Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

کیا سوات کے طالبان کے پاس موقع ہے؟

Now Reading:

کیا سوات کے طالبان کے پاس موقع ہے؟

مبصرین کا کہنا ہے کہ حکام خاموش ہیں لیکن سوات کے لوگ طالبان کو نکالنے کے لیے پرعزم ہیں

جنت نظیر وادیِ سوات کو تقریبا ڈیڑھ دہائی بعد ایک بار پھر دہشت گردی کے گرداب میں پھسنے کو کے خطرے کا سامنا ہے۔ لیکن دو دہائیوں میں پہلی بار، یہاں کے لوگ نہ صرف طالبان کو سوات سے بے دخل کرنے کے لیے ’لڑو یا مرو‘ کے انداز میں کھڑے ہو رہے ہیں، بلکہ ان کے پس و پشت موجود عناصر کو بھی بے نقاب کر رہے ہیں۔

مسلح عسکریت پسند پہلی بار رواں سال اگست کے اوائل میں خیبر پختونخواہ (کے پی) صوبے کے وزیر اعلیٰ محمود خان کے آبائی شہر مٹہ میں نمودار ہوئے۔ اورفائرنگ کے تبادلے میں کم از کم چار پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔

اس بات نے لوگوں کی طرف سے ان کے خلاف احتجاج کو جنم دیا جنہیں انہوں نے افغانستان میں مقیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کی سوات میں ’’بلا رکاوٹ‘‘ آمد کے طور پر بیان کیا۔ اس پر سوالات اٹھائے گئے کہ وہ سوات تک کیسے پہنچ سکتے ہیں کیونکہ اس کی سرحد افغانستان کے ساتھ نہیں ملتی۔

ستمبر کے وسط میں مظاہروں نے زور پکڑا جب بارہ بانڈئی کے علاقے میں دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) کے حملے میں گاؤں کی امن کمیٹی کے رکن، ادریس خان سمیت پانچ افراد مارے گئے۔

Advertisement

 تاہم، ان مظاہروں کی اصل طاقت گزشتہ منگل کو اس وقت دیکھنے میں آئی جب مینگورہ شہر کے مرکزی نشاط چوک کے علاقے میں ہزاروں لوگ جمع ہوئے جس کو انہوں نے سوات الاسی پاسون (سوات عوامی بغاوت) کا نام دیا۔ چارباغ شہر کے قریب گلی باغ گاؤں کے علاقے میں N-95 قومی شاہراہ پر ایک اسکول وین پر گزشتہ پیر کو دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا۔

مذکورہ وین نے ہائی وے کے ساتھ قائم ایک اسکول میں بچوں کو چھوڑا تھا اوراس وقت فائرنگ کی زد میں جب آئی وہ اگلے اسکول کی طرف جا رہی تھی۔ اس واقعے میں وین ڈرائیور حسین علی موقع پر ہی جاں بحق جب کہ اگلی سیٹ پر بیٹھا بچہ تین گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہو گیا۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) زاہد نواز مروت نے بعد میں ٹویٹ کیا کہ نشانہ وین ڈرائیور تھا، اسکول کے بچے نہیں۔ لیکن مقتول ڈرائیور کے اہل خانہ نے اس کی لاش گلی باغ کے علاقے میں سڑک پر رکھ کر ٹریفک بلاک کر دی اور جلد ہی سیکڑوں لوگ ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ اہل خانہ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور حسین علی کا قتل دہشت گردی کی کارروائی ہے۔

سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں اس وقت مظاہروں کا سلسلہ پھیل گیا جب سیکیورٹی فورسز نے گزشتہ اتوار کو ایک 55 سالہ مقامی شخص اور اس کے 19 سالہ بیٹے کو دہشت گرد قرار دے کر ہلاک کر دیا۔ باپ اور بیٹے کو بظاہر اس وقت قتل کیا گیا جب انہوں نے “سادہ لباس” میں ملبوس چار افراد کو گولی مار کر زخمی کر دیا جو صوبہ پنجاب کے “کچھ لوگوں” کے ساتھ جاری رقم کے تنازعہ کے دوران انہیں دھمکیاں دینے آئے تھے۔ مبینہ طور پر زخمی ہونے والے چار افراد کی شناخت بھی نامعلوم ہے (یا بول نیوز ان کی شناخت کی تصدیق نہیں کرسکا……)

سوات سے تعلق رکھنے والے صحافی، فیاض ظفر، جنہوں نے قتل ہونے والے افراد کے اہل خانہ سے بات کی، کا کہنا ہے کہ وہ الزام لگاتے ہیں کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد نے ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے فوج میں اپنے رابطوں کو استعمال کیا۔ سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں فیاض ظفر کہتے ہیں: “اہل خانہ کا کہنا ہے کہ سادہ کپڑوں میں چار افراد مقتول باپ بیٹے کے کام کی جگہ پر گئے۔ حالات بگڑنے پر باپ نے چاروں مہمانوں کو گولی مار کر زخمی کر دیا، جس نے پھر بیک اپ کے لیے فوج کو بلایا، جس کے نتیجے میں جائے وقوعہ پر پہنچنے والے فوجیوں نے باپ اور بیٹے دونوں کو گولی مار دی۔”

بول نیوز سے بات کرتے ہوئے فیاض ظفر کا کہنا ہے کہ ضلع بونیر کے ساتھ سرحد پر بالا ثور، گٹ پیوچار، مالم جبہ اور پہاڑی ایلام سمیت مختلف علاقوں میں 200 سے 250 طالبان کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔ “لوگوں میں بڑھتی ہوئی تشویش اور خوف کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نظر نہیں آتی۔ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ پولیس اور سیکورٹی فورسز کیوں غیر فعال ہیں۔‘‘

Advertisement

موجودہ حالات کا 2007ء کے حالات سے موازنہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ لوگ اُس وقت کے مقابلے میں اس بار زیادہ خطرے سے آگاہ ہیں۔

وہ کہتے ہیں، “2007ء میں، طالبان ہاتھوں میں بندوقیں تھامیں اچانک داخل نہیں ہوئے۔ اس کے بجائے، انہوں نے اپنے ایف ایم ریڈیو اسٹیشن پر پروپیگنڈا شروع کیا اور مذہبی اسکول قائم کیے، جہاں وہ مذہبی اجتماعات منعقد کرتے تھے۔ پھر انہوں نے ہتھیار اٹھائے اور مقامی معززین کو مارنا شروع کر دیا جس سے لوگ خوفزدہ ہو گئے۔ لیکن اس بار عوام کو ساراکھیل معلوم ہے۔ اور اب وہ نہ اسٹیج سے تقریر کرنے والے اور نہ ہی سننے والے ڈرتے ہیں ‘‘۔

انسانی حقوق کے کارکن مظہر آزاد، جو پچھلے دو مہینوں سے جاری ان مظاہروں کا حصہ رہے ہیں، ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہیں، جس کی وجہ سے سوات میں طالبان عسکریت پسندی کی واپسی ہوئی۔

وہ کہتے ہیں کہ “ٹی ٹی پی کے ساتھ پراسرار حلقوں کی طرف سے مذاکرات کیے گئے جو لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتے تھے، اور ایسے معاہدے کیے گئے جو ظاہر نہیں کیے گئے تھے۔ یہاں عام تاثر یہ ہے کہ اس طرح طالبان کی سوات میں واپسی کے لیے راہ  ہموار ہوئی ‘‘ ۔

لیکن اس بار ایسی حرکتیں کامیاب نہیں ہوں گی، کیونکہ سوات کے تمام حصوں میں لوگ کھل کر احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ کسی بھی فوجی آپریشن، نقل مکانی یا اپنی املاک پر قبضے کو قبول نہیں کریں گے، جیسا کہ ماضی میں ہوا تھا۔

ایک اور سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکن زاہد خان اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عسکریت پسندوں کے پاس سوات میں خود کو مستحکم کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ “لوگ اب اپنے برانڈ کے اسلام کو خریدنے کے لیے تیار نہیں ہیں”۔

Advertisement

2007 کی طالبان کی شورش کا حوالہ دیتے ہوئے، وہ کہتے ہیں کہ اس وقت، طالبان سب سے پہلے مجرموں، بدعنوان اہلکاروں اور بدکردار مقامی بااثر افراد کے پیچھے پڑے، جسے عام لوگ اچھی چیز کے طور پر دیکھتے تھے۔ “جلد ہی ان کی بری دہشت گردانہ ذہنیت کھل کر سامنے آگئی، تاہم، جس نے لوگوں کو کمیونٹی کونسلز بنانے اور ان کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرنے کے لیے اعلیٰ حکام پر دباؤ ڈالنے پر مجبور کیا۔”

 وہ کہتے ہیں کہ آج لوگ اس آپریشن کی “غیر سنجیدگی” کو بھی جانتے ہیں، جسے عسکریت پسندوں کو افغانستان فرار ہونے کی اجازت دینے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر سابق وزیر داخلہ مرحوم رحمٰن ملک نے یہاں تک دعویٰ کیا تھا کہ ملا فضل اللہ کو سکیورٹی فورسز نے گھیرے میں لے لیا ہے۔ پھر بھی، سوات میں انتہائی مطلوب شخص بغیر کسی نقصان کے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور کئی پہاڑیوں اور میدانوں، دریاؤں اور ندی نالوں کو عبور کرتا ہوا کنڑ پہنچ گیا۔

زاہد خان کے مطابق، جب افغان طالبان نے غیر ملکی جنگجوؤں سے ان کے آبائی ممالک کو واپس جانے کو کہا، تو پاکستان نے تمام اسٹیک ہولڈرز کی نمائندگی کرتے ہوئے حکومتی سطح پر مناسب مذاکرات کرنے کے بجائے اس کام کے لیے ’’غیر متعلقہ‘‘ لوگوں کو ملازمت دی۔ “کئی طالبان کمانڈروں کو پاکستانی جیلوں سے رہا کیا گیا اور بہت سے لوگ عیدالاضحیٰ سے پہلے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ جب تک وہ لو پروفائل رہے، مقامی لوگوں نے فکر نہ کی۔ لیکن ایک بار جب انہوں نے بندوقیں اٹھائیں اور سڑکوں پر گشت کرنا شروع کر دیا تو لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ کیا ہو رہا ہے ‘‘۔

ماہر تعلیم اور سوات میں قائم غیر منافع بخش ادارہ IBT کے سربراہ زبیر تورولی نے ااس بات کو مزید آگت بڑھاتے ہوئے کہا کہ سوات کے لوگوں کو نہ تو سکیورٹی فورسز پر اور نہ ہی سول انتظامیہ پر کوئی بھروسہ ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ “لوگ کسی بھی شکل میں عسکریت پسندی کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور میں ہر واقعے کے ساتھ ان کے غصے میں اضافہ دیکھ سکتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی مرکزی دھارے کے میڈیا میں، دانشوروں کے ساتھ ساتھ سیاسی قوتوں میں بھی خاموشی و خوف ہے۔ حکمران جماعت کے کسی بھی سیاستدان نے اب تک موجودہ صورتحال پر عدم اطمینان کا اظہار نہیں کیا‘‘۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
ٹی وی میزبانوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ! برطانوی چینل پر بھی اے آئی اینکر متعارف
پیرس کے تاریخی ’’لوور میوزیم‘‘ میں چوری کی واردات کس طرح انجام دی گئی؟ تفصیلات سامنے آگئیں
حماس نے جنگ بندی توڑی تو انجام تباہ کن ہوگا، امریکی صدر کی دھمکی
مہنگائی کا نیا طوفان آنے کا خدشہ ، آئی ایم ایف کا پاکستان کو انتباہ
کراچی میں 20 گھنٹوں کے دوران ٹریفک حادثات، 2 بچوں سمیت 10 افراد جاں بحق
کیا یہ دوہرا معیار نہیں؟ خامنہ ای کے قریبی ساتھی کی بیٹی مغربی لباس میں دلہن بن گئیں
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر