Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

معاشی بحالی کے اسحاق ڈار کے جھوٹے دعوے مالی بحران میں اضافہ کر رہے ہیں

Now Reading:

معاشی بحالی کے اسحاق ڈار کے جھوٹے دعوے مالی بحران میں اضافہ کر رہے ہیں

Advertisement

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے معاشی بحالی کے دعوؤں کے باوجود، پاکستان قرضوں کے جال میں پھنستا ہی چلا جارہا ہے، کیونکہ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو کر 8 ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں ۔فروری 2022ء کے بعد آنے والی حکومتوں کی طرف سے کیے گئے فیصلوں نے مشکل خارجی حالات کو حل پذیری کے مکمل بحران کی جانب دھکیل دیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) پروگرام سے انحراف کرتے ہوئے پٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں میں تین ماہ کےلیے اضافہ کردیا۔اس کے بعد پاکستان مسلم لیگ کی قیادت میں مخلوط حکومت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے خوف سے معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات اٹھانے میں تاخیر کا مظاہرہ کیا ۔اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ۔ملکی دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ حکومت نے یکم مارچ 2022ء سے 9 اپریل 2022ء تک پیٹرولیم مصنوعات پر 52 ارب روپے کی سبسڈی فراہم کی۔اپریل تا جون 2022ء میں مجموعی طور پر مالیاتی سبسڈیز 954 ارب روپے رہی جس میں سے ایک بڑا حصہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کو فراہم کیا گیا۔تاہم جیسے ہی بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتیں غیر معمولی طور پر بڑھنے لگیں، سبسڈی بھی قابو سے باہر ہو گئی۔

اس دوران ملک میں سیاسی درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔آئی ایم ایف پاکستان سے بالکل خوش نہیں تھا۔ اس موقع پر ملک کے دیوالیہ ہونے کی خبریں عام ہونے لگیں۔ بالآخر، پاکستان آئی ایم ایف کے پاس بہت سخت شرائط کے ساتھ دوبارہ گیا۔

مئی 2021ء سے آج تک، وزرائے خزانہ ہر گذرتے وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے رہے ۔اس عرصے کے دوران ڈاکٹر حفیظ شیخ، حماد اظہر، شوکت ترین، مفتاح اسماعیل اور اب اسحاق ڈار کو معیشت کو پٹری پر لانے کا کام سونپا گیا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ وزارت خزانہ کی بار بار تبدیلی کے ساتھ آئی ایم ایف کی شرائط مزید سخت ہو چکی تھیں ۔وجہ یہ ہےکہ ہر نئی تقرری کے ساتھ، بعد میں آنے والے وزراء نے پہلے سے خودمختار وعدوں پر عمل کرنے سے گریز کیا اور ناقص مذاکرات کی شرائط کا حوالہ دے کر معاملے سے گویا فرار ہونے کی کوشش کی۔بدلے میں ، ہر بار آئی ایم ایف کھوئے ہوئے ریونیو کی وصولی کے لیے نت نئے طریقے سے سوال جواب کرتا رہا۔مثال کے طور پر، پٹرولیم لیوی (فروری 2022ء سے پہلے) 30 روپے تک ہونی چا ہیے تھی لیکن پروگرام کے دوبارہ شروع ہونے کے بعد اسے بڑھا کر 50 روپے کر دیا گیا ہے۔یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ آئی ایم ایف مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے پیٹرولیم اور دیگر ٹیکسوں کی مد میں جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے نفاذ پر اصرار کر رہا ہے۔ بلاشبہ یہ واضح ہوچکا ہےکہ نئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جادو کی چھڑی اب کام نہیں کر رہی ہے۔گویا معاشی معاملات اسحاق ڈار کے ہاتھوں سے نکلتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔

ریونیو جنریشن میں بہتری کے باوجود آئی ایم ایف نے پاکستان سے تقریباً 600 ملین روپے اضافی ٹیکس لگانے کو کہا ہے۔تاہم، ہوشربا مہنگائی کے دوران ، متعلقہ حکام نے مزید ٹیکس عائد کرنے کے مطالبے کو ابھی تک قبول نہیں کیا ہے ،جسے دارالحکومت میں حکمران اتحاد کی سیاسی خوش بختی اور اپوزیشن کی مقبولیت کے پیچھے ہونے والے اہم عوامل میں سے ایک قرار دیا جارہا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مطالبات پاکستانی حکام کے سامنے آئی ایم ایف کے پاکستان میں مشن چیف ناتھن پورٹر نے واشنگٹن میں حالیہ بات چیت کے دوران نصف درجن دیگر شرائط کے ساتھ پیش کیے تھے۔وزارت خزانہ کے ذرائع نے تصدیق کی کہ یہ مسئلہ پروگرام کے جائزہ مذاکرات کے اگلے دور میں دوبارہ زیر بحث آئے گا جو نومبر میں متوقع ہے۔

ذرائع نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ اگر فیڈرل بورڈ آف ریونیو 7 اعشاریہ 47 ٹریلین روپے کا سالانہ ہدف حاصل کر لیتا ہے تو بھی ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب طے شدہ سطح سے نیچے آجائے گا۔بجٹ کے وقت، حکومت نے 11 اعشاریہ 5فیصد کی اوسط افراط زر کی شرح جب کہ 5 فیصد کی اقتصادی ترقی کی شرح کی بنیاد پر جی ڈی پی کے حجم کا تخمینہ 78 ٹریلین روپے لگایا تھا۔7 اعشاریہ470 ٹریلین روپے کا سالانہ ٹیکس ہدف مجموعی گھریلو پیداوار کے تقریباً 9 اعشاریہ6فیصد کے برابر ہے۔تاہم مختلف انتظامی اقدامات، روپے کی قدر میں کمی، سیلاب اور خوراک کی فراہمی کے جھٹکوں کی وجہ سے اب اوسطا مہنگائی کا تخمینہ 23 فیصد جبکہ مجموعی ملکی پیداوار کی شرح نمو 2 فیصد کے لگ بھگ ہے۔

Advertisement

مہنگائی میں اضافے کے بعد، رواں مالی سال کے لیے جی ڈی پی کا تخمینہ 83 ٹریلین روپے لگایا گیا ہے۔ اس سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب تقریباً 8 اعشاریہ 9 فیصد تک گر جائے گا۔ذرائع نے بتایا ہے کہ میکرو اکنامک فریم ورک کے اہداف پر قائم رہنے کے لیے آئی ایم ایف نے اندازہ لگایا ہے کہ پاکستان کو جی ڈی پی کے صفر اعشاریہ 75فیصد کے برابر اضافی ریونیو اقدامات کرنے پڑ سکتے ہیں۔

حکومت نے سالانہ ٹیکس وصولی کا ہدف 7اعشاریہ 47 ٹریلین روپے مقرر کیا ہے جس کے لیے گزشتہ سال کی وصولی کے مقابلے میں 22 فیصد شرح نمو درکار ہے۔ایف بی آر نے پہلی سہ ماہی کے دوران ایک اعشاریہ 61 ٹریلین روپے سے زائد اکٹھے کیے ہیں، جس نے اپنے ہدف کو 26 ارب روپے سے زیادہ کیا ہے۔لیکن مجموعی ترقی کی شرح 17 فیصد تھی جو کہ موجودہ افراط زر کی شرح سے نمایاں طور پر کم ہے۔اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ مخلوط حکومت اس طرح کا مطالبہ مان لے گی۔مسلم لیگ (ن) کی ساکھ اور مقبولیت مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر نظر آرہی تھی ۔ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے جو آپشن دیا ،ان میں سے ایک پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس عائد کرنا تھا لیکن وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کی ٹیکس سے متعلق سفارشات قبول کرنے سے انکار کردیا۔اس

وقت حکومت پٹرول پر 47 اعشاریہ 50 روپے فی لیٹر جب کہ ڈیزل پر تقریباً 7 اعشاریہ 58 روپے فی لیٹر پٹرولیم لیوی وصول کر رہی ہے۔

آئی ایم ایف نے حکومت سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ پیٹرولیم لیوی کے نفاذ کے لیے طے شدہ منصوبے پر عمل پیرا رہے، جو جنوری 2023ء میں پیٹرول پر 50 روپے فی لیٹر اور مارچ 2023ء تک ڈیزل پر 50 روپے فی لیٹر کی ضمانت دیتا ہے۔

حکومت پہلے ہی پیٹرول پر زیادہ سے زیادہ حد کے قریب پہنچ چکی تھی لیکن اب اسے ٹریک پر رہنے کے لیے اگلے مہینے سے ڈیزل پر ٹیکس بڑھانا شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان پر اینٹی کرپشن ٹاسک فورس کو نوٹیفائی کرنے پر بھی زور دیا ہے جس پر حکومت نے رواں سال جون میں رضامندی ظاہر کی تھی۔

معاہدے کے مطابق، جنوری 2023ء تک، پاکستان انسداد بدعنوانی کے ادارہ جاتی فریم ورک کا ایک جامع جائزہ شائع کرے گا۔اس جائزے میں بنیادی طور پر قومی احتساب بیورو(نیب) ، بین الاقوامی تجربہ اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ آزاد ماہرین کی شرکت کے ساتھ ایک ٹاسک فورس کے ذریعے سفارشات مرتب کی جائیں گی ۔ ٹاسک فورس مناسب اسٹرکچرل اصلاحاتی اقدامات کی سفارش بھی کرے گی ، جو انسداد بدعنوانی کے اداروں کی آزادی کو مضبوط کریں گی ۔ ساتھ ہی سیاسی اثر و رسوخ اور ظلم و ستم کو روکنے میں مدد ملے گی اور بدعنوانی کے خلاف شفافیت اور احتسابی کنٹرول فراہم کیا جاسکے گا۔

Advertisement

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے واشنگٹن کے پہلے دورے کے کوئی مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ درحقیقت آئی ایم ایف مزید سخت اقدامات کا مطالبہ کر رہا ہے۔طے شدہ شیڈول کے مطابق حکومت کو برآمد کنندگان پر ڈیوٹی اور ٹیکس چھوٹ ختم کرنے، تمام بینکوں کو شامل کرنے کے لیے پرسنل انکم ٹیکس کی سابقہ تجویز کو بحال کرنے، ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی شرح میں اضافہ، کیپٹیو پاور جنریشن اور گھریلو بجلی کی پیداوار پر ٹیکس، ٹیوب ویلوں پر بجلی کی سبسڈی ختم کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ یہ سخت فیصلے ہیں کیونکہ معاشی حالات سازگار نہیں ہیں۔اکتوبر اور نومبر میں غیر ملکی قرضوں کی اصل ادائیگیاں6 اعشاریہ 1 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ ان میں سے کچھ کو رول اوور کر دیا جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف ) کی گرے لسٹ سے نکلنے اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے ایک اعشاریہ 5 بلین ڈالر کے قرض کی تقسیم کی منظوری کے بعد مارکیٹ میں ایسا کوئی جوش و خروش نظر نہیں آرہا، جس کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔

آئی ایم ایف کا جائزہ نومبر میں ہونا ہے، حالانکہ حکومت اسے اکتوبر کے آخری ہفتے میں چاہتی تھی۔اس کی کامیابی کے لیے کچھ سخت فیصلوں کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ورلڈ بینک پاکستان کو کوئی امداد فراہم نہیں کرے گا۔اس کے ساتھ ہی ، دوست ممالک یعنی ۔ قطر، متحدہ عرب امارات یا سعودی عرب۔کی جانب سے وعدوں پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ جب اسحاق ڈار نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تو کہا گیا کہ وہ آئی ایم ایف سے معاہدے پر راضی ہو جائیں گے لیکن وہ ناکام رہے۔وزیر خزانہ نے موڈیز (ریٹنگ ایجنسی) کو پاکستان کی ریٹنگ کم کرنے کے لیے مناسب جواب دینے عہد لیا لیکن انہیں ایک اور ریٹنگ ایجنسی (فچ) کی طرف سے جاری کی گئی ریٹنگ (کمی) کا سامنا کرنا پڑا۔ رفتہ رفتہ سامنے آنے والے حقائق کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہا۔ اصل میں اسحاق ڈار نا تعلق ان لوگو ںمیں سے ہے جو ماضی سے باہر نہیں آسکے ۔ وہ 1998ء اور 2013ء کے معاشی حالات (بحران )کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ 1998ء میں، ملک نے اپنے قرضے ادا کیے اور زرمبادلہ کے ذخائر منجمد کر دیے۔2013ء میں مسلم لیگ( ن)سستی فنانسنگ کے لیے آئی ایم ایف کے پاس گئی۔یہ پہلے والے وقت سے قدرے مختلف دور تھا ۔ امریکا، افغانستان میں اسلام آباد کی حمایت چاہتا تھا۔ آئی ایم ایف نے 2013/16 کے پروگرام میں ریکارڈ 18 چھوٹ دے دی۔اس بار صورتحال بالکل مختلف ہے۔ اگلے چھ ماہ مزید مشکل نظر آرہے ہیں ۔جو لوگ یہ ہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے سیاسی سرمائے کو کچھ معاشی رعایتیں دے کر دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے، انہیں اپنی بات پر دو بارہ غور کرنا چاہیے۔

زمینی حقائق بہت تلخ ہیں اور اس پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ڈالر کی کمی معاشی سرگرمیوں کو بڑے پیمانے پر متاثر کر رہی ہے۔درآمد کنندگان کو ان کے لیٹر آف کریڈٹ کے لیے ڈالر نہیں مل رہے ہیں، جب کہ بینک ڈالر ٹیلی گرافک ٹرانسفر ریٹ کے لیے 250 روپے سے زائد کا حوالہ دے رہے ہیں ۔ ایک درآمد کنندہ نے بتایا کہ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 220 روپے میں دستیاب نہیں ہے اور لیٹر آف کریڈٹ کے لیے اس پر 25 سے 30 روپے پریمیم ادا کرنا پڑتا ہے۔مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی7 اعشاریہ 6 ارب ڈالر تک گر گئے۔اوپن مارکیٹ میں صورتحال اور بھی خراب ہے۔ڈیلرز کے مطابق اوپن مارکیٹ میں روزانہ 50 سے 60 ملین ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔

تاہم اس وقت،5 ملین ڈالر سے کم تجارت ہو رہی ہے۔ یہ ڈالر افغانستان اور ایران اسمگل کیا جا رہا ہے۔

ایک معروف ایکسچینج کمپنی کے ڈیلر نے کہا ہےکہ مرکزی بینک کے اقدامات کے باوجود اسمگلنگ عروج پر ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ حکومتی ادارے ایک پیج پر نہیں ہیں۔سینئر ماہر معاشیات ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا تھا کہ ماضی میں ڈار کی پر امیدی نے پاکستان کو معاشی بحران میں ڈال دیا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیر خزانہ نے پاپولسٹ راستے پر چلتے ہوئے اصلاحی اقدامات نہ کیے تو معیشت ایک گہرے بحران کی طرف جا سکتی ہے، جو ماضی سے کہیں زیادہ شدید ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ وزیر خزانہ آئی ایم ایف یا کسی اور کثیر الجہتی ایجنسی سے کوئی ریلیف لینے کے قابل ہیں۔آئی ایم ایف نے حالیہ جاری پروگرام میں ہم پر سختی کی کیونکہ پچھلے پروگرام کے دوران اسحاق ڈار نے اعدادوشمار کے ذریعے کم خسارہ دکھا کر معیشت کی ترقی کے اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، اس حقیقت کے باوجود کہ وزیر خزانہ کے طور پر ان کے ساڑھے تین سال میں برآمدات جمود کا شکار رہی۔

سینئر ماہر معاشیات ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق، اس کے بعد سے آئی ایم ایف نے وزارت خزانہ کی طرف سے فراہم کردہ اعداد و شمار پر دوہرا چیک رکھا۔وزیرخزانہ کا جارحانہ رویہ ان کی پارٹی قیادت کو خوش کر سکتا ہے لیکن اس نے کثیرالجہتی ڈونر ایجنسیوں کو ناراض کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے موڈیز کواور اب جے پی مورگن کودیکھا جنہوں نے نہ صرف پاکستان کے بانڈز اور مالیاتی اداروں کو کم کیا بلکہ معیشت میں کوجود سٹرکچرل کمزوریوں کی نشاندہی بھی کی۔ سینئر ماہر معاشیا ت نے کہا کہ موجودہ حکومت سیاسی اور معاشی استحکام پیدا کرنے پر توجہ دینے کے بجائے دکھاوے کے راستے پر گامزن ہے اور تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ملک میں جاری سیاسی بحران کی وجہ سے، مالی سال 22 کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) میں ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 47 فیصد کم ہو کر 253 ملین ڈالر رہ گئی، جو پچھلے سال کی اسی مدت میں 479 ملین ڈالر تھی۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
کراچی: ای چالان سسٹم کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر
فیلڈ مارشل کا دورہ پشاور، افغانستان کو واضح پیغام دے دیا
بھارتی بینک کی وائی فائی آئی ڈی ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نام سے تبدیل، ہنگامہ برپا ہوگیا
پی آئی اے کی نجکاری ایک بار پھر تعطل کا شکار ہو گئی
امریکی ناظم الامور کی خواجہ آصف سے ملاقات، دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
سیکیورٹی فورسز کی اہم کامیابی، ٹی ٹی پی کے نائب امیر قاری امجد کا خاتمہ کر دیا گیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر