
اگرچہ گردوں کی صفائی کی مشین (کڈنی ڈیالیسس مشین)کسی کے گردے تو تبدیل نہیں کر سکتی لیکن یہ گردے کے ٹرانس پلانٹ ہونے تک مریض کے زندہ رہنے کا ذریعہ ضرور پیدا کر دیتی ہے۔
جب کوئی گردہ فیل ہو جائے تو دو قسم کے علاج دستیاب ہوتے ہیں زیادہ تر لوگوں نے ہیمو ڈیالسس ہی کرایا ہے۔
ڈاکٹر مریض کے خون کی وریدوں میں رسائی حاصل کرنے کے ساتھ آغاز کرتا ہے، یہ کام ٹانگ یا بازو یا کبھی کبھی گردن میں خفیف سی سرجری کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
جلد میں لگائے جانے والے شگاف کے اندر دو سوئیاں ڈالی جاتی ہیں، ایک ورید اور دوسری شریان والی طرف تب خون صاف ہونے کے لیے ڈیالیسس مشین میں داخل ہوتا ہے۔
مشین کے دو حصے ہیں ایک حصہ ڈیالیسسٹ نامی مواد اور دوسرا خون کے لیے۔ان دونوں حصوں کے درمیان ایک ایک باریک سی جھلی یا چھاننی لگی ہوتی ہے۔
جب خون اس جھلی کے ایک طرف اور ڈیالیسسٹ دوسری طرف سے گزرتا ہے تو خون میں سے فاضل مادے کے ذرات چھن جاتے ہیں اور ڈیالیسسٹ انھیں دھو ڈالتا ہے۔
چھاننی میں سے نہ گزرنے والے سیل واپس خون میں شامل ہو جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ چھاننی کے سوراخ خوردبینی ہوتے ہیں اور ننگی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے۔
دوسرا کم عام طریقہ پیری ٹونیل ڈیالیسس ہے جس میں مریض کی اپنی پیریٹونیل جھلی کو بطور فلٹر استعمال کیا جاتا ہے۔
پیریٹونیم جھلی پیٹ کی اندرونی طرف ہوتی ہے۔
ڈیالیسس مشین کی خوردبینی جھلی کی طرح یہ بھی چھاننی کا کام دے سکتی ہے۔ اس کے سوراخوں میں سے فاضل ذرات تو گزر جاتے ہیں لیکن خون کے بڑے سیل نہیں۔
سب سے پہلے سرجری کے ذریعے ایک پلاسٹک ٹیوب پیٹ کے اندر ڈالی جاتی ہے۔ پھرتقریباً نصف کلو ڈیالیسسٹ مائع اس نالی سے گزر کر پیٹ میں جاتا ہے۔
جب مریض کا خون ڈیالیسسٹ کے ساتھ ٹکراتا ہے تو اس کی آلائشیں جھلی میں سے گزر کر ڈیالیسسٹ میں شامل ہو جاتی ہیں۔
تین یا چار گھنٹے بعد ڈیالیسسٹ کو نکال کر اس کی جگہ تازہ مائع ڈالا جاتا ہے۔
اس عمل میں نصف گھنٹا لگتا ہے اور اسے روزانہ چار پانچ مرتبہ دہرایا جاتا ہے۔
ہیمو ڈیالیسس کے فوائد یہ ہیں کہ مریض کو کسی خصوصی تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور ڈیالیسس میں ماہر شخص باقاعدگی سے یہ کام کرتا رہتا ہے۔
پیریٹونیل ڈیالیسس کی صورت میں مریض کو کئی گھنٹے کلینک میں نہیں گزارنا پڑتے۔(ہفتے میں تین بار)۔
ڈیالیسس کسی بھی روشن اور صاف ستھری جگہ پر کیا جا سکتا ہے اور اس میں تکلیف نہیں ہوتی سب سے بڑا خطرہ پیریٹونیل جھلی میں انفیکشن ہے۔
اگرچہ ڈیالیسس گردے کی بیماری کا علاج نہیں اور ڈیالیسس مشین کی ٹیکنالوجی تقریباً جوں کی توں ہے لیکن ڈیالیسسٹ مریض کی آسانی کے لیے کئی بہتریاں پیدا کی گئی ہیں۔
اگر کوئی شخص گردے کی شدید اور مہلک بیماری میں مبتلا ہو تو ٹرانس پلانٹ واحد طویل المعیاد حل ہے جو مریض کو ڈیالیسس سے نجات دلاتا ہے۔
تاہم کسی قریبی عزیز کا گردہ لگوا دینے کے بعد بھی مریض کو مسلسل ادویات لینا پڑتی ہیں تاکہ جسم کا مدافعاتی نظام نئے نکالے گئے عضو کو مسترد نہ کردے۔
اس وقت گردوں کے امید وار مریضوں کی تعداد دستیاب گردوں کے مقابلے میں تین گنا ہے۔
لہذا بہت سے لوگوں کے لیے ڈیالیسس ایک زندگی بچانے والا طریقہ ہے البتہ کچھ مریض ڈیالیسس کو ٹرانس پلانٹ پر ترجیح دیتے ہیں۔
ڈیالیسس کے متعلق اعداد و شمار اور جدید ڈیالیسس مشین کے فوائد غیر متنازعہ ہیں۔
امریکہ میں صرف ایک سال بعد ڈیالیسس کے ذریعے زندہ بچ جانے والی مریضوں کی شرح 77فی صد تھی۔
پانچ سال بعد یہ شرح 28 فیصد اور 10 سال بعد دس فیصد رہ گئی ہے۔
ٹرانس پلانٹ کے بعد زندہ رہنے کی شرح اور بھی بہتر ہے کسی زندہ رشتہ دار کا گردہ لگوانے والے 77 مریض دس سال تک زندہ رہے۔
متعد دماہرین کے خیال میں اس شرح کو بہتر بنانا ممکن ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News