Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

سیلاب کے بعد ایک اور بڑا مسئلہ

Now Reading:

سیلاب کے بعد ایک اور بڑا مسئلہ

متاثرہ افراد کی بحالی کے ساتھ ساتھ انہیں شدید سردی سے بچانا خیبرپختونخوا کی حکومت کے لیے ایک سخت چیلنج ثابت ہو رہا ہے

 تین ماہ قبل مون سون کا شدید سیلاب خیبرپختونخوا کے چترال، سوات اور کوہستان کے بلند و بالا علاقوں سے لے کر پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے میدانی علاقوں تک عمارتوں، درختوں، فصلوں اور اپنے راستے میں آنے والی ہر شے کو بہا لے گیا تھا۔ اگرچہ آئندہ بارشوں تک سیلاب کی مزید پیش گوئیاں نہیں ہیں، لیکن تین ماہ قبل سیلاب سے متاثر ہونے والے لوگوں کو اب ایک اور جان لیوا چیلنج کا سامنا ہے کیونکہ ملک کے بیشتر حصوں میں سردی کا موسم شروع ہو رہا ہے اور درجہ حرارت تیزی سے گر رہا ہے۔

رپورٹوں کے مطابق خیبرپختونخوا میں پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) نے سیلاب میں زخمی اور جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو اور دیگر امدادی سرگرمیوں کی مد میں 1اعشاریہ872 ارب روپے جاری کیے ہیں۔ اسی طرح لوگوں کے نقصانات اور ان کی املاک اور کاروبار کو پہنچنے والے نقصانات کی تلافی کے لیے تقریباً دو ارب روپے جاری کیے گئے ہیں۔

پی ڈی ایم اے خیبرپختونخوا کے ترجمان تیمور علی کے مطابق، اتھارٹی کی جانب سے نقصانات کے تقریباً 35ہزار دعووں کی تصدیق کی گئی ہے اور متاثرہ افراد کی فہرستیں ادائیگیوں کے لیے بینک آف خیبر (BoK) کو فراہم کی گئی ہیں۔ انہوں نے بول نیوز کو بتایا، ’’بینک پہلے ہی 8ہزار831 متاثرہ افراد کو سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کی ادائیگی کر چکا ہے۔‘‘

Advertisement

ترجمان پی ڈی ایم اے تیمور علی نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا،’’سیلاب کے دوران کل 6لاکھ74ہزار318 افراد بے گھر ہوئے جب کہ 4لاکھ 6ہزار538 افراد کو سیلاب زدہ علاقوں سے نکالا گیا اور اگست 2022 ء کے سیلاب کے دوران اور اس کے بعد مزید 69ہزار775 افراد کو بچایا گیا۔ ریسکیو اور ریلیف آپریشنز کے دوران 8لاکھ 86ہزار363 افراد کو پکا ہوا کھانا، جب کہ 2لاکھ 86ہزار224 افراد کو خشک کھانا فراہم کیا گیا۔ اسی طرح 1لاکھ53ہزار719 افراد کو غیرغذائی سامان فراہم کیا گیا۔‘‘

تفصیلات کے مطابق پی ڈی ایم اے نے صوبے کے 20 اضلاع میں ریلیف اور امداد کی تقسیم کی سرگرمیاں انجام دی ہیں جب کہ اس نے ریسکیو 1122 اور پی ڈی ایم اے بلوچستان کو بھی امدادی اشیا فراہم کی ہیں۔ تیمورعلی کے مطابق، “53ہزار583 خاندانوں کو خیمے، 25ہزار51 ترپالیں، 28ہزار473 کمبل، 18ہزار139 حفظان صحت کی کٹس، 14ہزار884 کچن سیٹ، 15ہزار839 پانی رکھنے کے کنٹینر، 30ہزار630 گدے اور 1ہزار640 زندگی بچانے کے لیے جیکٹیں فراہم کی گئیں۔’’انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کو خیموں ، لحاف، گدے، کمبل، مچھر دانیاں، حفظان صحت کی کٹس اور فوڈ پیکجز کے 1000 سیٹ کے علاوہ 10 ڈی واٹرنگ سسٹم فراہم کیے گئے۔‘‘

 بہت سی فلاحی اور غیر سرکاری تنظیمیں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ پاکستان ہلال احمر سوسائٹی (PRCS) اور الخدمت جیسی تنظیمیں بہت سے دشوار گزار علاقوں میں بڑھ چڑھ کر کام کررہی ہیں۔

پاکستان ہلال احمر سوسائٹی کی کاوشوں کو بیان کرتے ہوئے، اس کے خیبر پختونخوا چیپٹر کے ترجمان ذیشان انور نے بتایا کہ ہنگامی مرحلے میں، پی آر سی ایس نے انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (ICRC)، انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس (IFRC)اور ریڈ کریسنٹ ، جرمن ریڈ کراس اور نارویجن ریڈ کراس کے عطیات سے صوبہ بھر بشمول ڈیرہ اسماعیل خان، سوات، دیر، چترال، کوہستان، پشاور اور نوشہرہ میں تقریباً  5لاکھ افراد کو مدد فراہم کی۔

ذیشان انور نے کہا،’’تمام سیلاب زدہ علاقوں میںفوری ضرورت پینے کے صاف اور محفوظ پانی کی فراہمی ہے۔ کوہستان، کالام اور چترال میں فراہمی آب کے ذرائع (واٹر چینلز) کی بحالی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لوگوں کو پینے کے صاف پانی کے حصول کے لیے پہاڑی علاقوں میں میلوں پیدل چلنا پڑتا ہے کیونکہ زیادہ تر واٹر چینلز بہہ چکے ہیں اور ان واٹر چینلز کی بحالی کے کام پر اب تک زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔‘‘

پی آر سی ایس کے جائزوں کے مطابق سیلاب میں تقریباً 1800 مکانات مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے۔ آج تک 1100 خاندانوں کی مدد کی جا چکی ہے، جب کہ مزید 700 خاندان اب بھی پناہ گاہ اور زندہ رہنے کے لیے دیگر بنیادی ضروریات کے سلسلے میں امداد ملنے کے منتظر ہیں۔

Advertisement

ذیشان انور نے مزید کہا، ’’خوراک اور صحت کی سہولیات کی فراہمی دیگر بڑے چیلنجز ہیں۔ ہم ابھی اندازہ کرنے کے مرحلے میں ہیں، جس میں ہم متاثرہ علاقوں میں طبی ٹیمیں بھی بھیج رہے ہیں۔ PRCS نے حال ہی میں مٹہ، کالام اور بالائی سوات، نوشہرہ اور ڈیرہ اسماعیل خان کے دیگر علاقوں میں طبی ٹیمیں بھیجی ہیں۔ آئی سی آر سی اور نارویجن ریڈ کراس اس سلسلے میں مدد کر رہے ہیں۔ نوشہرہ، ڈی آئی خان میں بھی طبی ٹیمیں بھیجی جارہی ہیں۔ چترال میں ہماری موبائل ہیلتھ ٹیمیں ہیں۔ اسی طرح، جرمن ریڈ کراس کے تعاون سے 2500 فوڈ پیکجز اور نقد امداد حال ہی میں نوشہرہ، سوات اور ملک کے دور افتادہ علاقوں وادی بریپ اور افغانستان کے صوبہ بدخشاں کی سرحد کے قریب بالائی چترال کے دیگر علاقوں میں فراہم کی گئی ہے۔‘‘

ترجمان کے مطابق ایک اور مسئلہ ایک ہی فرد کو ایک سے زائد بار امداد فراہم کردینا ہے جس کے نتیجے میں کچھ لوگوں کو ہر طرح کی امداد ایک سے زیادہ مرتبہ ملتی ہے جب کہ دیگر اس سے محروم رہتے ہیں، ترجمان نے کہا کہ وہ PDMA کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ جلد از جلد یہ مسئلہ حل کیا جا سکے۔

تاہم، بالائی سوات میں سماجی کارکن اور ماہر تعلیم زبیر تور ولی نے کچھ ایسے مسائل کی نشاندہی کی جن کے بارے میں ان کے خیال میں تمام متعلقہ سرکاری محکموں اور این جی اوز کے فوری ردعمل کی ضرورت ہے۔

زبیر تور ولی نے بتایا، ’’اہم بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت ان علاقوں تک رابطہ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر نو پر کام کر رہی ہے جو ابھی تک ناقابل رسائی ہیں۔ اسی طرح وفاقی حکومت مرکزی کالام بحرین روڈ پر کام کر رہی ہے۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ سب لوگوں کے تباہ شدہ مکانات کو بھول گئے ہیں۔ کچھ این جی اوز نے خیمے تقسیم کیے ہیں لیکن وہ سرد موسم کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ لوگوں کے لیے پناہ گاہوں کی تعمیر نو کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے نتیجے میں موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی نقل مکانی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ لوگوں کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہیں ہے، ان کے پاس نہ تو کھانے کے لیے کچھ ہی اور نہ ہی روزگار کا کوئی ذریعہ۔ لیکن یہ صرف موسمی یا عارضی نقل مکانی نہیں ہے، بہت سے لوگ مستقل طور پر ضلع چھوڑ چکے ہیں۔‘‘

زبیر تور ولی نے کہا کہ بالائی سوات میں جن لوگوں نے اپنے گھر نہیں چھوڑے، ان کے پاس سردی سے لڑنے کے لیے مزید لکڑیاں کاٹنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ انہوں نے کہا’’اس سے جنگلات پر بوجھ بڑھ گیا ہے جو کچھ جگہوں پر تیزی سے ناپید ہو رہے ہیں۔ لوگوں کو جلانے کے ساتھ ساتھ رابطہ پلوں کی تعمیر نو کے لیے بھی زیادہ لکڑی کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ وہ ماضی میں پلوں کی تعمیر کیا کرتے تھے۔ حکومت کو اس مسئلے کا بھی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

موسم سرما میں سینے میں انفیکشن جیسی بیماریوں اور صحت کے مسائل کے پھیلاؤ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے علاوہ زبیر تور ولی نے ان لوگوں کے لیے خوراک اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کی ضرورت پر بھی زور دیا جو اس تک رسائی سے محروم ہو چکے ہیں۔

Advertisement

تور ولی نے کہا، ’’اسی طرح سیلاب سے بالواسطہ متاثر ہونے والے افراد کو مالی یا دیگر امداد میں مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے مکانات محفوظ ہوں، لیکن بہت سے لوگ اپنی پیداوار سے محروم ہوگئے اور اس کے ساتھ ان کے اپنے خاندانوں کو پالنے کے ذرائع ختم ہو گئے کیونکہ سیلاب کے دوران بازاروں تک ان کی رسائی نہیں رہی تھی۔ جب کہ دیگر لوگ حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ دریا کے قریب حفاظتی دیواروں کی تعمیر نو کی جائے تاکہ کنارے کے ساتھ ساتھ خطرے سے دوچار زرعی زمینیں محفوظ ہوسکیں۔‘‘

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
ٹی وی میزبانوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ! برطانوی چینل پر بھی اے آئی اینکر متعارف
پیرس کے تاریخی ’’لوور میوزیم‘‘ میں چوری کی واردات کس طرح انجام دی گئی؟ تفصیلات سامنے آگئیں
حماس نے جنگ بندی توڑی تو انجام تباہ کن ہوگا، امریکی صدر کی دھمکی
مہنگائی کا نیا طوفان آنے کا خدشہ ، آئی ایم ایف کا پاکستان کو انتباہ
کراچی میں 20 گھنٹوں کے دوران ٹریفک حادثات، 2 بچوں سمیت 10 افراد جاں بحق
کیا یہ دوہرا معیار نہیں؟ خامنہ ای کے قریبی ساتھی کی بیٹی مغربی لباس میں دلہن بن گئیں
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر