔ تاہم یہ مکمل طور پر مسئلے کا حل نہیں۔ ہماری سیاسی اور سماجی روایات میں بڑھاپے کا تعلق عمر سے نہیں ہے، ہمارے ہاں معیشت اور معاشرت کے تمام شعبوں میں چالیس برس یا اِس سے کم عمر سیاست دانوں کے بڑھاپے یا اس سے ملتے جُلتے ہونے کی بہت سی مثالیں ہیں۔
پاکستان میں، مُنتخب اور مؤثر طبی مسائل کا غیراخلاقی استعمال اور لوگوں کو بیوقوف بنا کر اپنا مفاد حاصل کرنا بھی کامیاب سیاستدانوں کی اہم خصوصیت ہے۔ ایک دن وہ عوامی منظرنامے میں شدید بیمار نظر آتے ہیں جس کے فوری بعد وہ قطعی غیر ضروری طبی علاج کے لیے جو بظاہر ملک میں دستیاب نہیں، بیرون ممالک میں ہوتے ہیں۔ پھر وہ دنیا بھر کے انتہائی خوبصورت پارکوں میں چہل قدمی کرتے، امراء کے لیے مخصوص تجارتی مراکز میں شاپنگ کرتے اور مہنگے ترین ریستورانوں میں کھاتے پیتے ہوئے کیمروں کو غصے سے گھُورتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سب بغیر کسی پشیمانی کے کیا جاتا ہے کیونکہ قوانین کو روندنے والے سیاستدانوں کو یقین ہوتا ہے کہ عوام بیوقوف ہیں۔ ڈی گال نے کہا، “چونکہ ایک سیاست دان اپنی باتوں پر کبھی یقین نہیں کرتا، اس لیے وہ حیران ہوتا ہے کہ دوسرے اس پر کیسے یقین کرتے ہیں۔” ڈی گال کے دعوے کے ثبوت میں شام 7 سے 11 بجے کے درمیان کوئی بھی “ٹاک شو” دیکھ لیں، وہ وقت جب اینکرز اور تجزیہ کار شو میں مدعو سیاستدانوں کی کافی حد تک مدد سے قوم کی تقدیر کے مؤثر طور پر فیصلے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ سیاسی سرکس میں باآسانی اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ وہ زبان کے ایسے کرتب باز ہیں جو اپنے عمل کے برعکس بات کرتے ہوئے اپنا توازن برقرار رکھتے ہیں اور اپنے اِس تحقیر آمیز رویے کو بڑے پیار سے “جمہوریت کا حُسن” پُکارتے ہیں۔ سیاست دان چونکہ محدود یادداشت کی بیماری کا شکار نظر آتے ہیں اس لیے وہ یہ سوچنے میں مکمل حق بجانب ہیں کہ ووٹر بھی اسی تکلیف کا شکار ہیں۔ سیاست دان ایک بات کہتے ہیں اور اُس کے برعکس کرتے ہیں، یا بسا اوقات کچھ نہیں کرتے لیکن وہ اُس بارے میں بلا تکان بات کرتے ہیں جو دوسرے، خاص طور پر اُن کے سیاسی حریف کر رہے ہیں۔ اِس عمل میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح ایک دوسرے پر تنقید کی تھی، ایک دور کے دشمنوں پر گندگی پھینکنے والے ضرورت پڑنے پر اُنہیں ایسے گلے لگاتے ہیں جیسے طویل عرصے کے بچھڑے بھائی۔
جارج برنارڈ شا نے کہا تھا، ’’سیاستدانوں کو، جنہیں کبھی بادشاہوں کی چاپلوسی کرنا سیکھنا پڑتا تھا، اب اُنہیں اپنے ووٹرز کو خوش کرنا، محظوظ کرنا، منانا، چکنی چپڑی باتیں بنانا، خوفزدہ کرنا، یا دوسری صُورت میں متاثر کرنا سیکھنا ہوگا۔‘‘ افسوس یہ ہے کہ عوام بے وقوف ہیں۔
آج تیرہ عقل مندوں نے، گوتھم قصبے کے تو نہیں البتہ اُس سے قریبی تعلق رکھتے ہیں، اجتماعی طور پر “اُلّو جیسے بے حس” (مغرب میں یہ پرندہ انتہائی ذہین سمجھا جاتا ہے) شخص کی تقلید کا فیصلہ کیا ہے جو ایمانداری، راست بازی اور احتساب کی فرسودہ خُوبیوں کا حامل ہے۔ اکاؤنٹینسی کی دنیا میں، اکاؤنٹنٹ کسی بھی اکاؤنٹ کے “کھرے اور درست” ہونے کی تصدیق نہیں کرتے۔ اِس کی بجائے وہ سرٹیفکیٹ پر “درست اور شفاف” لکھتے ہیں، درستگی تصدیق شدہ نہیں ہے۔ قابلِ فہم طور پر چونکہ اکاؤنٹنٹ لاکھوں ٹرانزیکشنوں کی کھوج کرتے ہیں، اس لیے وہ دُرست ہونے کی تصدیق نہیں کر سکتے۔ اُن کی رائے دستیاب ڈیٹا پر مبنی ہوتی ہے۔ بعد کے سرمایہ کاری کے فیصلے مالیاتی گوشواروں پہ تحریر اکاؤنٹنٹس کے “درست اور شفاف” جائزے پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور اگر آڈیٹرز اِن اکاؤنٹس میں کسی غلط حقائق یا اعداد و شمار کو پہچاننے میں ناکام رہے جو وہ آڈٹ کر رہے ہیں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ جان بوجھ کر نہیں کیا گیا بلکہ بے خیالی سے ہوگیا۔ اُن پر دھوکے باز، جھوٹے، ناقابلِ اعتماد وغیرہ ہونے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ مزید برآں، اُن کی بھُول چوک کو “مادیت” کے تناظر میں پرکھنا ہوگا، یعنی بھُول چوک کے اثرات کی مقدار۔ بطور غیر ذہین شہری، ہم میں سے اکثر سیاست دانوں کے حوالے سے “مادیت کے اصول” کی بنیاد پر 15 سو ڈالر اور لاکھوں امریکی ڈالرز کی اندرون / بیرون ترسیلاتِ زر کے درمیان فرق کرنے سے قاصر ہیں۔ رائے دہندگان بشمول مُصنفِ مضمون، واقعی ـ’’سادہ سائمنز‘‘ یا آسان انگریزی میں بیوقوفوں کا ایک گروہ ہے اور بین جانسن کے بقول ’’دماغ کا ایک سینگ سر کے سینگ سے بدتر ہے‘‘۔
ذوالفقار علی بھٹو آخری یا شاید پہلے سیاست دان تھے جنہوں نے معاشیات کا مطالعہ کیا اور سمجھا (قومیائے جانے کی تباہی کو ایک طرف رکھتے ہوئے)۔ وہ خارجہ اور اقتصادی پالیسی کے باہمی تعامل کی باریکیوں اور قوم کے لیے اس کی اہمیت کو جانتے تھے۔ صدر مشرف اور افواج سے تعلق رکھنے والے اُن کے معاونین صدر ایوب کی ٹیم کی طرح اچھے تھے، اقتصادی حرکیات پر اچھی گرفت رکھتے تھے۔ دونوں ادوار میں ہماری جی ڈی پی کی شرح نمو 5 فیصد سے زیادہ تھی۔ دونوں کی حکومت کا جمہوری بننے کی کوشش میں خاتمہ ہو گیا۔ دنیا بھر میں وردی میں ملبوس حکمران رائے دہندگان کو اپنی اِس خواہش سے حیران کرتے ہیں کہ تاریخ اُنہیں جمہوریت پسند حکمرانوں کے طور پر یاد کرے گی۔ امریکا میں وہ اس لیے کامیاب ہوئے کہ وہ وردی اتار کر اقتدار میں آئے نہ کہ اسے پہن کر، یہی فرق ہے ایوب خان اور آئزن ہاور میں یا مشرف اور جارج بش سینیئر میں۔
اب “میثاقِ معیشت” کے ذریعے ملک کے غریب شہریوں کے مصائب اور غربت کے خاتمے کے لیے آواز بلند کی جا رہی ہے۔ کوئی بات نہیں کہ “میثاقِ جمہوریت” نے عوام کو کچھ نہیں دیا۔ اس نئے میثاق کو تاریخ میں”میثاقِ باہمی سہولت” کے طور پر درج کیا جائے گا اور ہمیں “معیشت کے باتونی” کے بارے میں مزید جاننے کی تیاری کرنی چاہیے جس سے ہم ہر دن بیوقوف بنیں گے۔
بہترین شخص کی بدعنوانی بھی بدترین بن جاتی ہے۔ نہ نظر آنے والے دریاؤں پر پُل بنائے جاتے ہیں۔ ہمارے انتخابات مفادات کا مقابلہ ہوتے ہیں نہ کہ اُصولوں یا نظریات کے۔ جیسا کہ فرینکلن ایڈمز نے کہا تھا، “اِس ملک کے ساتھ مُصیبت یہ ہے کہ بہت سے سیاستدان تجربے کی بنیاد پر سختی سے یقین رکھتے ہیں کہ آپ تمام لوگوں کو کبھی بھی بے وقوف بنا سکتے ہیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News