
افغانستان کے قومی نشریاتی ادارے ریڈیو ٹیلی ویژن افغانستان (آر ٹی اے )کا مقصد ملک اور اس کے عوام کی حقیقی نمائندگی ہے
منیجنگ ڈائریکٹر ریڈیو ٹیلی ویژن افغانستان (آر ٹی اے)مولوی احمد اللہ وثیق نے کابل میں ایک انٹرویو کے دوران بول نیوز کو بتایا کہ مالی مجبوریوں کے باوجود، افغانستان کے قومی نشریاتی ادارے ریڈیو ٹیلی ویژن افغانستان کا مقصد افغانستان اور اس کے عوام کی حقیقی نمائندگی کو وسعت دینا ہے۔
مولوی احمد اللہ وثیق نے بتایا کہ پورے افغانستان میں آر ٹی اے ( ملی ریڈیو ٹیلی ویژن) کے صرف ایک ہزار 700 سے زائد ملازمین ہیں۔صرف دارالحکومت میں 350 خواتین سمیت 11 سو ملازمین آر ٹی اے سے منسلک ہیں۔ یہاں تمام عملے کو باقاعدہ تنخواہیں دی جارہی ہیں اور حقیقت ان کی تنخواہوں میں جلد اضافہ کردیا جائے گا۔
ملی ریڈیو ٹیلی ویژن کے سربراہ کی حیثیت ست 9 ماہ قبل چارج سنبھالنے والے احمد اللہ وثیق نے انکشاف کیا کہ ان پر کا م کا دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے تناؤ کی صورتحال بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ اکثر واقعات کی درست منظر کشی کرنے میں ایک یا دو فیصد کمی بیشی رہ جانے کی صورت میں 98 فیصد کیا گیا بہترین کام کے پیچھے کی گئی تمام محنت ضائع ہوجاتی ہے۔ مولوی احمد اللہ وثیق نے کہا کہ اگر کسی نیوز آئٹم یا ایونٹ کی کوریج، مقررہ اصولوں کے مطابق نہیں ہوتی تو درجنوں اہلکار سمیت بعض اہم عہدوں پر فائز شخصیات ہمیں فوری طور پر کال کرنے لگتی ہیں یا ان کی جانب سے پیغامات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔جس کی وجہ سے ہمیں شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
45 سالہ احمد اللہ وثیق افغانستان میں طویل جنگ کے دوران امارت اسلامیہ افغانستان کے سب سے زیادہ فعال لیکن غیر معروف میڈیا پرسنز میں سے ایک رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ میں نے نویں جماعت تک ابتدائی تعلیم زابل کے بابا ہوتک اسکول سے حاصل کی، جہاں دینی تعلیم شیخ عبید الرحمن کے مدرسے میں حاصل کی۔انہوں نے کہا کہ میں نے کم عمری میں طالبان تحریک میں شمولیت سے قبل قندھار میں ملا محمد عمر کے جہادی مدرسے میں بھی تعلیم حاصل کی۔ستمبر 1996ء میں کابل پر قبضے کے ایک سال بعد، قندھار میں ثقافت اور معلومات پر شریعت گھگ (شریعت کی آواز) ریڈیو کے رپورٹر کے طور پر کام کرنا شروع کیا تھا ۔ احمد اللہ وثیق نے مزید کہا کہ میں نے قندھار میں طلوع ای افغان اخبار کے ایڈیٹر کے طور پر بھی کام کیا۔ احمد اللہ وثیق کے چاروں بچے ان دنوں افغانستان میں مذہبی اور ابتدائی تعلیم دونوں حاصل کر رہے تھے ۔
اس کے بعد احمد اللہ وثیق کابل چلے گئے اور افغان نیشنل ریڈیو میں بطور رپورٹر کام کا آغاز کردیا۔اس حوالے سے احمد اللہ وثیق نے بتایا کہ میں مختصر عرصے کے لیے آرٹ اینڈ لٹریچر ونگ کا انچارج بھی رہا اور جب اگست 1998ء میں طالبان نے مزار شریف پر قبضہ کیا تو اس وقت میں افغانستان پر امریکی حملے تک وہاں کے محکمہ اطلاعات و ثقافت کا سربراہ مقرر تھا۔
طالبان نے گزشتہ دو دہائیوں میں اپنی مزاحمت کی خبریں فراہم کرنے کے اپنے فرائض کی انجام دہی کے بارے میں ایک اکاؤنٹ کا اشتراک کرتے ہوئے۔اس حوالے سے احمد اللہ وثیق نے کہا کہ وہ مختلف قسم کے سیڈو ناموں کا استعمال کریں گے، ای میلز، واٹس ایپ سوشل میڈیا ایپ اور پورے افغانستان میں باقاعدگی سے ماہانہ میٹنگز کے ذریعے رابطہ کریں گے۔انہوں نے مزید بتایا کہ میں نے طالبان کی آفیشل الامارہ ویب سائٹ کا انتظام کیا، دری، پشتو اور انگریزی زبان کی ویب سائٹس کا انتظام کیا۔اسی وقت میں طالبان کے انفارمیشن اینڈ کلچر کمیشن کے جنوب مغربی علاقے کا انچارج تھا۔
منیجنگ ڈائریکٹر ریڈیو ٹیلی ویژن افغانستان نے کہا کہ ہمارا تقریباً سارا کام آن لائن ہوا کرتا تھا۔ ملک بھر میں ہمارے دفاتر کی تعداد بہت کم تھی لیکن صرف چند لوگ ہی ان کے بارے میں جانتے تھے اور بہت کم ساتھی کبھی کبھار ان جگہوں پر جاتے تھے،لیکن اکثر ہماراآن لائن رہ کر ای میلز اور واٹس ایپ کے ذریعے کام کو تقسیم کرنا ہوتا تھا۔ ہماری ماہانہ میٹنگ ہوتی تھی اور جن علاقوں میں میٹنگ ہوتی وہاں کے ساتھی ان میں شرکت کرتے تھے ۔
احمد اللہ وثیق نے کہا کہ بنیادی طو پر ہماری توجہ ہماری فوجی کارروائیوں اور ہمارے زیر کنٹرول علاقوں میں ہونے والے واقعات کی درست اور بروقت خبریں دینے پر ہوتی تھی ، اس کے ساتھ ہی ہم اپنی ویب سائٹس اور نیوز گروپس میں خبریں شیئر کرنے کے علاوہ انہیں بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ بھی شیئر کرتے تھے۔ ہمارے پاس 24 گھنٹے کام کرنے کا نظام موجود تھا ۔ہمارے جنگجوؤں کی طرف سے یا ہمارے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی کی خبر 15 سے 20 منٹ اندر ہماری تمام ویب سائٹس پر اپڈیٹ ہوجاتی تھی ۔
طالبان کو فوری طور پر معلومات ملنے اور ان معلومات کی تصدیق کے طریقے کے حوالے سے احمد اللہ وثیق نے کہا کہ انہوں نے افغانستان کے ہر ضلع میں بعض افراد کا تقرر کیا ہوا تھا، جو کسی بھی واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد اسے اپنے متعلقہ صوبے کے لیے طالبان کے شیڈو (غیر دستاویز)گورنر سے شیئر کرنے کے پابند ہوتے تھے ۔ احمد اللہ وثیق نے مزید بتایا کہ گورنر طالبان، ثقافتی کمیشن کے نامزد کردہ صوبائی انچارج کے ساتھ اشتراک کرنے سے پہلے مختلف ذرائع سے خبروں کی تصدیق کرتے تھے ۔ اس کے بعد انچارج مشرقی اور شمال کے لیے ذبیح اللہ مجاہد یا قاری یوسف احمدی کے ساتھ معلومات شیئر کرے گا، جو افغانستان کے جنوب مغرب کے ذمہ دار تھے۔پھر وہ خبر ہمارے ترجمان کے لیے درست سمجھی جاتی تھی اور اسے طالبان کی تمام ویب سائٹس ،میڈیا گروپس، اور بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں کے ساتھ ای میلز کے ذریعے شیئر کیا جا سکتا ہے۔
منیجنگ ڈائریکٹر ریڈیو ٹیلی ویژن افغانستان احمد اللہ وثیق نے انکشاف کیا کہ اس پورے عمل میں عام طور پر آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت درکار ہوتا ہے۔
2016ء میں احمد اللہ وثیق کو طالبان کلچر کمیشن کا نائب بنایا گیا جس کے سربراہ ذبیح اللہ مجاہد تھے۔اگست 2021ء میں
طالبان کے دوسری بار کابل پر قبضہ کرنے کے بعد، احمد اللہ وثیق کو وزارت اطلاعات و ثقافت کے شعبہ امورِ نوجوانوں کا پہلا سیکرٹری بنا دیا گیا۔ احمد اللہ وثیق کو طالبان کے ساتھ زیادہ تر معاملات کی طرح اپنے موجودہ عہدے پر اپنی تقرری کی درست صحیح تاریخ یاد نہیں لیکن انہوں نے ایک اندازے سے بتایا کہ یہ کوئی 8 یا 9 ماہ پہلے کی بات ہے۔
آر ٹی اے کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے طور پر اپنے انتخاب کے بارے میں بات کرتے ہوئے، مولوی احمد اللہ وثیق کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس عہدے کے لیے درخواست نہیں دی تھی اور نہ ہی انہیں طالبان سیٹ اپ میں کوئی عہدہ حاصل کرنے کی خواہش تھی۔انہوں نے کہا کہ امارت اسلامیہ افغانستان میں تمام ذمہ داریاں کابینہ اور عمائدین کی مشاورت کے بعد لوگوں کو سونپی جاتی ہیں۔آپ صرف وہاں رہنے کی خواہش کی وجہ سے کوئی عہدہ حاصل نہیں کر سکتے۔میں نے اس عہدے کے لیے کسی سے نہیں کہا لیکن انھوں نے، بلکہ طالبان کے سپریم لیڈر نے شاید میڈیا میں میرے ماضی کے تجربات کو دیکھا ہوا تھا ، تو مجھے یہ ذمہ داری دینے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
افغان قومی ٹیلی ویژن کا آغاز افغان یوم آزادی پر 19 اگست 1978ء کو کابل میں کیا گیا تھا جبکہ مزید اسٹیشن قندھار، جلال آباد اور ہرات میں 1983 میں اور بدخشاں اور غزنی میں 1985ء میں شروع کیے گئے تھے۔1998ء اور 2001ء کے درمیان افغانستان میں ٹیلی ویژن مکمل طور پر خاموش ہوگیا کیونکہ طالبان نے ملک میں ٹیلی ویژن پر پابندی عائد کردی تھی۔
مولوی وثیق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں آر ٹی اے کو ناکافی توجہ حاصل تھی کیونکہ اپ ڈیٹڈ(جدید) آلات نہیں خریدے گئے تھے بلکہ کرائے کے آلات پر رقم خرچ کی جاتی تھی،جبکہ اس کا مقصد نئے اور جدید آلات کا حصول تھا۔
احمد اللہ وثیق نے بول نیوز کو بتایا کہ میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں نے سب کچھ بدل دیا ہے لیکن میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے ریڈیو ٹیلی ویژن افغانستان میں بہت سی مثبت تبدیلیاں لائی ہیں۔پہلے یہ صرف کابل پر مرکوز تھا اور صوبوں کی نمائندگی بہت کم تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ اب، ہم صوبوں کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں ہیں اور وہ اب ہماری تمام ٹرانسمیشنز کا حصہ ہیں۔گویا اب مقابلہ مرکز اور صوبوں کے درمیان ہے۔
احمد اللہ وثیق نے مزید کہا کہ نیشنل براڈ کاسٹر ہونے کے ناطے ریڈیو ٹیلی ویژن افغانستان کی نمائندگی کر رہا تھا لیکن بااثر سوشل میڈیا کی جانب سے ناروا سلوک کیا گیا،فیس بک کی طرح ریڈیو ٹیلی ویژن کے افغانستان پیج کو 40لاکھ سے زیادہ فالوورز کے ساتھ بلاک کرنا دنیا کے ساتھ دوریاں ختم کرنے میں مدد نہیں دے رہا۔
احمد اللہ وثیق نے بتایا کہ ہم امارت اسلامیہ افغانستان کا چہرہ ہیں۔دنیا بھر کے لوگ ریڈیو ٹیلی ویژن افغانستان لینس کے ذریعے امارت اسلامیہ افغانستان( آئی ای اے )حکومت اور افغانستان کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے۔یہ اصل میں ایک عملی ادارہ ہے اور آر ٹی اے کی ذمہ داری لوگوں کو آگاہ کرنا اور انہیں اتفاق رائے پیدا کرنے کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔ہمارا مقصد دنیا کو افغانستان کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کی عدم موجودگی میں لوگوں کی حالت زار اور افغانستان کے لیے ان کی امداد کی تصویر دکھانا ہے۔آر ٹی اے کے مینیجنگ ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ا فغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سے چار یا پانچ نئے ارکان کے آنے والوں کے علاوہ، آر ٹی اے کا تمام عملہ وہی رہا۔ میرے فالوورزنے اپنی مرضی سے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے افغانستان چھوڑنے سے پہلے آریانا نیوز میں شمولیت اختیار کرلی ۔ہمارے پاس خبروں، ٹرانسمیشن ، تکنیکی، مالیاتی اور انتظامیہ، انسانی وسائل(ایچ آر )، منصوبہ بندی اور پالیسی کے محکموں سمیت سوشل میڈیا کے لیے پرانی حکومت کے دور کے ڈائریکٹرز موجود ہیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News