Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

کے ڈی اے روڈ پر صرف مَردوں کو دکھائی دینے والی چڑیل

Now Reading:

کے ڈی اے روڈ پر صرف مَردوں کو دکھائی دینے والی چڑیل

کراچی کی سڑکیں کچرے کی بھرما ر کے ساتھ ساتھ ، کہانیوں اور واقعات سے بھری پڑی ہیں ۔ ایسی ہی ایک کہانی ہم آپ کو سناتے ہیں جو ایک ایسی حسین عورت سے متعلق ہے جو رات گئے کے ڈی اےکی سڑک کے فٹ پاتھ پر کھڑی نظر آتی ہے۔ اس عور ت میں عجیب بات یہ ہے کہ ہ ہ صرف ایسے مرد حضرات کو نظر آتی ہے جو شہر کی ہنگامہ خیز زندگی میں ایک مصروف دن گذارنے کے بعد گھروں کو واپس لوٹ رہے ہوتے ہیں ۔ وہ مرد اس عورت کو دیکھ کر اس کی خوبصورتی اور پُرسکون انداز کو دیکھ کر سحر زدہ رہ جاتے ہیں، لیکن جب وہ اس عورت کے قریب آتے ہیں تو انہیں ایک ایسی چیز نظر آتی ہے جو انہیں گھبراہٹ میں مبتلا کردیتی ہے۔ اس عورت کے پاؤں پیچھے کی جانب مڑے ہوئے ہیں ۔اس عورت کا مشاہدہ کرنے والے زیادہ تر مردوں کا کہنا ہےکہ اس عورت کو اپنی گاڑی کے قریب آتا ہوا دیکھ کر  ان کی رگوں میں خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ ہلنے جلنے سے سے قاصر ہوجاتے ہیں ۔ کچھ لمحوں بعد ، جیسے ہی ان کا دماغ کسی حد تک کچھ سوچنے کے قابل ہوتا ہے ، وہ تیزی کے ساتھ اپنی گاڑی کو اس عورت سے دور لے جاتے ہیں ۔

کے ڈی اے کی سڑک پر کھڑی اس عور ت کو دیکھنے والے اکثر مرد، خوف کے باعث بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔اس منفرد خاتون کو دیکھنے والے مرد ، اس خوفناک رات کو یاد کرتے ہوئے اب بھی اپنی رگوں میں دہشت کو لہر کو محسوس کرتے ہیں ۔ اخبار کے دفتر میں کام کرنے والے سینئر صحافی محمد قیصر نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ1984ء کی ایک رات تھی جب میں آدھی رات کے وقت اسی سڑک پر گاڑی چلا رہا تھا۔ میں نے ایک خاتون کو فٹ پاتھ پر کھڑے دیکھا، اس کی جلد زرد جبکہ آنکھیں مسحور کن تھیں، مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ اس نے سرخ رنگ کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔ اس عورت نے میری گاڑی نزدیک آنے پر براہ راست میری طرف دیکھا۔جیسے ہی میں نے گاڑی روکی، میں نے دیکھا کہ اس کے پاؤں پیچھے کی جانب مڑے ہوئے تھے۔میں یہ منظر دیکھ کر شدید خوف میں مبتلا ہوگیا، اور ہلنے جلنے کی صلاحیت سے یکسر بالکل محروم ہوگیا۔ وہ دھیرے دھیرے میری گاڑی کی طرف بڑھ رہی تھی اور گاڑی میں بیٹھے بیٹھے میرے دل کی دھڑکن تیز ہوچکی تھی ۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس وقت کیا ہوا؟ جب میرے پاؤں خود بخود ایکسلریٹر پر گئے اور میں وہاں سے گاڑی کو تیزی سے بھگانے میں کامیاب ہوگیا۔ اوسان بحال ہونے پر میں نے بیک ویو مرر کو دیکھا تو وہاں کوئی نظر نہیں آیا‘۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اب تک جن لوگوں نے اس خاتون کو دیکھا وہ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ عورت مافوق الفطرت طاقت کی حامل ہے۔ اسے عام اصطلاح میں ‘چریل’ کہا جاتا ہے۔ برصغیر کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ‘چریل’ کا کردار’ ڈائن ‘ سے بہت مختلف ہے۔ جادوگرنی ا اس عورت کو کہا جاتا ہے ، جو جادو کرنے کا عمل جانتی ہے۔ چریل، ایک عورت کی انتقامی روح ہے جو اپنی موت کا بدلہ لینے آتی ہے۔ کوئی بھی انسان یہ فرض کر سکتا ہےکہ روح کی جانب سے محسوس کیا جانے والا انتقام کچھ ایسے پریشان کن مسائل کی وجہ سے رونما ہونتے ہیں جب کے حل تلاش نہ کیے جاسکے ہوں۔ ہم خود یہ یہ بھی فرض کرسکتے ہیں کہ یقینی طور پر اس عورت کی موت طبعی طور پر واقع نہیں ہوئی تھی ۔ہم ایسا ایسا اس لیے کہہ سکتے ہیں کیونکہ اگر عورت قدرتی وجوہات سے مر ی ہوتی تو اس کی روح اس کی موت کا بدلہ لینے کے لیے واپس نہیں آتی ۔ اس بات کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہےکہ اس خاتون کو قتل کیا گیا تھا۔

ایک معروف فرم کے ایگزیکٹو حیدر نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’اس دنیا میں کچھ ایسی چیزیں موجود ہیں جن کا تعلق اس دنیا سے نہیں ہے، وہ بلاشبہ مافوق الفطرت قوتیں کہلائی جاتی ہیں ۔ بہتر یہ ہوتا ہےکہ ان کے ساتھ کسھی بھی طرح سے الجھنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ میں اسے دیکھ چکا تھا اور مجھے معلوم تھا کہ اگر میں وہاں رکا تو میرے ساتھ کیا ہوگا؟‘ نوجوان نے مزید بتایا کہ ’میں وہاں سے تیزی سے نکلنا چاہتا تھا لیکن مجھے محسوس ہوا کہ میری موٹر سائیکل کی رفتار سست ہو رہی ہے۔میں نے بیک ویو مرر میں بھی کچھ نہیں دیکھا، بس دل ہی دل میں قرآنی آیات کا ورد کرتا رہا اور موٹر سائیکل چلاتا رہا‘۔ حیدر نے افسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ’میرا دوست میری طرح خوش نصیب ثابت نہیں ہوا ، وہ وہاں سے بھاگنے میں ناکام رہا اور اس کی موت واقع ہوگئی‘ ۔

حیدر نے مزید بتایا کہ اس روح فرسا واقعے کی وجہ سے اس کے دوست کا 2 سال پہلے اسی مقام پر انتقال ہو گیا ،جہاں اس سے اس عورت کو دیکھا تھا۔ کے ڈی اے روڈ پر موٹر سائیکل کے حادثے نے اس کے دوست کی جان چلی گئی ۔ حیدر نے اس پراسرار خاتون کو ،اپنے دوست کی موت کا اصل ذمہ دار ٹھہرایا۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ اس فرضی ’چڑ یل‘ کو آخر کے ڈی اے روڈ پر قابض ہونے کا اختیا ر کیسے حاصل ہوا؟ وہ کہاں سے آئی ہے اور کیا چاہتی ہے؟در اصل’ چڑیل‘

Advertisement

ایک اصطلاح ہے جو قدیم فارس (موجودہ ایران) سے آئی ہے اور جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہاس کا تعلق مافوق الفطرت قسم کی مخلوق سے ہے۔ وہ ڈرف مردوں کو نشانہ بناتی ہے۔ تو کیا ہم یہ فرخ کر سکتے ہیں کہ ’چڑ یل‘ توتقریباً 200 سال پہلے ایران کے راستے یہاں آیا کرتی تھی ؟ تو اس کا جواب ہے کہ نہیں ،ایسا نہیں ہے۔ یہ بلا ہمارے پڑوسی ممالک سے یہاں نہیں آئی بلکہ معاملہ ہماری سوچ سے بالکل ہی الگ ہے ۔ یہ داستان امریکا سے شروع ہوتی ہے، جہاں ایک سفید پوش خاتون سڑک پر چلتی ہوئی نظر آئی۔ جو کوئی بھی اس عورت کی مدد کے لیے وہاں رکا ، اس کی وہیں موت واقع ہوگئی ۔ اس طرح وہاں اسی نوعیت کے واقعات میں متعدد لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں ۔ یہاں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ سڑک پر سیاہ برف (کالی برف عام برف کی طرح ہوتی ہے جو ایک گلیز کی طرح سطحوں پر بنتی ہے) پڑی ہو ،جس کے نتیجے میں گاڑی وہاں پر چلنے کی صلاحیت سے محروم ہوجائے جس کی وجہ سے حادثہ رونما ہوجائے اورمسافر اپنی جان سے چلاجائے ۔ تاہم گاڑی میں سوار لوگوں کی موت کسی طرح بھی واقع ہو، مورد الزام اس پراسرار خاتون کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس یکساں نوعیت کے واقعات نے بڑے پیمانے پر ہسٹیریا کی شکل اختیار کر لی، اور اس واقعے نے برصغیر کے دیگر ممالک کا بھی سفر کیا۔تاہم ، کوئی بھی شخص ان واقعات کی حتمی تاریخ اور وقت بتانے سے یقینی طور پر قاصر ہے۔

اس طرح کا روایتی علم یا عقیدہ مختلف شہروں میں افسانوں کی صورت میں جنم لیتے ہیں ، اور یہ بالکل اسی طرح سے پھیلتے ہیں جیسے افواہیں ،سرگوشیوں کی صورت میں گردش کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں ۔ لوگ عام طور پر جو کچھ سنتے ہیں اس میں ترمیم کرتے ہیں اور اسے آگے منتقل کرتے ہیں۔تبتی ثقافت میں، یہ اکثر ’توپا ‘ کی طرح ہے جو اس کی طرف دی گئی توجہ سے اپنی طاقت حاصل کرتا ہے۔برصغیر میں واپس آتے ہوئے، تقسیم سے پہلے کے وقت میں، زمین کی اکثریت دیہات پر مشتمل تھی اور زیادہ تر لوگ دیہات میں رہتے تھے۔زیادہ تر دیہاتوں میں بنی جھونپڑی میں ایک اکیلی اور بیوہ عورت بستی تھی ۔ لوگوں نے اس عورت سے متعلق ’عجیب‘ داستانیں سنائیں ۔ ایسی کہانیاں کو معاشرے کے معمول سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں ۔ اس لیے اسے ’مختلف‘ قرار دیتے ہوئے اس پر جادو ٹونے کا الزام لگایا گیا۔اسے اکثر ایک درخت سے باندھ دیا جاتا ، اور گاؤں کے مردوں اور ان کےہم منصبوں کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنا کر ماردیا جاتا۔ جرم کا منظر، وہی تھا، جسے ’مافوق الفطرت‘ سمجھا جائے گا اور گاؤں والے اس سے دور رہیں گے۔ نہ پولیس کو بلایا جائے گا اور نہ ہی کسی جرم کی اطلاع دی جائے گی۔قتل ہونے والی بدقسمت عورت آنے والی نسلوں کے لیے ایک لیجنڈ بن کر رہ جائے گی۔یہ اس جرم کی بھی نشاندہی بطور انتقامی جذبے کی داستان کے طور پر کرتا ہے جس میں علاقے کی کچھ طبی ماہر خواتین بھی شامل تھیں ۔

وہ امیر اورمالدار تھے ، ان کو ان کی جائیداد کی وجہ سے قتل کیا گیا۔کچھ کو اپنے سسرال والوں کے ساتھ نہیں مل کر نہ ہرنے کی وجہ سے قتل کردیا گیا یا پھر لڑکی پیدا کرنے یا آزاد سوچ رکھنے کی وجہ سے مار دیا گیا۔ جب مرد رات کے آخری پہر میں خوبصورت لیکن اس نوعیت خوفناک مخلوق کی کہانیاں سناتے ہیں،تو وہ صدیوں پہلے تخلیق کی گئی کہانی کو دوبارہ سنا رہے ہوتے ہیں۔ یہ کہانیاں ان کے پردادا سے اگلی نسل میں منتقل ہورہی ہیں ۔ فرش کے کنارے کھڑی تنہا شخصیت اس المیے سے زیادہ کچھ نہیں جسے ایک عورت نے برداشت کیا او ر جس نے اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔لیکن وہ دن اور اس کی عمر میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ پھر بھی لوگ قسمیں کھاتے ہوئے نہیں تھکتے کہ انہوں نے ’چڑیل‘ کو دیکھا ہے۔

اندھیرے اور خوف کا انسانی دماغ پر عجیب اثر ہوتا ہے۔ ایک تاریک سڑک پر تنہا گاڑی چلانے والا آسانی سے اس کیفیت میں مبتلا ہوسکتا ہے اور دماغ ایسے مناظر کو دیکھ کر دھوکہ کھا سکتا ہے۔ دماغی امراض کے ماہر ڈاکٹر معیز حسین کا کہنا ہےکہ کسی بھی مادے کے اثر و رسوخ کے بغیر، دماغ ہپنوٹک ٹرانس کی حالت میں جا سکتا ہے اور اندھیرے کے دوران خوف پیدا ہونے کی صورت میں اور خوف موجود ہونے کی صورت میں ہیلوسینیٹ (ایسی چیز کے بارے میں حقیقی احساس کا تجربہ ہونا جو حقیقت میں موجود نہیں )کر سکتا ہے۔1980ء کی دہائی میں اس شخصیت کا مشاہدہ کرنے والے شہباز نے دعویٰ کیا ہےکہ اس نے جو دیکھا وہ حقیقت پر مبنی تھا۔ شہباز نے کہا کہ’میں آپ کو بتا رہا ہوں، میں نے دھوکہ نہیں کھایا بلکہ اس کو واضح طور پر دیکھا تھا ۔ وہیں کھڑی تھی، میں اس کے بارے میں پہلے سے سن چکا تھا اس لیے اس پر نظر پڑتے ہی میں نے اس کے پاؤں دیکھ لیے تھے جو پیچھے کی جانب مڑے ہوئے تھے‘ ۔

اب ، اس بارے میں یہی کہا جاسکتا ہےکہ اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ایک طاقتور مافوق الفطرت ہستی جس کا واحد مقصد سڑکوں پر چکر لگانا اور لوگوں کو خوفزدہ کرنا اور مار ڈالنا ہے۔کیا کبھی ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی اس کے پاؤں کی ساخت کو بدل سکے ؟ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اس عورت کی حقیقی شکل واقعی خوفناک ہے، لیکن وہ مردوں کو ان کے عذاب کی طرف راغب کرنے کے لئے اپنی شکل بدل لیتی ہے۔ اس پراسرار عورت کی طاقتیں اس کے قدموں پر کیوں ختم ہوں گی؟یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ اس کے ساتھ ایسا کیا ہوا تھا کہ کوئی بھی اسے دور سے دیکھتے ہی سمجھ جاتا ہے کہ وہ کون ہے؟ اس بات کو ماننا پڑے گاکہ پراسرار عورت کے پیروں کا معمہ اب تک حل نہیں ہوسکا۔ چاہے آپ سنت پر یقین کریں یا نہ کریں۔دنیا کے کئی مقامات سمیت پڑوسی ممالک کی اکثریت نے ’چڑیل‘ کو دیکھا ہے۔ اب صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی بیلچہ لے کر اس جگہ کو کھودے اور معمہ حل کرنے کی کوشش کرے ۔

سڑک پر نظر آنے والی بیچاری غریب عورت حقیقت میں تخیل کا ایک مجسمہ ہے جسے گھناؤنے جرائم کے مرتکب افراد نے بہت پہلے تخلیق کیا تھا۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی باقیات مل جائیں اور آخر کار ا سے ساتھ جانے والوں کے ساتھ سپرد خاک کر دیا جائے۔ تب تک آپ سفر کریں اور عجیب و غریب پیروں کی خوبصورتی سے ہرگز خوف نہ کھائیں ۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
ایس-ٹریک پورٹل کی بندش، چینی کی فراہمی رک گئی، قیمتیں بڑھنے کا خطرہ
سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری، اعلیٰ سطحی کاروباری وفد پاکستان پہنچ گیا
آئی سی سی نے مینز اور ویمنز پلیئر آف دی منتھ کی نامزدگیوں کا اعلان کر دیا
سفید انار کے فوائد جو آپ کو حیران کر دیں
پیپلزپارٹی سے بڑھتےاختلافات: محسن نقوی کل وزیراعظم سے اہم ملاقات کریں گے
سندھ میں ٹائر جلانے اور پائرو لائسز پلانٹس کے آپریشن پر مکمل پابندی عائد
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر