Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

عالمی کساد بازاری اور آزاد دنیا کے لیے نئے سوالات

Now Reading:

عالمی کساد بازاری اور آزاد دنیا کے لیے نئے سوالات

یورپ شدید مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔ پیداوار میں ایک بڑا زوال اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ افراطِ زر میں اِس قدر اضافے کے بارے میں کبھی تخمینے نہیں لگائے گئے تھے۔ معاشی کساد بازاری دس بارہ سال پہلے کی معاشی بے کیفی سے زیادہ پریشان کن حالت تک پہنچ چکی ہے۔ ترقّی یافتہ یورپی ممالک ماضی میں کبھی افراطِ زر کے بحران کے اِس قدر شکار نہیں ہوئے جس قدر وہ 21 ویں صدی کے رواں عشرے میں ہوئے ہیں۔ یورپی ممالک میں افراطِ زر کی موجودہ صورتحال ایک بڑے معاشی بحران کو دعوت دے رہی ہے۔ برطانیہ اگرچہ یورپی یونین سے نکل چکا ہے مگر برطانوی معیشت کا دائرہ یورپی ممالک کی معیشت کے بڑے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ برطانیہ، جرمنی اور اٹلی تین ایسے ممالک ہیں جہاں افراطِ زر دو ہندسوں کو عبور کر چکی ہے۔ برطانیہ میں افراطِ زر 10 اعشاریہ 1 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ گزشتہ چالیس برسوں کی بلند ترین شرح ہے۔ جرمنی میں افراطِ زر 10 اعشاریہ 4 فیصد تک چلی گئی ہے۔ یہ مغربی اور مشرقی جرمنی کے انضمام کے بعد افراطِ زر کی بلند ترین سطح ہے۔ اٹلی میں افراطِ زر 11 اعشاریہ 9 فیصد کے ساتھ گزشتہ 38 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ یونان میں افراطِ زر 9 اعشاریہ 1 فیصد جبکہ اسپین میں 8 اعشاریہ 9 فیصد کی سطح پر موجود ہے۔ سوئیٹزر لینڈ میں بھی 2020ء کے موسمِ سرما میں افراطِ زر میں اضافے کا سلسلہ شروع ہوا اور وہاں اِس کی شرح 7 اعشاریہ 9 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

یورپ کی جمی جمائی معیشتوں میں حالیہ انحطاط کوئی تازہ واقعہ نہیں۔ مگر حیران کن بات یہ ہے کہ معاشی اشاریے جو صورتحال پیش کرتے ہیں وہ حالات کو 2010ء کی معاشی کساد بازاری سے بھی زیادہ ابتر ظاہر کرتے ہیں۔ اگر برطانیہ میں افراطِ زر 40 سالہ، اٹلی میں 38 سالہ اور جرمنی میں 32 سالہ شرح عبور کر چکی ہے تو صورتحال کو اطمینان بخش تو بالکل نہیں کہا جا سکتا۔

Advertisement

مزید برآں یورپ میں جس قدر افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے، اُسی حساب سے مہنگائی اور اشیاء صرف کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یورپ کے حالات ایک ایسی کساد بازاری اور معاشی بے کیفی کی جانب بڑھ رہے ہیں جوعرب شہزادوں کی فیاضانہ سرمایہ کاری سے بھی سنبھالی نہیں جا سکے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یورو زون کی 34 کروڑ آبادی کن معاشی مشکلات کا شکار ہونے والی ہے اور ان مشکلات سے نمٹنے کیلیے کیا ذرائع اختیار کیے جائیں گے۔ دس بارہ سال میں دنیا کو بالعموم اور یورپ کو بالخصوص لگنے والا ایک اور بڑا معاشی جھٹکا کن حالات کا شکار کرتا ہے، یہ رواں صدی کے نصف آغاز کا ایک بہت بڑا سوال ہے۔ موجودہ حالات میں کیا یہ سمجھا جانا چاہیے کہ سوویت یونین کے زوال اور کمیونزم کے انہدام کے بعد سرمایہ داری بطور نظام ناکامی کا منہ دیکھنے والی ہے اور کیا دنیا میں دیگر مملکتوں کے انہدام اور وسائل کی بندر بانٹ کا کوئی سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔

آئیے ہم ایک نظر یورپ میں پیداواری کمی کے حالات اور اعداد و شمار پر ایک نظر ڈال لیں۔ برطانیہ میں اگست 2022ء تک گزشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں پیداوار میں 1 اعشاریہ 5 فیصد کمی واقع ہوئی۔ وہاں جن شعبوں میں پیداواری کمی واقع ہوئی اُن میں کان کنی اور کھدائی کے شعبے میں 2 اعشاریہ 7 فیصد، مینوفیکچرنگ کے شعبے میں 2 اعشاریہ 2 فیصد جبکہ تیل اور گیس کے شعبے میں 3 اعشاریہ 5 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اس کا نتیجہ مہنگائی اور ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں نکلا۔ غذائی اجناس، ایندھن اور توانائی کی بڑھتی قیمتوں نے بھی پیداوار پر اپنے اثرات مُرتّب کیے۔ اِن حالات نے عام صارفین کو بُری طرح متاثر کیا۔

جرمنی میں رواں سال جنوری سے اگست تک فولاد سازی کی صنعتی پیداوار میں 4 اعشاریہ 8 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اِس طرح جرمنی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 28 لاکھ 70 ہزار ٹن فولاد کی کم پیداوار حاصل ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ توانائی کے توسیعی شعبے کی صنعت مثلاً کیمیکل یا دھاتوں کی پیداوار میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔

اٹلی میں گزشتہ نو ماہ کے دوران آٹو موبائل کی پیداوار میں قابلِ ذکر کمی واقع ہوئی۔ اعداد و شمار کے مطابق اس عرصے میں 5 لاکھ 15 ہزار 380 گاڑیاں کم بنائی گئیں۔ رواں سال کے پہلے نصف میں پیداواری کمی نے ٹرانسپورٹ کی صنعت کو شدید متاثر کیا تھا۔ اِسی طرح اسپین اور یونان میں پیداواری کمی سے معیشتوں کو جھٹکوں کا سامنا رہا۔ اِس عرصے میں اسپین کو مالیاتی بوجھ، افراطِ زر اور معیشت کی زبوں حالی کا سامنا رہا جبکہ یونان میں الیکٹرک کے شعبے میں منفی 11 اعشاریہ 5 فیصد، پانی کی فراہمی کے شعبے میں منفی 5 فیصد اور کان کنی کے شعبے میں منفی 3 فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑا۔

ہمیں یہ بات پیشِ نظررکھنا ہوگی کہ پالیسیوں کی سخت گیری پیداوار میں مزید کمی کا سبب بنے گی۔ پالیسی ساز جب افراطِ زر اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف میدان میں اُتریں گے تو انہیں غیرلچکدار پالیسیوں کی راہ اختیار کرنا ہوگی جس سے سارا بوجھ صارفین پر پڑے گا اور وہ پہلے سے زیادہ مشکلات کا شکار ہوں گے اور یہی سرمایہ داری کا کمال ہے کہ وہ خود پر رکھے بوجھ کو اُتار کر عام صارف کے سر پر رکھ دیتی ہے۔ نظام نے اپنے نقصانات پورے کرنے ہوتے ہیں۔ اس کے اقدامات کے عام آدمی پر کیا اثرات مُرتّب ہوتے ہیں اِس سے اُسے کوئی غرض نہیں ہوتی۔

تین دہائیاں پیشتر 1990ء کے عشرے کے سوویت یونین اور 2022ء کے یورپ کے حالات میں کوئی مماثلت نہیں۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ تیس بتیس سال پہلے سوویت یونین رقبے کے اعتبار سے بڑا ملک تھا۔ اِس کرۂ ارض کے 2 کروڑ 24 لاکھ مربع کلومیٹر پر قائم یہ ملک دنیا کے چھٹے بڑے حصے کو گھیرے ہوئے تھا۔ اس کے پاس دنیا بھر میں سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار موجود تھے، بلاشبہ یہ ہتھیار ہزاروں کی تعداد میں تھے بلکہ بعض ماہرین کے مطابق سوویت یونین کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ اس کا اثرورسوخ پورے مشرقی یورپ تک پھیلا ہواتھا۔ معاہدۂ وارسا میں شامل یورپی ممالک سوویت یونین کے دفاعی اتحاد کا حصہ تھے۔ اس ساری صورتحال کے باوجود ایک سال سے بھی کم عرصے میں سوویت یونین کا انہدام ہوگیا اور مغربی سیاسی اور معاشی ماہرین اسے نظریے کا انہدام کہنے لگے۔ مغربی ماہرین اسے نظریاتی ناکامی کے ساتھ ساتھ معاشی اور بیوروکریٹک ڈھانچہ جاتی ناکامی بھی قرار دینے لگے۔ اس کے برعکس یورپ کے بائیں بازو کے اکابرین اور دانشور اسے سوویت کمیونسٹ پارٹی کے آخری سیکرٹری جنرل میخائیل گوربا چوف کی سازش، انقلاب دشمنی اور سامراج دوستی کا نتیجہ کہنے لگے۔ میخائیل گوربا چوف 11 مارچ 1985ء کو سوویت کمیونسٹ جماعت کے سیکرٹری جنرل بنائے گئے۔ اُس وقت “آزاد دنیا” سوویت یونین کو افغانستان میں گھیرے ہوئے تھی۔ امریکا 1950ء سے سوویت یونین کے خلاف ایک ایسی نظریاتی، غیرنظریاتی، مذہبی، غیرمذہبی، نفسیاتی، غیرنفسیاتی، عملی، غیرعملی، تعلیمی، غیرتعلیمی، حقیقی، غیرحقیقی سرد جنگ لڑ رہا تھا جو نظریاتی طور پر سوویت یونین کے خلاف تھی اور حقیقی طور پر یہ ایک غیراعلانیہ عالمی جنگ تھی جو دنیا کے کونے کونے میں لڑی جا رہی تھی۔ ایک طرف انتہائی مغرب میں چلی کے جنرل آگستو پینوشے (Augusto Pinochet) اِس جنگ کے سامراجی سپاہی تھے اور دوسری طرف انڈونیشیا کے جنرل سوہارتو اِس جنگ میں کرائے کے ٹٹّو کا کام کر رہے تھے۔ اِدھر جنوبی ایشیاء میں جنرل ایوب، جنرل یحیٰی اور جنرل ضیاء سرد جنگ کے گرم محاذوں پر اپنی خدمات پیش کر رہے تھے۔ ایسے میں آخری گرم محاذ افغانستان میں جنرل ضیاء نے سوویت یونین کو اَن گنت زخم لگائے اور پھر آخری مرحلے پر “آزاد دنیا” کو گوربا چوف جیسا آلۂ کار مل گیا جس نے اپنے کھُلے پن اور تعمیرِنو کے منصوبوں (Glasnost) سے سوویت یونین کی بنیادیں ہی کھود ڈالیں۔ اِن حالات میں چین نے اپنا ریاستی ڈھانچہ اور جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ برقرار رکھتے ہوئے چینی خاصیت کے ادغام سے نئے سفر کا آغاز کیا۔ یورپ کے بائیں بازو کے دانشوروں کے مطابق سوویت یونین کا انہدام گوربا چوف کی نظریاتی غداری کے باعث ممکن ہوا جبکہ چین نے نظریاتی ثابت قدمی، ریاستی استقلال، اور تنظیمی عزم کے ساتھ ترقّی کا شاندار سفر کیا۔

Advertisement

اب سوال یہ ہے کہ 1992ء کے اختتام پر سوویت یونین کے مقابلے میں کامیابی حاصل کرنے والی “آزاد دنیا” یکے بعد دیگرے عالمی کساد بازاری کا شکار ہوتے ہوئے اپنے سرمایہ دارانہ طرزِحیات کو کیسے بچا پائے گی۔ کیا اب ایسے حالات پیدا نہیں ہو گئے جب کرۂ ارض کی بقا کے ضمن میں نئے سنجیدہ سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ کیا یورپی کساد بازاری امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا اور ترقّی یافتہ دنیا کے ساتھ ساتھ ترقّی پذیر دنیا کا رُخ نہیں کرے گی۔ کیا آنے والا سال دنیا کیلیے نئے نئے بڑے سوال لے کر نہیں آرہا؟

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
ڈونلڈ ٹرمپ نے زہران ممدانی سے شکست کی وجہ بتادی
فن لینڈ کی وزیر خارجہ کے سلطنت عثمانیہ کے بارے میں طنزیہ ریمارکس
بھارت میں مسافر اور کارگو ٹرین میں خوفناک تصادم، 11 افراد ہلاک متعدد زخمی
فضل الرحمان نے فیصل واؤڈا کو 27 ویں ترمیم کا جائزہ لینے کی یقین دہانی کرا دی
بھارتی فوج میں خواتین افسران جنسی ہراسانی اور ادارہ جاتی ناکامیوں کا شکار، سنگین واقعات کا انکشاف
کراچی واٹر بورڈ میں من پسند افسران کو نوازنے کا سلسلہ جاری، اقربا پروری عروج پر
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر