 
                                                                              انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) ٹی 20 ورلڈ کپ کا 2022ء ایڈیشن 16 اکتوبر سے شروع ہونے والا ہے جہاں آسٹریلیا اپنی سرزمین پر اپنے ٹائٹل کا دفاع کرے گا۔
مقابلوں کا آغاز کوالیفائنگ مرحلے سے ہوگا جہاں 8 ٹیمیں سپر 12 راؤنڈ میں 4 پوزیشنوں کے لیے مدمقابل ہوں گی۔
مقابلہ شروع ہونے سے پہلے بول نیوز اپنے قارئین کے لیے 7 ماہرین کی پیش گوئیاں لا رہا ہے کہ میگا ایونٹ میں کون اچھی کارکردگی دکھائے گا اور کون مایوس کرے گا۔
شرکاء میں سے 3 کا تعلق اسپورٹس ڈیسک سے ہے جب کہ 4افراد – مظہر ارشد (شماریات)، نبیل ہاشمی (ہیڈ آف پلیئر ایکوزیشن/مینیجر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز)، ریحان الحق (جنرل منیجر اسلام آباد یونائیٹڈ)، حیدر اظہر (چیف آپریٹنگ آفیسراور منیجر ملتان سلطانز) – کرکٹ کی دنیا میں ہونے والی پیش رفت میں شامل رہے ہیں۔
س: اس سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے کے لیے فیورٹ کون ہے؟
مظہر ارشد: میں آسٹریلیا کہوں گا کیونکہ وہ اپنی کنڈیشنز سے واقف ہیں اور ان کی ٹیم تجربہ کار ہے۔ ان کے بیشتر کھلاڑی 28 سال سے زیادہ عمر کے ہیں اور ان کے پاس کافی تجربہ ہے۔ جوش ہیزل ووڈ اس وقت نمبر ایک بولر ہیں اور وہ پیٹ کمنز اور ایڈم زمپا کے ساتھ اہم ہوں گے۔
نبیل ہاشمی: میری پسندیدہ ٹیم میزبان آسٹریلیا سے آگے انگلینڈ ہوگی۔ جوس بٹلر کی ٹیم میں جیسن رائے، جوفرا آرچر اور جانی بیئرسٹو جیسے کھلاڑیوں کے علاوہ بھی کافی گہرائی ہے ۔ میرے خیال میں چار سیمی فائنلسٹ انگلینڈ، آسٹریلیا، پاکستان اور انڈیا ہوں گے جہاں تھری لائنز ( انگلینڈ ) ٹائٹل اپنے نام کریں گے۔
ریحان الحق: میرے خیال میں آسٹریلیا فیورٹ ہے، خاص طور پر اپنے گھر میں کھیلتے ہوئے۔ ایک وقت تھا کہ ہوم ٹیمیں ورلڈ کپ میں اچھی کارکردگی نہیں دکھاتی تھیں لیکن یہ رجحان خاص طور پر ون ڈے میں تبدیل ہوگیا ہے۔ T20Is میں، یہ رجحان ابھی شروع نہیں ہوا ہے لیکن آسٹریلیا اس رجحان کی ابتدا کا باعث بنے گا۔ عام طور پر دفاعی چیمپئن بننے اور اپنے ملک میں کھیلنے کا مطلب دباؤ ہے لیکن کھیل کی تاریخ میں ایسی کوئی ٹیم نہیں ہے جو آسٹریلیا کی طرح فیورٹ کی چھاپ سے نمٹتی ہو۔ ٹم ڈیوڈ کی شمولیت سے کینگروز کی بیٹنگ لائن اپ اور بھی مضبوط ہوگئی ہے۔ کھیل کو اختتام تک پہنچانے والا ویڈ لاجواب فارم میں ہے۔ ان کا ٹاپ آرڈر ترتیب پا گیا ہے اور ان کی بولنگ کے ذخیرے میں ہر طرح کے ہتھیار موجود ہیں، بائیں ہاتھ سے تیز بولنگ کرنے والے اسٹارک، ایک قابل بھروسہ ہیزل ووڈ ، ناقابل پیش گوئی دائیں ہاتھ کے بولر پیٹ کمنز اور زمپا جیسا ہنر مند لیگ اسپنر، انہیں اِن کے ملک میں شکست دینا مشکل ہو گا۔
حیدر اظہر: جہاں تک فیورٹ کا تعلق ہے، تو آسٹریلیا سے آگے دیکھنا مشکل ہے، خاص طور پر جب وہ اپنے وطن میں کھیل رہے ہوں۔ ہوم کنڈیشنز سے فائدہ اٹھانے کے لیےتباہ کن بلے باز ان کے پاس ہیں۔ ان کا مڈل آرڈر گلین میکسویل، ٹم ڈیوڈ، میتھیو ویڈ کے ساتھ دلکش ہے۔ انگلینڈ بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں کیونکہ ان کے کھلاڑیوں کو بگ بیش لیگ میں کھیلنے کا کافی تجربہ ہے لیکن میرے لیے آسٹریلیا سے آگے دیکھنا مشکل ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کے پاس مارکس اسٹونیس اور مچل مارش کی شکل میں فاسٹ باؤلنگ آل راؤنڈرز بھی ہیں۔ دونوں دہرا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ارسلان شیخ: اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تمام ٹیموں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہر ٹیم میں کوئی نہ کوئی خامیاں ہیں۔ اس کے باوجود دو ٹیمیں کاغذ پر مکمل نظر آتی ہیں اور اعلیٰ سطح کی کرکٹ کھیل رہی ہیں، انگلینڈ اور میزبان آسٹریلیا۔ انگلینڈ نے ابھی پاکستانی ٹیم کو سات میچوں کی T20I سیریز میں اس کو ہوم گراؤنڈ پر شکست دی تھی اور آسٹریلیا کو اس کے ہوم گراؤنڈ پر ہرایا تھا۔ اس کے پاس دھماکہ خیز بیٹنگ اور متحرک باؤلنگ ہے۔ دوسری طرف آسٹریلیا کے پاس بھی یہ تمام اجزا موجود ہیں اور یہ ٹیم جانتی ہے کہ بڑے ٹورنامنٹ کیسے جیتے جاتے ہیں۔ وہ دفاعی چیمپئن ہے اور اس کے وطن میں کھیلنا اسے ایک طاقت بناتا ہے۔ کاغذ پر، آسٹریلوی ٹیم ناقابل تسخیر نظر آتی ہے۔ اس کی کوئی منطقی وجہ نہیں ہے کہ آسٹریلیا کو ٹورنامنٹ کا فیورٹ قرار نہ دیا جائے، یہ محض وجدان اور یقین ہے کہ عالمی اعزاز کا دفاع کرنا بالکل بھی آسان نہیں ہے۔
عظیم صدیقی: میرے مطابق آسٹریلیا کی ٹیم سب سے بہتر نظر آرہی ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ بحیثیت ٹیم کتنی متوازن ہے۔ ٹم ڈیوڈ کی آمد یقینی طور پر ایک سے زیادہ طریقوں سے ٹیم کو مضبوط کرتی ہے۔ ہوم ٹیم کے لیے واحد مسئلہ اس کے کپتان ایرون فنچ کی فارم ہو گی۔ اس کے باوجود کاغذ پر کینگروز کے قریب پہنچنے والی واحد ٹیم انگلینڈ ہے اور اگر کوئی اور ٹیم ٹائٹل اپنے نام کر لیتی ہے تو یہ صدمے سے کم نہیں ہو گا۔
خضر غزالی: پاکستان کو کسی بھی صورت ٹائٹل کی دوڑ سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور پر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیسے بڑے مواقع پر۔ صرف چند ہی ایسے ہیں جو پاکستانی ٹیم کو ایونٹ کے لیے فیورٹ قرار دے سکتے ہیں لیکن میرے خیال میں ، جب بھی آپ انہیں گھیرتے ہیں، وہ گرجتے ہیں اور دنیا کو حیران کر دیتے ہیں، جیسا کہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی2017ء میں ہوا تھا۔ ‘‘
س: ٹورنامنٹ کے دوران سب سے زیادہ کون سی ٹیم مایوس کرے گی؟
مظہر ارشد: میرے نزدیک یہ افغانستان کی ٹیم ہوگی۔ اس کے پاس بیٹنگ آرڈر میں گہرائی نہیں ہے اور وہ تیز بولنگ میں بھی کمزور ہے ۔ وہ اوپنرز اور اسپنرز پر بہت زیادہ انحصار کرے گی۔
نبیل ہاشمی: مجھے لگتا ہے کہ ویسٹ انڈیز کے لیے یہ مہم اس کی ٹیم میں ون ڈے اور ٹی ٹوینٹی کے بہت اچھے کھلاڑی ہونے کے باوجود مایوس کن رہے گی۔ وہ تشکیل نو کے مرحلے سے گزر رہے ہیں اور ایک میگا ایونٹ آسٹریلیاں میں کھیلنا مشکل ہوگا۔
ریحان الحق: ویسٹ انڈیز ایک بار پھر کوالیفکیشن کے ذریعے مرکزی راؤنڈ میں جگہ بنا رہا ہے۔ وہ اپنے ماضی سے زیادہ کمزور ہیں پھر بھی فرنچائز کرکٹ کے کچھ بڑے نام ان کے لیے دستیاب ہیں۔ ایک زمانے میں وہ T20 ورلڈ کپ پر راج کررہے تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ2021 ء کے ایڈیشن کے بعد یہ ان کے لیے ایک اور مایوس کن مہم ہو سکتی ہے۔ اگر وہ اچھی کارکردگی نہیں دکھاتے تو یہ حیرت کی بات نہیں ہوگی لیکن فارمیٹ میں ان کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے، اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرنا مایوسی کا باعث ہوگا۔
حیدر اظہر: میرے خیال میں گزشتہ سال کی رنرز اپ نیوزی لینڈ کی ٹیم پہلے کی طرح قابل اعتماد نہیں لگ رہی۔ میں کہوں گا کہ سرفہرست ٹیموں میں سے، نیوزی لینڈ شاید اس قسم کی کامیابی حاصل نہ کر پائے جیسی حالیہ وائٹ بال ٹورنامنٹس میں حاصل ہوئی ہیں۔ تاہم ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بڑے مقابلوں میں کیویز ہمیشہ سرپرائز دیتے ہیں۔
ارسلان شیخ: کہا جاتا ہے کہ بھارت چیمپئن شپ جیتنے میں سب سے آگے ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ ٹورنامنٹ میں سب سے بڑی مایوسی کا باعث ہوگا۔ جسپریت بمرا کی غیر موجودگی اور عمر رسیدہ بھونیشور کمار کی موجودگی میں بھارت کے پاس باؤلنگ اٹیک کافی کمزور ہے۔ اس کے پاس ہرشل پٹیل، دیپک چاہر اور ارشدیپ سنگھ جیسے خاصے ناتجربہ کار فاسٹ بولر ہیں ، کیونکہ محمد شامی کو بمرا کے متبادل کے طور پر منتخب نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، بہت زیربحث آنے والے کھلاڑی سوریہ کمار یادیو حالیہ دنوں میں غیر معمولی رہے ہیں، لیکن یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ وہ بڑی باؤنڈریز کے ساتھ آسٹریلیا کی وکٹوں پر کیسی کارکردگی دکھاتے ہیں۔
عظیم صدیقی: جتنا بھی مشکل نظر آتا ہو لیکن مجھے یقین ہے کہ میگا ایونٹ میں پاکستانی ٹیم ناکام ترین ٹیموں میں شامل ہوگی۔ وجہ یہ ہے کہ بابر اعظم اور محمد رضوان پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ اس کے علاوہ، یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا شاہین شاہ آفریدی، جو کہ شدید انجری سے واپس آئے ہیں، برائے نام میچ پریکٹس کے ساتھ اپنا ردھم حاصل کرپائیں گے۔
خضر غزالی: نیوزی لینڈ شاید مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کرے کیونکہ وہ اس وقت ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں نتائج، ٹیم اور انفرادی کارکردگی کے لحاظ سے کہیں نہیں ہے۔
س:ورلڈ کپ میں آپ کس ٹیم کو ’’ چھپا رستم‘‘ کے طور پر دیکھتے ہیں؟
مظہر ارشد: ویسٹ انڈیز کیونکہ اس کے پاس نکولس پوران، اوڈین اسمتھ اور ایون لیوس جیسے کچھ واقعی دھماکا خیز بلے باز ہیں۔ آسٹریلیا کی کنڈیشنز ان کے مطابق ہو سکتی ہیں اور وہ گیند کو بڑے میدانوں سے باہر پہنچانے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔ ان کے اوپنر کائل مائر بھی اچھی فارم میں ہیں۔ الزاری جوزف فاسٹ بولنگ کر رہے ہیں، وکٹیں لے رہے ہیں اور اپنے کیریئر کی بہترین فارم میں ہیں۔ پھر ان کے پاس اکیل حسین کی صورت میں ایک کفایتی اسپنر ہے۔ اس ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز چند ٹیموں کو حیران کر سکتی ہے۔
نبیل ہاشمی: میرے خیال میں اس سال کے ٹورنامنٹ میں’’ چھپے رستم‘‘ سری لنکا اور جنوبی افریقہ ہوں گے۔ یہ دونوں ٹیمیں تشکیل نو کے مرحلے میں ہیں لیکن ان کی حالیہ فارم پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ آئی لینڈرز نے حال ہی میں ایشیا کپ جیتا ہے جہاں وہ فیورٹ نہیں تھے جبکہ جنوبی افریقہ نے انہیں دو طرفہ سیریز میں ہندوستان کا سخت مقابلہ کیا۔
ریحان الحق: میرے لیے چھپا رستم پاکستان ہے۔ پاکستانی ٹیم کی بلے بازی کے انداز کے بارے میں کبھی نہ ختم ہونے والی بحث ہے۔ مڈل آرڈر کی جانچ پڑتال کی گئی ہے اور وہ انتہائی دباؤ میں ہے۔ تاہم، اس کے باجود پاکستانی ٹیم میں وہ سب کچھ موجود ہے کہ وہ کھیل کے اس فارمیٹ میں کسی کو بھی حیران کرسکیں۔ وہ ایک اچھی ٹی ٹوئنٹی ٹیم ہیں لیکن آسٹریلیا کی کنڈیشنز میں شارٹ باؤلنگ کھیلنے کے مسائل کے پیش نظر کوئی بھی ان کی درجہ بندی نہیں کرتا ہے۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ ان کے لیے ایشیا کے مقابلے میں آسٹریلیا میں باؤنسرز سے نمٹنا آسان ہوگا، آسٹریلیا میں گیند کا زیادہ مستقل باؤنس ہوتا ہے۔ اگر پاکستان شاداب اور نواز کو بیٹنگ آرڈر میں فلوٹرز کے طور پر صحیح طریقے سے استعمال کر سکتا ہے اور کسی طرح اپنے بیٹنگ کے وسائل کو بڑھاسکتا ہے، تو ان کی باؤلنگ انہیں میچ میں فتح سے ہمکنار کرسکتی ہے۔
حیدر اظہر: اس ٹورنامنٹ میں میرا ’’چھپا رستم‘‘ پاکستان ہوگا۔ میرے خیال میں ان پر اس قسم کا عنوان لگانا مناسب ہے کیونکہ وطن میں بیٹھے ہوئے ناقدین ان پر سنجیدگی سے شک کر رہے ہیں۔ وہ ایسے مسائل سے دوچار ہیں جن سے نمٹنا ابھی باقی ہے۔ ان کے ٹاپ آرڈر پر بہت سست بیٹنگ کا الزام لگایا جا رہا ہے جب کہ مڈل آرڈر پر وہ نتائج نہ دینے کا الزام لگایا جا رہا ہے جس کی ان سے توقع تھی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر وسائل کا صحیح استعمال کیا جائے تو وہ بڑی ٹیموں کو بھی چیلنج کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں ایک اور ٹیم جنوبی افریقہ ہے جس پر دوسروں کو نظر رکھنی چاہیے۔ اس نے حال ہی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اس کی کارکردگی معیار سے نیچے چلی گئی ہے۔
ارسلان شیخ:اس بڑے ایونٹ میں جنوبی افریقہ سرپرائز پیکج ثابت ہو سکتا ہے۔ پروٹیز نے گزشتہ 12 مہینوں میں 18 میچ کھیلے، 11 جیتے اور ان میں سے 6 میں شکست کھائی۔ کوئنٹن ڈی کاک، ایڈن مارکرم، ڈیوڈ ملر، ریلی روسو، کیشو مہاراج، تبریز شمسی اور کاگیسو ربادا جیسے کھلاڑی اپنا دن ہونے پر فتح گر ثابت ہوسکتے ہیں۔
عظیم صدیقی: میں جنوبی افریقہ پر یقین رکھتا ہوں۔ وہ ایک ٹیم ہے جو ماضی قریب سے بتدریج اپنی کارکردگی بہتر کرتی آرہی اور میں انہیں کم از کم آخری چار ٹیموں کے لیے کوالیفائی کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ ان کے لیے سب سے اہم مثبت بات بیٹنگ آرڈر میں روسو کی واپسی ہے۔ اس کی آمد نے ڈیوڈ ملر جیسے شخص کو مزید اعتماد دیا ہے جو پچھلے دو سالوں کے دوران بہت اچھی فارم میں رہا ہے۔
خضر غزالی: ٹھیک ہے، افغانستان کو’’ چھپا رستم‘‘ کہنا قدرے زیادتی ہو سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ مقابلے کی ’’سرپرائز‘‘ ٹیم ہو سکتی ہے۔ ان کے کلیدی کھلاڑی راشد خان کے علاوہ ، محمد نبی کی قیادت میں ٹیم میں کئی کھلاڑی غیرمعمولی کارکردگی دکھاسکتے ہیں جن میں فاسٹ بولر فضل الحق فاروقی اور رحمن اللہ گرباز بھی شامل ہیں۔
س: کن کھلاڑیوں کی کارکردگی پر نگاہیں لگی ہوں گی؟
مظہر ارشد: کوئی ایک نہیں ہے تو میں صرف ان کا نام لوں گا۔ ٹم ڈیوڈ، افتخار احمد، ڈیوڈ ملر، اوڈین اسمتھ، ہاردک پانڈیا۔
نبیل ہاشمی: یہ مشکل ہے لیکن میں پاکستان کے فاسٹ بولرنسیم شاہ، جنوبی افریقہ کے نوجوان ٹرسٹن اسٹبس، انگلینڈ کے مڈل آرڈر بلے باز ہیری بروک، ویسٹ انڈیز کے فاسٹ بولر الزاری جوزف اور آسٹریلیا کے ہارڈ ہٹ بلے باز ٹم ڈیوڈ کا انتخاب کروں گا۔
ریحان الحق: میرے خیال میں بہت سارے کھلاڑی ہیں جن پر دھیان رکھنا چاہیے۔ آئیے اس معاملے کے لیے انگلینڈ کے بروک کے ساتھ شروع کریں۔ حال ہی میں ان کی پاکستان کے خلاف واقعی اچھی سیریز رہی اور وہ کچھ عرصے سے زبردست T20 ڈومیسٹک فارم میں ہیں۔ وہ ان کے کلیدی کھلاڑی ہو سکتے ہیں۔ پھر ہم پاکستان کے نسیم شاہ کو دیکھ سکتے ہیں۔ شاہین کی انجری سے واپسی کے ساتھ، بہت سارے شکوک و شبہات ہیں تاہم دائیں ہاتھ کے پیسر میں پاکستان کے نئی گیند کے ساتھ حملے کی قیادت کرنے کی صلاحیت ہے۔ ان کے پاس کامیابی کے لیے تمام خام اجزا موجود ہیں۔ ہم شاداب خان کے بارے میں کیسے بات نہیں کرسکتے؟ اگر وہ ٹاپ فور میں بیٹنگ کرتے ہیں تو یہ ان کا اب تک کا بہترین بین الاقوامی ٹورنامنٹ ہو سکتا ہے۔ وہ پاکستان کے لیے گیند کے ساتھ انتہائی مستقل مزاجی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تاہم اگر وہ اپنی ڈومیسٹک بیٹنگ فارم کو انٹرنیشنل میں تبدیل کر سکتے ہیں تو وہ دیکھنے والے کھلاڑیوں میں سے ایک ہوں گے۔ نیوزی لینڈ کے فن ایلن بھی اتنے دور نہیں ہیں۔ نیوزی لینڈکے ابتدائی بلے باز تیز رنز بنانے میں مشکلات کا شکار رہے ہیں تاہم، اگر فن ایلن جم جاتے ہیں تو ان کی یہ مشکل دور ہوسکتی ہے۔ آسٹریلیا کے ٹم ڈیوڈ کا ہر طرف چرچا ہے اور وہ اپنی ٹیم میں ایک نئی جہت کا اضافہ کرتے ہیں۔ ہندوستان کے سوریہ کمار یادو ایک اور کھلاڑی ہیں جو شہرت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اگر ہندوستان نے اس ورلڈ کپ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہے تو انہیں شرما اور کوہلی جیسے کھلاڑیوں سے بھی زیادہ دھماکہ خیز کارکردگی دکھانی ہوگی۔
حیدر اظہر: میرے لیے سب سے پہلے ناموں میں سے ایک سوریہ کمار یادیو کا ہے۔ انہوں نے ماضی قریب میں اتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے کہ ہر کوئی ان کا نوٹس لے اور ہندوستان کی اچھی کارکردگی دکھانے کے لیے، ان کا اس ٹورنامنٹ کو اپنے بلے کے ساتھ یادگار بنانا ضروری ہوگا۔ انہیں ہندوستان کی کارکردگی کی کلید بننے کی ضرورت ہے۔ ایک اور کھلاڑی جنہیں میں واقعی اس ٹورنامنٹ میں دیکھنے کا خواہشمند ہوں وہ پاکستان کے نسیم شاہ ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ وہ کیسے باؤلنگ کرتے ہیں۔
ارسلان شیخ: جنوبی افریقہ کے نوجوان ٹرسٹن اسٹبس نے انگلینڈ کے خلاف 234 رنز کا تعاقب کرتے ہوئے صرف 28 گیندوں پر 72 رنز بنا کر اپنی آمد کا اعلان کیا۔ اس کے بعد آسٹریلیا کے ٹم ڈیوڈ ہیں جو پاکستان سپر لیگ کے تازہ ترین ایڈیشن کے دوران نمایاں ہوئے۔ اس کے بعد انہیں انڈین پریمیئر لیگ کی ممبئی انڈینز اور پھر قومی ٹیم نے منتخب کیا۔ یہ شخص، جو پہلے سنگاپور کے لیے کھیلتا تھا، آسٹریلیا کے لیے اپنے مختصر دور میں متاثر کن رہا ہے۔ وہ آسٹریلیا کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ انگلینڈ کے ہیری بروک بھی ایک غیر معمولی کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے خلاف سیریز میں اپنی ساکھ ثابت کی اور ورلڈ کپ کی مہم کے دوران اپنی ٹیم کے لیے اہم کھلاڑی ثابت ہوں گے۔
عظیم صدیقی: بہت سارے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ ٹورنامنٹ ٹم ڈیوڈ کے لیے یادگار ہوگا۔ وہ بعض اوقات ناقابل یقین کارکردگی دکھاتے ہیں۔ ان کے پاس یقینی شکست کو ٹال کر آسٹریلیا کو فتح سے ہمکنار کرنے کی صلاحیت ہے۔
خضر غزالی: حال ہی میں بلے اور گیند دونوں کے ساتھ متعدد قابل ذکر پرفارمنس کے ساتھ، محمد نواز ممکنہ طور پر ایک آل راؤنڈر ہوں گے جنہیں آئی سی سی مینز ٹی 20 ورلڈ کپ 2022 ء میں نظروں میں رکھا جائے گا۔ ان کے علاوہ، میرے خیال میں ٹم ڈیوڈ بھی مرکز نگاہ ہوں گے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
 
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                 